تحریر: ڈاکٹر امجد رضا امجد انتقادی نظریات اور امام احمد رضا کا اصول نقد
انتقادی نظریات اور امام احمد رضا کا اصول نقد
اصول تنقید کے موضوع پر اردو ادب کے ناقدین نے بہت کچھ لکھا ہے
جن میں حالی شبلی ، امد اد امام اثر، نیاز فتح
پوری اور محی الدین قادری زور سے لے کر کلیم الدین احمد ،احتشام حسین اور آل احمد سرور کی تحریر میں بہر حال نمایاں اور اختصاصی توجہ کی مستحق ہیں۔
اس طرح پاکستان کے وزیر آغا، انور سدید حسن عسکری اور سلیم اختر کی
تنقیدی خدمات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
مگر ہمارے انتقادی ادب کا یہ المیہ ہے کہ تذکروں کے تنقیدی مواد اور شعرا کے تنقیدی شعور کی یاد داشتوں سے لے کر زمانہ حال کے ناقدین کی تحریروں تک اس موضوع پر ہزاروں صفحات پڑھ جائے اور بڑے بڑے نقادوں کے تنقیدی نظریات کھنگال ڈالیے پھر بھی آپ کو ایسے جامع اور منضبط تنقیدی اصول نہیں ملیں گے جو اصل ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں۔
یوں تو تنقید کے سلسلے میں صاحب قطب مشتری کے منظوم خیالات ، ولی اور فائز کے تنقیدی افکار ، گلشن بے خار اور نکات الشعراء کے بیانات ، مجموعہ نغز اور آب حیات کی تحریریں بار بار حوالوں کے کام میں آتی رہی ہیں
اور اردو تنقید کی تاریخ جیسی کتاب میں ڈاکٹر مسیح الز ماں نے عربی وفارسی اصول نقد پر گفتگو کرتے ہوے ابوالفرح قدامہ بن جعفر کے ’’نفذ الشعر “ اس کی شرح عقد الشعر ، اور ابن رشیق کی ، مراۃ الشعر“ سے بہت کچھ کام کی باتیں اخذ کی ہیں اور انہیں سلیقے سے سامنے لایا ہے۔
لیکن فی الواقع یہ سب کچھ بنیادی طور پر شاعری کے اصول ہیں جنہیں خالص تنقید کے جامع اصول کہنا بڑی حد تک تکلف سے خالی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ناقدین فن اب تک یہی فیصلہ نہیں کر سکے کہ انفرادی پسند یدگی کو معیار بناکر اصول وضع کیے جائیں ، یا اجتماعی پسندیدگی کو وضع اصول کا معیار بنایا جاے۔
نیتجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تنقیدی دبستانوں کی تاریخ بڑھتی رہی
اور دوسری طرف آزاد نقاد ، جیسا کہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں:۔
”ضروری ہے کہ ہم خود اپنے لیے اصول مرتب کرلیں چوں کہ آج کل فن انتقاد کے متعدد اصول پاے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے لیے علیحد ہ قوانین مقرر کر لیے ہیں ایک آزاد نقاد کے لیے بہترین طریقہ یہی ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو کسی ایک اسکول کا
پیرونہ سمجھے اور خود اپنی قوت تمیز سے کام لے کر حسن وقبح کا فیصلہ کرے اس کو صرف اپنی راے پر اعتماد کرنا چاہیے اور یہ سمجھ لیناچاہیے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے“۔
ظاہر ہے کہ اس صورت میں نقد ادب کے متخالف نظریات اور متضاد اصولوں کا سامنے آنا اور پروان چڑھنا ناگزیر ہے کیوں کہ ہر شخص کے ذوق کا معیار اور پیائش کا زاویہ نہ تو یکساں ہوتا ہے اور نہ ہی کیساں ہو سکتا ہے ۔ نظریاتی بکھراؤ کے اس ماحول میں ایک ہی ادب پارہ حکم اور تعین مراتب کے وقت بعض کے نزدیک ادب میں اضافے کا باعث ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک ناقابل اعتنا قرار پاتا ہے۔
یہیں پہنچ کر ہمیں ایک ایسے جامع و مانع اور منضبط ومحکم اصول کی ضرورت کا شدید احساس ہوتا ہے جو عقل و منطق کی کسوٹی پر پورا اتر تا ہو ، جس میں سائنس کی سی صحت و قطعیت ہو ، جو ذاتی پسند و نا پسند سے بالا تر ہو کر دوٹوک فیصلہ کرنے اور فن اور فن کار کے ساتھ انصاف سے کام لینے کی صلاحیت رکھتا ہو اور حکم و تعیین مراتب میں کسی کش مکش، بیجا مصلحت ، ذاتی یا گروہی عصبیت کا شکار نہ ہو۔
اگر پوچھا جا کہ اردو تنقید میں اب تک ایسے اصول وضع ہوے ، یا نہیں جنہیں کلی عقلی منطقی کہا جا سکے اور جو تنقید کے تمام دبستان کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو یہ ہمہ وجوہ یعنی ترتیب تنظیم اور جامعیت و معنویت کے اعتبار سے اس سوال کا مثبت جواب یقینا مشکل ہی نہیں قریب المحال ہو گا ۔ ہاں مختلف ناقدین کے یہاں جابجا بکھرے ہوۓ چند ایسے اصول ضرور مل جائیں گے جنہیں صحیح معنوں میں اصول نقد کہا جاسکے۔۔
دیگر ارباب علم ونقد کے دوش بدوش چودہویں صدی ہجری کے ایک عظیم محقق، فقیہ ، ناقد اور شاعر امام احمد رضا بریلوی کے یہاں بھی ایک رسالہ ”الزمزمة القمر یہ في الذب عن الخمریہ میں تنقید کے چند اصول بیان ہوے ہیں
اس رسالہ کی ایک
اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ آج سے ایک سوسولہ (116) سال پہلے یعنی 1306ھ میں لکھا گیا اور جسے حالی کے مقدمہ شعر و شاعری پر بھی کم سے کم 5/4 برسوں کا تقدم حاصل ہے حالی کی کتاب 1883ء میں مکمل ہوئی جب کہ عیسوی تقویم کے لحاظ سے امام احمد رضا کا یہ رسالہ 1879ءکی یا گار ہے ۔
آیئے دیکھیں ان اصولوں کی کیا اہمیت ہے اور انہیں اردو تنقید کے جامع اصول کی حیثیت سے قبول کرناکہاں تک ممکن اور قرین انصاف ہے ۔
اگر چہ بنیادی طور پر اس رسالہ میں عملی تنقید سے کام لیتے ہوے ایک عربی قصیدے ”قصیدہ غوشیہ کی زبان و بیان پر ہونے والے اعتراضات کا جواب مہیا کیا گیا ہے لیکن یہاں چوں کہ برسبیل تذکرہ صاحب رسالہ نے اصل موضوع (تنقید ادب ) سے متعلق چند اصول قائم کر کے اپنی گفتگو آگے بڑھائی ہے
اس لیے اصل بحث پر مستزاد، اس کا مطالعہ یوں مفید مطلب بن جاتا ہے کہ یہاں صاحب رسالہ نے جو تنقیدی اصول سامنے لاے ہیں وہ ایک آفاقی انداز رکھتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ وہ محض عربی یا کسی ایک زبان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ایسا آفاقی فطری اور عقلی اصولی تنقید ہے جن کی
جامعیت ومانعیت اور افادیت علی حالہ برقرار ہے۔
اس رسالہ کے سطور اور بین السطور سے بآسانی اندازہ ہوتا ہے کہ تنقید کی پہلی ضرورت امام احمد رضا کے نزدیک مقصو دفن کی تعیین ہے، یعنی اس امر کی تحقیق کہ ادب کی تخلیق و ترسیل سے ادیب کا منشا کیا ہے اور اس نے اپنی تخلیق میں کس چیز کو فن کا موضوع ٹھہرایا ہے ۔
مقصود فن متعین کیے بغیر تعمیری اور مثبت تنقید ممکن ہی نہیں ، اس لیے تنقید کی پہلی شرط یہی ہے کہ ناقد مقصود فن کی شناخت کرے اس شناخت کے لیے امام احمد رضا نے تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ ایک ہی ادب پارے کی چار جہتیں متعین کی ہیں ۔
اول ۔مقصود بالذات
دوم ۔ مقصود بالغیر
سوم ۔ توابع ولحوق مقصود
چہارم ۔۔۔۔۔الۂ اظہار مقصود
یعنی الفاظ اور اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے متعدد مثالوں سے ان جہات چہار گانہ کے مرتبہ کی وضاحت بھی کی ہے جس سے
بدیہی طور پر کسی بھی ادب پارے کے مقصود دو مطلوب کی شناخت آسان ہوجاتی ہے
پہلی قسم کے بارے میں امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں۔
مقصود بالذات من كل الوجوہ وہ معانی ہیں جو اس فن کے مقاصدہوں اور اس بحث میں سوق کلام بھی خاص انہیں کے لیے ہو جیسے کتاب الصلاۃ میں مسائل صلوۃ کا ذکر ، اور کتاب الصوم میں مسائل صوم کا۔
دوسری قسم کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
باعتبار عموم مرام تو مقصود بالذات ہومگر بلحاظ خصوص مقام مقصود بالغیر وہ معانی ہیں کہ اپنی ذات میں تو اس فن کے مقاصد سے ہوں مگر یہاں اس کے لیے سوق کلام نہیں جیسے کتاب الصلوۃ میں دلائل و شواہد کے ضمن میں بعض مسائل صوم کا آجانا۔ اگر چہ روزہ کے مسائل بھی حقیقی مسائل فقہ سے ہیں مگر کتاب الصلوۃ میں ان کا ذکر تبعی ہے“
تیسری قسم کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وہ اصلا مقاصد فقہ سے نہیں بلکہ محض مقصود کے توابع و لواحق ہیں جیسے فقہ کی کتابوں میں احادیث کا ذکر ، یا اصول اور حدیث کی کتابوں میں مسائل فقہ کا ذکر “۔
چوتھی قسم کی توضیح کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:۔
”وہ جنہیں قصد و نظر سے اصلا کوئی علاقہ نہ ہو بلکہ وہ مطالب اصلیہ و تبعیہ کے بیان (واظہار کا صرف آلہ ہوں جیسے الفاظ ،، اس تقسیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فن پارے میں (اگر وہ ادب براۓ تفریح نہ ہو ) الفاظ کی حیثیت حقیقتا ذرائع ووسائل کی ہوتی ہے مقصود کی نہیں ۔۔
دوسری اور تیسری سے یہ بات بھی معلوم ہوجا ہے کہ مقصود کے اثبات کے لیے دلائل و شواہد کے طور پر پیش کیے گئے مواد کی حیثیت محض مقصود کے معاون کی ہوتی ہے ۔۔۔
چاروں اقسام بیان کرنے کے بعد امام احمد رضا فرماتے ہیں: اس ترتیب میں جو مر تبہ جتنا اترتا ہے اس کی طرف التفات متکلم اس قدر گٹھتا جا تا ہے یہاں تک کہ جانب الفاظ نظر نہایت سر سری اور محض بے پروائی کے ساتھ رہ جاتی ہے ۔
“ مفہوم یہ ہے کہ قسم دوم و سوم میں اگر کوئی فی نقص در آۓ تو اس سے فن کار کی شخصیت اور فن پارے کے اصل مقصود کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ہاں ! یہ ضرور ہے کہ جس میں نقص واقع ہو ، اسےفنی لحاظ سے ناقابل اعتبار کہا جاۓ امام احمد رضافرماتے ہیں:۔
کتب اصول میں جو مسائل فرع مذکور ہوں وہ کتب فقہ کے مخالف ہوں تو پایۂ اعتبار سے مجروح ہوں گے جب مسئلہ کا ایک حکم اس کے باب میں مذکور اور دوسرا اس کے خلاف باب میں مسطور ، تو باب کا حکم غیر باب سے اولی اور معتبر تر ہے‘‘۔
پھر چوتھی قسم یعنی الفاظ کے متعلق فرماتے ہیں ۔
جب قسم دوم سوم کا تنزل اس درجہ موجب تساہل ہوتا ہے تو قسم سوم چہارم (الفاظ) کس درجہ بے پروائی وسہل انگاری کی محل ہونی چاہیے“۔
ان چاروں اقسام کی تعریف و تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ تنقید مقصودفن پر ہونی چاہیے لواحق مقصود اور ذریعۂ اظہار یعنی الفاظ پر نہیں کہ اصلا بڑے فن کار کی توجہ قدرت فن کے باوجود یا تو دیگر مصالح سے اس طرف ہوتی ہی نہیں ہے یا اگر ہوتی ہے تو پورے اہتمام کے ساتھ نہیں ہوتی۔
ایسی صورت میں دراصل ناقد کا کام یہ دیکھنا ہے کہ فن کار نے اپنے فن پارے اور ادیب نے ادب پارے میں کیا پیش کیا ہے اور جو کچھ پیش کرنا چاہا ہے اس میں وہ کام یاب ہے یا نہیں
اور دوسری بات یہ ہے کہ متذکرہ اصولوں کی پیش کش کرنے والے فاضل رسالہ نگار کار جحان معنی مراد کی طرف غالب ہے ۔ وہ کسی بھی تخلیق کا مطالعہ و مشاہدہ خالص جمالیا تی اور ہیئتی اعتبار سے نہیں کرتے بلکہ الفاظ کا نقاب الٹ کر حسن معانی کابنظر غائر مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں ۔
مگر اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ امام احمد رضا قدس سرہ کے یہاں الفاظ ، زبان و بیان اور خارجی ہیئت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ، جمالیات کا ان کے یہاں بھی ایک پاکیزہ توانا تصور موجود ہے اور انہیں بھی تمام ادبیاتی لڑیچر میں جمالیاتی عناصر کی تلاش رہتی ہے
مگر وہ شبلی نعمانی اور نیاز فتح پوری کی طرح حسن کے معاملہ میں انتہا پسند واقع نہیں ہوۓ ہیں کہ ادب کی روح سے اغماض کر سکیں اور خارجی حسن پر جان چھڑکتے جائیں۔
الفاظ کو ذریعۂ اظہار کہنے سے ان کا مفہوم یہ ہے کہ جس تخلیق کا مقصود ادب نہیں کوئی اور موضوع ہو وہاں الفاظ کی حیثیت محض ابلاغ و ترسیل اور وسیلہ اظہار کی ہوگی اور اس تخلیق پر تنقید کرتے وقت خار جی ہئیت کو نہیں بلکہ اس کے اصل مقصود کو موضوع بناناہوگا
مگر جس تخلیق کا مقصود ہی ادب ہو وہاں الفاظ و معانی اور موادو ہئیت دونوں پر یکساں نظر رکھی جائے گی کہ یہاں مقصود میں مواد اور ہئیت دونوں شامل ہیں اور ادب دونوں کے تلازم ہی کا نام ہے ۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ایک انگریز نقاد (فرل ) کا قول نقل کیا ہے کہ ادب کو فنون لطیفہ کی ایک شاخ اور ساجی عمل دونوں حیثیتوں سے دیکھنا چاہیے جب ادب کو اس طرح دیکھا جاتا ہے تو اس کے دو پہلو نظر آتے ہیں
(۱) ایک افادی
FUNCAL اور
(۲)دوسراجمالیاتی ACATHETIO اور ادب ان دونوں نقطوں سے مل کر بنتا ہے ‘‘ اس لیے ادبی نگارشات پر تنقید کے وقت دونوں پہلوؤں پر نظر رہنی چاہیے، مگر اس یقین کے ساتھ ہیئت کے مقابلہ میں مواد کی اہمیت زیادہ ہے۔
خالص جمالیاتی عینک لگا کر ادب کا مطالعہ کرنا ادب کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ یک گونہ انتہا پسندی کی دلیل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ الفاظ بہت کچھ ہوتے ہوۓ بھی سب کچھ نہیں وہ ادب کی ظاہری آرائش اور معنویت کی خارجی تزئین کے باوجود ادب کی روح کا درجہ نہیں پاسکتے اور روح کی برتری بہر حال جسم پر غالب ہے ۔ امام احمد رضا لکھتے ہیں۔
’’لفظ قالب ہے اور معنی روح ، متوجہ روح کو تزئین بدن سے چنداں کام نہیں ہوتا جب انہیں اصل مقصود سے کام ہے تو اس کا اہتمام ہے لفظ کی طرف اتنی توجہ بالتبع رکھتے ہیں کہ افادۂ مراد کرے“۔
یہی نظر میں ائمہ کرام اور علماے کبار کا ہے چناں چہ امام ظہیرالد
ین فتاوی ظہیر میں میں اور امام سمعانی خزانۃ المفتین میں فرماتے ہیں۔ “ان الا لفا ظ قوالب ما لها عبرة انما العبرة
للمد عا .“
یعنی الفاظ ایک ڈھانچہ ہے اس کا اعتبار نہیں ہاں !مدعی و مقصود کا اعتبار ہے ۔اسی وجہ سے یہ حضرات الفاظ کی طرف اتنی ہی توجہ رکھتے ہیں جس سے اپنی مراد کو ظاہر کرسکیں
زبان و بیان اور فنی قواعد سے انہیں بنیادی غرض نہیں ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف میں قواعد زبان سے بے پروائیوں کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں ۔
علامہ سعد الدین تفتازانی اپنی کتاب ”تلویح شرح توضیح‘‘ میں امام صدر الشریعہ کے بارے میں فرماتے ہیں: المصنف كثير اما يتسامح في صلات الا فعال
ميلا الى جانب المعنى
معنی کی طرف میلان زیادہ ہونے کی وجہ سے افعال کا صلہ لا
نے میں وہ اکثر تساح کر جاتے ہیں۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف امام علی بن ابی بکر کے تعلق سے مفتاح السعادہ نامی مستند کتاب میں لکھا ہے: “انه لا يذكر الفاء في جواب اما اعتماداعلیٰ
ظهور المعنى“
یعنی ظہور معنی پر اعتماد کرتے ہوے وہ نحوی قاعدہ کے خلاحرف شرط اتالی جزا پر فا‘‘ استعمال نہیں کرتے تھے۔
حضرت مولانا روم کی مثنوی بہت مشہور و معروف اور مستند ہے مگر اس میں بھی بہت سے اشعار اور مصرعے ایسے ہیں جو خلاف قواعد ہیں اور بقول امام احمد رضا۔
”ان کی کی گنتی ہی نہیں جنہیں صحیح کرکے پڑھیے تو ایسے زحافات میں پڑھیے جو نظم فارسی میں ممنوع یا طبع و گوش کو سخت تا مطبوع‘‘۔
امام احمد رضا نے اپنے رسالہ میں امام مسلم ، امام بیہقی ، امام قاضی عیاض، امام قاضی خان ،امام صدر الشریعہ ، امام کردری ، امام سیوطی ، علامہ مناوی ، علامہ زرقانی ، علامہ علی قاری اوفقہی کتب ہدایہ، خلاصہ ، خزانہ ، منیہ ،بحر الرائق ، نهر الفائق اور درر کے مصنفین اور عربی ادب کے اکابرین کے یہاں قواعد زبان کے اغلاط پرمشتمل تیں مثالیں دی ہیں اور فرمایا ہے:۔
’’ان اکابر کی ہم ہمالیہ کا جانب معنی مصروف ہوناان امور زائدہ (یعنی الفاظ اور قواعد زبان کی طرف توجہ ) میں بے پروائی کا باعث ہوتا ہے نہ کہ معاذ اللہ انہیں علم یا اداے صحیح پر اقتدار نہ تھا‘‘
مولاناروم نے بھی اپنی مثنوی میں معنی کو مغز اور لفظ کو چھلکے سے تعبیر کیا ہے اور مثالوں سے اس کی حقیقت واضح کر دی ہے فرماتے ہیں:۔
مغز علم افزودہ کم شد پوستش
زانکہ عاشق را بسوزد
چوں تجلی کرد اوصاف قدیم
پس پسوزد وصف حادث را گلیم
بہر حال اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ تنقید مقصود فن پر ہونی چاہیے خواہ ادب کا مقصود مواد ہویاہیت ، یا پھر مواد و ہیئت دونوں ہیں
تنقید کا دوسرا اصول امام احمد رضا کے نزدیک ادب پارے کے شعوری اور غیر شعوری حصے کی شناخت ہے اس اصول نقد کا تعلق نفسیات سے ہے
نفسیاتی تنقید میں تخلیق کے وجود میں آنے کے داخلی اسباب اور محرکات کا پتہ لگانا ہوتا ہے ، امام احمد رضا نے متذکرہ رسالہ میں زیر بحث عربی قصیدہ غوشیہ پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ نہ صرف یہ عملی تنقید کی اچھی مثال قائم کی ہے
بلکہ اس میں ایسے اصول سے بھی کام لیا ہے جو آج کی اصطلاح کے لحاظ سے نفسیاتی تنقید کے ذیل میں آتے ہیں
اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہرخلیق اور ہر ادب پارے کو ایک ہی عینک سے دیکھنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ادب کے شعوری اور غیر شعوری حصے میں تفریق کرتے تھے ذیل میں ان کے اس نظریہ تنقید کا وہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جو موقع کے لحاظ سے تو ایک مخصوص جہت کا غماز ہے مگر بہر حال اس سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت مصنف کی ذات ، اس کے ماحول اور فن پارے کے وجود میں آنے کے اسباب پر نظر رکھنا ضروری خیال کرتے تھے
یہ در اصل ایک ایسا مقام اعجاز ہے جہاں امام احمد رضا کے تنقیدی اصول اس مکتب خیال کے وجود میں آنے سے بہت پہلے اپنا جلوہ دکھا جاتے ہیں جو عقلیت پسندی اوراشتمالیت واشتراکیت جیسی اصطلاحات کاسہارا لے کر ترقی پسندی کی باتیں کر تا ہے اور ادیب و شاعر کے ماحول کا تجزیہ دنیاے تنقید میں اپنی اختراع سمجھتا ہے … اس لحاظ سے اس اقتباس کا پہلا جملہ بڑی معنویت رکھتا ہے وہ لکھتے ہیں ۔
” یہ تمام کلام ، عام احوال ناس میں رواں تھا اب ایک وہ وقت خاص لیجیے جو عوام کو اپنی بعض مروات عظیمہ ملنے سے نادراً ، اور حضرات اولیاے کرام کو ہنگام ورود عظیمہ و تجلیات فخیمہ بکثرت حاصل ہو تا ہے
یعنی غایت سرور و شادمانی کہ مجامع قلب کو یک لخت محیط ہو کر تمام این وآں سے محض غافل کر دے ہزاروں پر یہ امر ایسی کیفیت لاتا ہے کہ ”حتى تعلموا ما تقولون“ کی حد سے گذار دیتا ہے
اس وقت جو کچھ بیخودانہ ان کی زبان سے نکلے وہ آپ نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں کیا ہیں کیا کہتے ہیں
“
ظاہر ہے ایسے فن پارے یا ایسی تصنیف جو غیر شعوری کیفیات کی مر ہون ہوں ان پر تنقید کرتے وقت وہی نظر یہ اپنا نا جو شعوری کو میں ششوں سے مرتب کر وہ فن پارے پر آزمایا جا تا ہے انصاف نہیں ہو گا
اس کی مثال ایک حد تک ایسی ہی ہے جیسے اردو مکتوبات میں مولانا ابوالکلام آزاد کے غبار خاطر اور اس کے مقابلے دوسرے مکتوبات کا
مولانا آزاد کا مجموعہ خطوط بالالتزام آورد کا منظر پیش کر تا ہے جب کہ دوسرے مکتوبات آمد کی کیفیات کے حامل ہیں ، اور آمد وآورد کا جو فرق ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ۔
مقصودفن کی تعیین اور ادیب وادب کے تجزیہ وتحلیل کے بعد کی تنقید کے لیے تیسری چیز امام احمد رضا کے نزدیک نظم و نثر کا امتیاز ہے۔
انہوں نے نظم و نثر دونوں کی تنقید کا پیا نہ الگ الگ رکھا ہے اور نہی انداز تنقید عقلی طور پر مناسب معلوم ہو تا ہے ۔
شاعری اور نثر نگاری جب دوستنقل فن ہیں اور دونوں کے تقاضے بھی الگ الگ ہیں ایسی صورت میں ناقد کے لیے جواز نہیں رہ جاتا کہ وہ نثر و نظم دونوں کو ایک ہی نظر میں تنقید کا پابند کر دے ۔ امام احمد رضا اپنے تیسرے اصول میں اسی نظریہ کی وضاحت کرتے ہیں:۔
یہ سب کلام سے متعلق تھا پھر کیا ہو چھتے ہو نظم کو جس کا میدان نہایت تنگ اور اس کا کام بغیر اس کے کہ امور زوائد کی طرف ہمت خاص ہر وجہ اختصاص مصروف کی جاے تمام نہیں ہوتا
کیا جس نے صناعت شعر برقی یا اس میں آشنایانہ نظر کی ہے ، نہیں جانتا کہ اس میں یہ نسبت نشر کس درجہ ضیق مضال، وعسر مقال ، وبعد مثال ہے جس کے با عث شعراہزاروں باتیں ایسی برتے ہیں کہ نثر میں برتیں تو قانون
عربیت ( زبان ) پیش غلط و باطل یا حلیہ فصاحت سے عاطل ہو“
اس لیے نظم میں ضرورت شعری کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور شعراے عرب ہوں یا شعراے ایران و ہند سبھوں نے ضرورت شعری کے سبب خلاف قواعد اشعار موزوں کیے ہیں ۔
امام احمد رضا علماے ادب عربی کے یہاں اس کی نظیر پیش کرتے ہوۓ لکھتے ہیں ۔ ”کیا کتب ادبیہ میں ہزار جگہ تصریح نہیں کہ قاعدہ یوں ہے اور فلاں فلاں شعر میں بوجہ ضرورت شعر اس کا خلاف یہ ( مستعمل ہوا)۔
صحاح جوہری میں امام اہل عربیت ابوالحسن اخفش سے منقول ہے’’حق لھذا (كذاكذا) الا انہ یجی فی الشعر مالا
یجی فی الکلام ( یعنی قاعدہ تو یہ ہے کہ مگر شعر میں وہ کچھ روا ہو جا تا ہے جو نثر میں جائز نہیں ) خصائص ابن جنی میں ہے:۔
ان حتاج الیٰ ذٰلک فی شعر او سجع فانہ مقبول منہ غیر منفی عنہ
ترجمہ:اگر نظم میں خلاف قاعدہ استعمال کرنے کی حاجت ہو تو
جائز ہے ممنوع نہیں ۔ مگر یہ جواز سب کے لیے نہیں ، اور نہ موقع بے موقع ہر جگہ
ضرورت کی راگ الاپنا صحیح ہوسکتا ہے۔ ایک صاحب نے اپنے ایک شعر
پاک ہے وہ جسم و جو ہر عرض سے
مادہ سے اور مکاں سے مرض سے
میں عرض کی طرح مرض کی را کو ساکن باندھا تھا اعتراض ہوا تو
کہنے لگے کہ بضرورت جائز ہے اور اس کا نام تفریسں ہے ، امام احمد رضا نے اس کی گرفت کرتے ہوۓ فرمایا:۔
”ایسے تصرفات کا ہمیں اختیار نہیں دیا گیا کہ ساے بے سارع ہر جگہ جاری رکھ سکیں اور ضرورت کا جواب دہی ہے کہ “شعر گفتن پر ضرور ۔ ” اگر ایسی کوئی غلیلی اکابر اساتذہ فن سے ہو جائے تو وہ بے پروائی پر محمول ہو سکتی ہے دوسروں کے لیے اسے دلیل بنانا جائز نہیں ۔ امام احمد رضافرماتے ہیں:۔
” کوئی عیب لفظی ہو خواہ معنوی ، ایسانہیں جس کی مثال اساتذہ نہیں کے کلام سے نہ دی گئی ہو، اس سے نہ وہ جائز ہو جا تا ہے اور نہ عیب ہونے سے باہر آتا ہے نہ اس میں ان کی تقلید روا ہو“ گر غلطی بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جس سے معنی و مفہوم میں فساد لازم آئے ، یہ قابل گرفت ہے خواہ کسی مبتدی سے صادر ہویاکسی ماہر فن سے ،اس طرح کے تصرف کی اساتذہ فن کو بھی اجازت نہیں
دوسری وہ جس سے معنی میں فساد تو نہ ہو مگر ادب کی ظاہری ہیئت خلاف قواعد ہو، اور جیسا کہ ابھی ایک اقتباس میں کہا گیا یہ صورت داخل اباحت ہے۔
اب آیۓ ، اردو کے اکابر تنقید نگاروں کے اصولی نظریات کی طرف کہنے کی ضرورت نہیں کہ خواہ سبب کچھ بھی ہو بہر حال حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری کا اصل موضوع شاعری ہے ، تنقید نہیں ۔
تاہم اس میں جو نظریات قلم بند ہوے ہیں اگر وہ تنقید کے اصول فرض بھی کر لیے جائیں تب بھی وہ زیادہ سے زیادہ نظم کے اصول نقد ہوں گے نثر کے نہیں ۔ یہی حال شبلی کے ’’مواز نہ انیس و دبیر “ اور ” شعر النجم “ کا بھی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ مواد و ہیئت کے معاملہ میں ہیئتی ہوکر رہ گیے ہیں جو اصول سازی کے لیے قطعا مناسب نہیں ۔
دیگر ناقدین کی طرف دیکھا جاۓ تو ان کے یہاں بھی اصول نقد کی جامعیت بڑی حد تک مفقود ہے مثلا حالی کے مسدس پر اظہار خیال کرتے ہو ئے مولوی عبدالحق ادیپ کے ماحول ، اس کی افتادطبع اور اس کے ذہنی رجحان کی تلاش و تفتیش تو کرتے ہیں مگر تنقید کے دوسرے ا
صولوں سے ان کا دامن خالی نظر آتا ہے ۔
ترقی پسند ناقدین میں احتشام حسین کا بڑا نام ہے اور انہوں نے اصو سازی کے لیے در پیش مسائل کو جابجا پیش کیا ہے مگر وہ بھی کوئی جامع اصول پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں، ان کے یہ سوالات
(الف) : ادب کا کتنا حصہ شعوری کوششوں کا نتیجہ ہے اور کتنا غیر شعوری مجبوریوں۔
(ب) : مصنف کی نیت اور اس کے مافی الضمیر کا تجزیہ کیا جاے
کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا اور کیا کہ سکا
(ج): اثر الفاظ واظہار سے پیدا ہوتا ہے یا موضوع، مقصد اور مثال سے
اہمیت کے حامل ضرور ہیں مگر ان کے یہاں ان سوالوں کا کوئی غیر جانبدارانہ جامع اوراصولی جواب بہ مشکل تمام ہی مل سکتا ہے۔
کلیم الدین احمد نے نظم ونثر کے لیے الگ الگ اصول ضرور متعین کیے اور اس خصوص میں بلاشبہ وہ منفرد ہیں مگر ان اصولوں میں بھی اسلوب بیت کو زیادہ دخل ہے اور معنویت کوکم
ناقدین ادب کی ردیف عالیہ میں ایک خاص حد تک صرف محی الدین قادری زور ایسے ناقد ہیں جن کے تنقیدی اصول نسبت زیادہ جامع کہے جاسکتے ہیں ان کی کتاب ”روح تنقید “ میں پانچ اصول بیان کیے گیے ہیں جن میں چار اس طرح خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ امام احمد رضا کے اصول نقد سے قریبی مطابقت رکھتے ہیں۔
(۱) کتاب ظاہری شکل کے اعتبار سے جس صنف سے متعلق ہو اس کی خصوصیات پر حاوی ہے یا نہیں ۔
(۲) معانی و مطالب کے لحاظ سے موضوع کی تمام خوبیوں سے متصف ہے یا نہیں ۔
(۳) زیر تنقید ادبی کارنامے کی زبان اور اسلوب پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
(۴)مصنف کی ذات، اس کے ماحول اور اس کی تصنیف کے ماخذوں کا گہرا مطالعہ کیا جاے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے زور کے ان اصول نقد کی تعریف تو کی ہے اور انہیں بڑی حد تک سائنٹیفک کہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے: اتنی سختی سے اصولوں کی پابندی اردو تنقید میں اس سے قبل کسی اور نقاد نے نہیں کی شاید اسی وجہ سے ڈاکٹر اس سلسلہ میں انتہا پسند ہوگئے ہیں
گویا ایک ایسے اصول کی سختی سے پابندی جو سائنٹیفک ہوں عبا دت بریلوی کی نظر میں یک گونہ انتہا پسندی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اصول بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے اور کسی کے انتقادی نظریات اور عملی تنقیدوں میں اصول کی کھوج کیا معنی رکھتی ہے پھر مذاق و مزاج کی دو رنگی کا یہ عجیب سانحہ ہے کہ ایک طرف ایسے حضرات تنقیدوں میں تجزیہ کی شان بھی دیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ
ملنے کی صورت میں اسے تنقید کی خامی بتاتے ہیں
یہاں تک کہ محمد حسین آزاد کے تنقیدی خیالات میں بھی جانب داری نظر آتی ہے اور کہیں یہ حضرات تنقیدوں میں سائنٹفک تجزیہ کی کیفیت دیکھ کر زور جیسے نقاد پر انتہا پسندی کا الزام لگاتے ہیں اس طرح ڈاکٹر زور سے قطع نظر بالعموم بڑے بڑے ناقدین کے یہاں نظریاتی مسقومات اور دوہرے معیار و میزان کا تکلیف دہ اندازہ ہوتا ہے ۔
پھر یہ کہ اردو ناقدین کے جتنے اصول و نظریات سامنے آۓ ہیں عبادت بریلوی اور کئی دوسرے حضرات کی تحقیق کے بموجب تقریبا وہ بھی مغرب سے مستعار ہیں
مثلا حالی ملٹن اور مکالے سے متاثر ہیں ، شبلی مشرقی ذہنیت کے باوجود صاف طور پر مل اور لوئس سے متاثر ہیں ، مولوی عبدالحق کی تنقیدات میں بھی ادبیات مغریب کے براہ راست مطالعہ نے ہی مزید گہرائی پیدا کی بکلیم الدین احمد کی مغرب زدگی بھی طشت از بام ہے اور احتشام حسین کی تنقید بھی اثرات مغرب سے بے نیاز نہیں ہے۔
حد تو یہ کہ ڈاکٹر زور کے تنقیدی اصول میں بھی جہاں نسبتا کچھ زیادہ جامعیت ہے ، اناطول ،
فرانس، سوئبرن ، میتھو آرنلڈ ،بینٹ بیو اور ساٹر رملے کے خیالات کی گونج سنائی دیتی ہے اور عبادت بریلوی نے تو صاف لکھ دیا ہے کہ :۔
” یہ خیالات جو تنقید کے متعلق ڈاکٹر زور نے پیش کیے ہیں براہ راست نقادوں کے مطالعہ کا نتیجہ ہیں انہوں نے اپنی طرف سے بہت کچھ لکھا ہے اگر صرف ہڈسن اور میتھو آرنلڈ کی دو کتابوں کو سامنے رکھا جاۓ تو دونوں ہی میں یہ خیالات مل جائیں گے۔
یہ ہے آئینہ ہماری اردو تنقید کا جو پوری طرح مغرب سے مستعار ہے مگر امام احمد رضا کے تنقیدی اصول و نظریات خالص مشرقی ہیں اور ان کی اپنی فکری کوششوں کا نتیجہ … ان میں اسلامی لٹریچرز کے مطالعہ کی جھلک ضرور نظر آتی ہے مگر اصول بہرحال ان کے اپنے ہیں
ان کا جزئیہ مشرق سے آیا ہے ان میں مغربی ادبیات سے درآمد کوئی جزئیہ نہیں ہے کیوں کہ مغربی زبان وادب سے ان کا کوئی شخصی اور اکتسابی رابطہ نہیں تھا۔
اس طرح امام احمد رضا کا اصول نقد تہذیبی اور فکری تاریخ کے لحاظ سے ہمارے لیے حد درجہ قابل فخر بات ہے اور یقینا یہ کئی اعتبار سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے کیوں کہ یہ اصول نقد عقلی بھی ہے اور سائنٹفک بھی
اور اس میں حد درجہ ترتیب اور انضباط بھی پایا جاتا ہے یہ اصول اس وقت کی یادگار ہیں جب کہ بایں انداز اور بایں ضرورت اصول سازی کی طرف توجہ بھی نہیں دی گئی تھی
تحریر: ڈاکٹر امجد رضا امجد
چیف ایڈیٹر: دو ماہی الرضا انٹرنیشنل پٹنہ بہار
۔(بحوالہ ) سہ ماہی پیغام مصطفےٰ ( اتردیناج پور) بنگال مارچ تا اپریل : 2019