خلیفہ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد رفیق الاسلام نوری منظری دیناج پوری جس سمت آگیے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
جس سمت آگیے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
امام اہل سنت سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد ہے : قطب شمالی میں چھ مہینے نو دن کا دن اور نو دن سے کم چھ مہینے کی رات ، اور قطب جنوبی میں بالعکس، اس لیے کہ اوج آفتابی شمالی ہے اور حضیض جنوبی،،،،،،، کوکب کے طلوع اور غروب حرکت شرقیہ فلکیہ سے نہیں بلکہ صرف اپنی حرکت خاصہ سے،، (فتاوائے رضویہ جلد 11ص38)
یہ امام احمد رضا کی ایک مختصر عبارت ہے، جو بے شمار علمی معدنیات سے بھرپور ہے، اہل بصیرت ہی اس کی پرنور گہرائیوں کا کچھ اندازہ بتا سکتے ہیں، میری بے بضاعتی کی کثافت کو روند کرجو جھلکیات بھی میرے خوابیدہ احساسات کو بیدار کرتی ہیں، اور اس عبارت میں مخفی معدنیات کی جو کرنیں جلوہ گر ہوتی ہیں ، وہ بھی ہند کے راجہ میرے خواجہ کے ،کاسہ میں انا ساگر، کا نمونہ پیش کرتی ہیں،۔
فرماتے ہیں:۔ قطب شمالی میں چھ مہینے نو دن کا دن،،۔
ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کی مشرق سے سورج طلوع کرتاہے، اور مغرب میں غروب ہوتاہے اسی طلوع اور غروب کے درمیان دن کا وجود ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں یعنی غروب اور طلوع کے درمیان رات ہے
جب رات و دن کا تعلق اس طلوع اور غروب سے ہے تو وہ انسان جو خط استوٰی پر نہیں بلکہ اس سے شمال یا جنوب میں ہو ہمیشہ اس کا دن اعتدالی نہیں ہوگا، بلکہ کبھی دن رات سے چھوٹا ہوگا اور کبھی بڑا، اس زیادتی اور نقصان کی مقدار کا تعین اس انسان کا عرض بلد کرےگا
یعنی خط استوٰی سے اس انسان کی دوری بتائےگی کہ دن کتنا بڑا ہوگا یا کتنا چھوٹا، سورج جب اعتدال سے انقلاب کا رخ کرے، اور وہ انقلاب موافق عرض انسان ہو تو اس کا دن بڑا ہوگا، اور یہ زیادتی روز بروز ترقی پذیر رہیگی، مثلا سورج انقلاب شمال میں ہے اور انسان بھی عرض شمالی میں تو 20مارچ کے بعد 21جون تک اس کا دن بڑھتا جائیگا اس کے بعد گھٹنا شروع کریگا اور 22ستمبر کے بعد پھر اعتدال میں آئے گا،۔
۔20مارچ سے 21جون تک دن میں جو زیادتی ہو گی پھر اعتدال تک اس میں جو نقصان ہوگا، اسی کی طرف رہ نمائی کرتے ہوئے امام احمد رضا فرماتے ہیں:۔ قطب شمالی میں نو دن چھ مہینے کا دن،،۔
یعنی خط استوٰی سے شمال کی طرف جس طرح عرض بڑھتا جائیگا اسی طرح دن بھی بڑا ہوتا جائے گا اور اس عرض کے بڑھنے کا یہ تسلسل جب تمام میل شمس کے مطابق تک رسائی کرے گا تو سورج غروب ہی نہیں کرے گا،۔
اور یہ عرض کم از کم ساڑھے 66 درجہ کا ہوگا، کہ 22،21جون میں یہان کا سورج غروب ہی نہیں کریگا، یہاں سے قطب شمالی تک دن طویل سے طویل تر ہوتا جائے گا، کہ اور آگے کی رات پہلے سے ہی غائب ہو چکی ہوگی، ساڑھے 66 درجہ سے نوے درجہ قطب شمالی تک ہر اگلے قدم میں دن کی مقدار بڑھتی جائے گی، کرئہ زمیں کے لیے جس کی انتہاء قطب شمالی ہے، یہاں خود جہت کو لالے پڑے ہیں یہاں شمال ہے نہ جنوب ، جنوب تو نقطئہ سمت القدم میں چلا گیا اور شمال سمت الراس میں، یہاں نہ مشرق ہے اور نہ مغرب،۔
جب شرق و غرب ہی نہیں تو پھر طلوعِ شمس اور اس کے غروب کا کیا معنی یہ اس لیے ہے کہ اس کا دائرئہ افق دائرئہ معدل پر منطبق ہوگا سورج کا کنارہ بالائے افق نظر آئے تو دن ہے ورنہ رات، جب کہ مفروض آبادی قطب شمال میں ہے تو پھر اس کے سورج کا کنارہ معدل سے انقلاب شمالی کی طرف تجاوز کرے گا تب ہی وہ کنارہ بالائے افق نظر آ سکتاہے ورنہ نہیں،۔
لہذا یہاں کے دن و رات کا تعلق مشرق و مغرب سے نہیں بلکہ اعتدال کے حصئہ بالا و زیرین سے ہے، اس لئے تو اعلی حضرت نے فرمایا،،۔ کوکب کے طلوع اور غروب حرکت شرقیہ فلکیہ سے نہیں بلکہ صرف اپنی حرکت خاصہ سے،، اور بلا تردد یہی انقلاب شمالی و انقلاب جنوبی بھی ہے، ہمارے مشاہدات میں موسم چار ہیں جب کہ بعض ماہرینِ فلکیات نے خط استوٰی میں آٹھ موسموں کو بیان کیا ہے، جو در حقیقت انھیں چار کی طرف مائل ہیں،۔
ربیع، خریف، صیف اور شتاء، شتاء کے بعد ربیع اور صیف کے بعد خریف
ان چاروں موسموں نے دائرۃ البروج کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ہر ایک حصہ میں تین تین مہینے آئے، ان چاروں میں ربیع اور صیف ہمارے لیے شمالی ہیں جبکہ خریف اور شتاء جنوبی، کہ ہم شمالی ہیں۔
اور جنوبی ممالک کے لئے بالعکس، دائرۃ البروج کے اس انقسام کو پیش نظر رکھیں تو ایک شبہ کا ظہور یقینی ہے کہ جب دو موسم جنوبی اور دو شمالی ، اور تین سو پینسٹھ دن پونے چھ گھنٹے کی یہ پوری مسافت ہے
لہذا ربیع اور صیف کی مدت قریب ایک سو پونے تراسی دن کی ہونی چاہئے نہ کہ اس حصہ میں خریف اور شتاء کے مقابلہ میں چھ مہینے پر بھی نو دن زائد؟ اسی احتمالی شبہ کے ازالہ میں امام احمد رضا نے فرمایا،، اس لئے کہ اوج آفتابی شمالی ہے اور حضیض جنوبی، اوج میں چونکہ زمین سے بعد بڑھتا ہے اور حضیض میں قرب۔
لہذا اوج کی زیادتی کے ساتھ ساتھ دائرئہ یومیہ کی وسعت بھی زائد ہوگی اور وسعت و رقبہ کی زیادتی سے دائرہ کی مسافت بھی بڑھتی جائےگی، نتیجۃ دن و رات کا مجموعہ چوبیس گھنٹے سے زائد ہوگا یہی وجہ ہے کہ دائرہ یومیہ کی صبح و شام میں اوقات کی زیادتی و نقصان میں تعادل و تناظر کے باوجود نصف النہار ایک ہی جگہ برقرار نہیں رہتاہے
بلکہ بدلتا جاتا ہے، کہ سورج کی تبعی حرکت اگرچہ مسافت کے لحاظ سے ہمیشہ ایک ہی ہے لیکن درجات و دقائق کے لحاظ سے ایک ہرگز نہیں، اس کا مشاہدہ ہمیں اوقاتِ نصف النہار، نصف اللیل، طلوع اور غروب میں بھی بخوبی ہو رہاہے، اوج چونکہ شمالی ہے
لہذا اس اوج میں زیادتی کے ساتھ ساتھ سورج کی تبعی چال میں درجات و دقائق کے لحاظ سے سست روی آتی جائےگی، اور قطب شمالی کا دن بڑا ہوتا جائیگا اسی کے مدنظر امام احمد رضا نے فرمایا:۔
قطب شمالی میں چھ مہینے نو دن کا دن یعنی دونو انقلابی دنوں کے مابین اٹھارہ اعتدالی دنوں کا فاصلہ ہوگا،۔
ظاہر ہوا کہ قطب شمالی کا ایک دن ہمارے ایک سو اکانوے دنوں کے برابر ہے، اس کے باوجود اس دن کا بڑھنا اسی مقدار تک محدود نہیں بلکہ یہ دن تو اہل نجوم کا ہے اس میں پورا سورج اب بھی نظر آتا رہے گا
اہل عرف کو اس سے کیا تعلق کہ یہ نجومی دن تو اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک سو اکانوے دن پہلے مرکزشمس کا انطباق نقطئہ اعتدال پر ہوا تھا، پھر ایک سو اکانوے دن بعد اسی انطباق پر آیا تو اہل نجوم کے نزدیک قطب شمالی کا سورج غروب ہو گیا اور قطب جنوبی کا دن شروع ہوا لیکن اہل عرف کے نزدیک یہ دن اور بھی بڑا ہوگا، اسی کی تعلیم دیتے ہوئے فاضل بریلوی نے فرمایا:۔
پھر یہ نہار و لیل تنجیمی ہے عرفی لیجئے تو نصف قطر آفتاب اور حصئہ انکسار بڑھکر مقدار نہار میں اور بہت سے دن بڑھ جائینگے، اور نہار شرعی کے لیے اور اٹھارہ درجے کا انحطاط لیجئے تو کئی مہینے مقدار نہار میں شامل یہاں نہار نجومی کے علاوہ سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اور دو دنوں کا تذکرہ فرمایا نہار عرفی اور نہار شرعی،۔
نجومی دن میں طلوع اور غروب کے وقت نصف قطر شمس بالائے افق تھا، اس کا اعتبار شریعت کو ہے نہ ہی عرف کو، جبکہ عرفی دن نجومی دن سے بڑا ہوتا ہے اور شرعی دن تو عرفی دن سے بھی بڑا ہے
عرفی دن میں وہ نصف قطر شمس بھی زیرین افق ہو، جو نجومی نہار میں بالائے افق تھا پھر بھی وہ وقت دن کا حصہ ہے
اہل عرف میں افق حسی پر سورج کا کوئی بھی کنارہ نظر آئے تو وہ جزء نہار ہے نہ کہ جزء لیل، لہذا اہل عرف کا اعتبار کریں تو اس میں اور بھی کئی دن شامل ہو جائینگے، اس لیے فاضل بریلوی نے فرمایا پھر یہ نہار و لیل تنجیمی ہے عرفی لیجئے تو نصف قطر آفتاب اور حصئہ انکسار مقدار نہار میں شامل ہوکر اور بھی بہت سے دن بڑھ جائیں گے،،۔
یہ نصف قطر شمس تو وہی ہے، سورج کا جو نصف حصہ نجومی دن میں بالائے افق تھا، یہ بھی زیر زمین چلا جائے پھر بھی سورج نظر آئیگا، اس لئے کہ آنکھوں کی شعاعیں جب ہوائے کثیف کو عبور کرتے ہوئے ہوائے صافی میں گزرتی ہیں تو ان دونوں کے ملتقی پر ان شعاعوں میں انکسار ہوتا ہے
اس لیے زیر زمین ہونے کے باوجو سورج ہمیں نظر آتا رہتاہے، جیسے شیشہ کے سامنے شعاعوں میں انکسار کی وجہ سے ہم اپنے پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھ لیتے ہیں، فضاؤں میں اس انکسار کی مقدار امام احمد رضا نے 33دقیقہ فلکیہ بتائی ہے، اس کا وقت دو منٹ بارہ سیکنڈ ہے نصف قطر شمس کے علاوہ آفتاب میں اس 33 دقیقے کا انحطاط اور ہو تو ہی وہ رات کا حصہ ہوگا،۔
اور قطب کا افق جب معدل پر منطبق ہے تو نصف قطر شمس اور اس 33دقیقے کا میل جنوبی ہو گا تب ہی عرفی دن کا خاتمہ ہوگا، لہذا شمالی دن میں اور کئی دن شامل ہوکر یہ ایک دن قریب 200 اعتدالی دنوں کے برابر ہو جائے گا،۔
اسی لیے فاضل بریلوی نے فرمایا کہ عرفی دن لیجئے تو الخ اس شمالی دن کی زیاتی اب بھی نہیں رکے گی، نہار نجومی سے ہمیں کوئی غرض نہیں اور عرفی دن بھی ہمیں کافی نہیں کہ طلوع صبح صادق سے ہی ہمارے شرعی دن کی ابتداء ہے، یعنی شرع مطہر میں وقت فجر دن کا حصہ ہے رات کا نہیں جبکہ اہل نجوم اور اہل عرف اسے رات کا حصہ مانتے ہیں دن کا نہیں، ہمیں تو اپنا دن بتانا ہے نہ کہ ان دونوں کا؟۔
اس لیے امام اہل سنت قدس سرہ آگے فرماتے ہیں ، ،،اور نہار شرعی کے لئے اٹھارہ درجے کا انحطاط لیجئے تو کئی مہینے مقدار نہار میں شامل الخ،،۔
اب اس شمالی دن میں گھنٹے اور دن بڑھنے کا سوال نہیں بلکہ مہینے بڑھینگے، لہذا شرعی عینک سے دیکھیں تو یہ ایک نہار شمالی اعتدالی آٹھ مہینے سے بھی بڑا ہوگا، بہر حال یہ دن نجومی لیں عرفی لیں یا پھر شرعی، کرئہ زمیں کے نصف شمال میں دفعۃ واحدۃ اس میں یہ افزودگی نہیں ہوتی ہے
وہ آبادیا خط استوٰی سے جنکی دوریاں بڑھتی جاتی ہیں، اور قطب شمال سے قرب بڑھتاہے، تو میل شمالی کے ساتھ ساتھ دن بھی ان آبادیوں کا بڑا ہوتا جائیگا، یہاں تک کہ عرض 49درجہ شمالی میں 22،21،20 جون کو عشاء کا وقت بھی نہیں ملے گا،۔
عرض 49درجہ سے بھی زیادہ ہو تو رات اور بھی چھوٹی ہوتی جائیگی، ساڑھے 66درجہ کے عرض کا سورج ان تینوں تاریخوں میں غروب ہی نہیں ہوگا،۔
پھر یہاں سے آگے قطب شمالی کی طرف اور قدم بڑھاؤ تو بالائے افق جو اس کی افق سے انتھائی قرب کی منزل ہے اس میں بھی دوری بڑھتی جائیگی، اور یہ افزود گی قطب شمالی میں تمام ہوگی یہیں کا دن سب سے بڑا ہوگا،۔
اللہ تعالی اس عظیم مجدد و محقق کے روضۂ پُرانوار پر اپنی رحمتوں کی گہرباری کرے اور اس کے فیوض و برکات کی دولت سے ہم مفلسوں کو بھی مالا مال کرے : آمین
تمھاری شان میں جو کچھ کہوں اس سے سوا تم ہو
قسیمِ جام عرفاں اے شہِ احمد رضا تم ہو
تحقیق
محقق مسائل نادرہ ماہر اجرام فلکیہ خلیفہ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد رفیق الاسلام نوری منظری دیناج پوری
شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتاء الجامعۃ العربیہ غوثیہ شکوریہ بلہور کان پور یوپی
پیش کش
۔(مولانا) محمد عسجد رضا ابن مفتی محمد رفیق الاسلام صاحب
جامعہ غوثیہ شکوریہ بلہور کانپور یوپی
ان مضامین کو بھی پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں
تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے