ہمارے ملک کا قانون کیسے اور کس طرح بنا
اس سال ہم سب۷۱واں یوم جمہوریہ منا رہے ہیں کیونکہ آج ہی کے دن ہمارے ملک میں سمودھان لاگو ہوا اور اسی سمودھان کی وجہ سے آج ہم کھل کر جی ریے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کھا رہے ہیں پہن رہے ہیں اور اپنے مذہب پر مکمل آزادی کی ساتھ عمل کر رہے ہیں ، ہمارے ملک کا قانون کیسے اور کس طرح بنا چلیئے ملک کے قانو کو بنانے میں جو دقت ہوئ اس کو سمجھتے ہیں اور کیسے ہمارے ملک کا قانون بنا اس کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
ہزاروں میل کی دوری سے ہم یہ کام کرتے ہیں ، دعا اپنی ہر ایک اپنے وطن کے نام کرتے ہیں
ہمارے ملک میں پھر سے کھلیں غنچے محبت کے، یہی میری دعا اور یہی ارمان میرا ہے
اے ہمالہ اے فصل کشور ہندوستاں ، چومتا ہے تری پیشانی کو جھک کر آسماں
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ، ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
ہندوستان ایک خود مختار ملک اور ایک مکمل طور پر ری پبلکن یونٹ یعنی آزاد ملک ہے ، ایسا آزاد ملک جس کاخواب ہمارے رہنمائوں نے دیکھا تھا، اپنے خون جگر سے اس گلستاں کی آبیاری کی تھی اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لیے جام شہادت بھی نوش کیاتھا۔
چنانچہ آئینی نفاذ یعنی قانون لاگو ہونے کے دن کے طور پر 26؍ جنوری کوبطور یاد گار منایا جاتا ہے ۔ یہ دن، آزاد اور جمہوری ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے، لہٰذا اس دن ہمارا ملک ”ایک جمہوریہ” ہونے کے ناطے اسے بطورتقریب مناتا ہے۔ اور ہم سب لوگ بھی غرض و غایت کے تحت یہاں جمع ہوے ہیں ۔
اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا اسے منسوخ کر کے اس دن دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور دستور ہند کی عمل آوری ہوئی۔ دستور ساز اسمبلی یعنی قانون بنانے والوں نے دستور ہند کو 26 نومبر 1949ء کو اخذ کیا اور 26 جنوری 1950ء کو نافذ کرنے کی اجازت دے دی۔ دستورِ ہند کیے نافذ ہونے سے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں آبادی کے لحاظ سے ہمارا ملک ہندوستان، دنیا کی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت ہے۔
آئین ہند کا نفاذ اور جمہوری اقدار مکمل مضمون پڑھ کر دعاؤں سے نوازیں
چلیے پہلے جان لیتے ہیں کہ جمہوریت کسے کہتے ہیں
جمہوریت کی الگ الگ تعریفیں کی گئی ہیں،چند یہ ہیں
اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں ۔
لوگوں کے لیے ،لوگوں کے ذریعے،لوگوں کی حکومت
ایسی حکومت جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرہ کو حاصل ہو
ڈاکٹر اقبال نے کہاہے ؎۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندے کو گناہ کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال ایسی جمہوریت کے سخت مخالف تھے جس کے پردہ میں آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہو ،سرمایہ دارانہ اور مغربی نظام ہو ،ایسی جمہوریت کو وہ آزادی کی نیلم پری نہیں بلکہ جمہوری قبا میں ملبوس دیو استبداد سے تعبیر کرتے ہیں ؎
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام :؛ جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام : چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اب بات کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کا قانون کیسے اور کس طرح بنا ۔۔اس کی ایک لمبی اور پیچیدہ کہانی ہے لیکن پھر بھی ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آئین ساز اسمبلی کا قیام
کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز کے مطابق نومبر1946ء میں حصول آزادی سے پیشتر ہی قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی۔اس کے ارکان کو بالواسطہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیا گیا۔برٹش انڈیا کی 296نشستوں میں سے 211؍نشستوں پر کانگریس اور 73؍نشستوں پر مسلم لیگ کی فتح ہوئی۔اس طرح اسمبلی نے ایک خود مختار ادارے کی شکل اختیار کرلی جو اپنی مرضی کے مطابق اپنا پسندیدہ آئین وضع اختیار کرسکتی تھی۔
اسمبلی کا پہلا اجلاس 9؍دسمبر 1946ء کو ہوا،11؍دسمبر1946ء کو ڈاکٹر راجندر پرشاد اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔14/15؍اگست 1947ء کی درمیانی شب میںآ ئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کرلیاگیا اوراس حیثیت سے انھوں نے جواہر لال نہرو کو ہندوستان کے اولین وزیر اعظم کا حلف دلایا۔
ان کی مجلس وزرا کے دوسرے اراکین میں مولانا ابوالکلام آزاد ، کو آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کا حلف دلایا گیا۔ اس کے بعد اسمبلی کا کام باقاعدگی سے شروع ہوا، بھارت کے آئین کو بنانے کے لیے بہت سی کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں اور ان کمیٹیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈاکٹر امبیڈکر کی چیئرمین شپ میں 19؍اگست 1947ء کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی۔
جس کی پہلی میٹنگ 30 تیس اگست1947 کو ہوی ۔ فروری 1948ء میں بینگال نرسنگ راؤ نے آیّین کا یعنی قانون کا ایک مسودہ (ڈرافٹ )شائع کیا گیا ؍ جس میں غور و بحث کے لئےایک سات رکنی کمیٹی بنایّ گیّ نومبر 1949ء کو اس سات رکنی کمیٹی نے اپنا ڈرافٹ پیش کیا اور اس میں کچھ ترمیم کر کے اس آئین کو منظوری دے دی گئی اور اس کا اطلاق 26؍جنوری 1950ء کو ہوا۔1950ء سے اب تک اس آئین میں تقریبا۱۰۳؍ترامیم ہو چکی ہیں۔آخری ترمیم 14 چودہ جنوری 2019 میں ہویَ ہے۔
آئین ساز اسمبلی نے جو سات رکنی ڈرافتنگ کمیٹی بنایی تھی ان سات لوگوں میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر صدر بنایے گیے اس لیے بھارت کے قانون کو امبیڈکر کا آئین کہا جاتا ہے ان سات لوگوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ،1 علادی کرشنا سوامی ائیر،2 این گوپال سوامی 3 بی ار امبیڈکر 4،کے ایم منشی 5، محمد سعد اللہ 6، بی ایل میٹر 7 ڈی پی خیتن ،،،۔
آزاد ہندوستان کا یہ آئین دنیا کے تمام دستاویز میں سب سے زیادہ بڑی ہے۔ ہمارے ملک کے قانون کی کتاب جس میں کل 22 باب 8 فہرستیں اور 395 تین سو پنچانوے دفعات یعنی آرٹیکل ہیں یہ تمام دفعات 25 حصوں میں منقسم ہے ۔ اور تقریبا 1,45000ایک لاکھ پینتالس ہزار الفاظ ہیں ۔
اس میں دنیا کے بہت سے دستاویز کے بہترین نکات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ریاستی حکومتوں سے متعلق تفصیلات بھی واضح کردی گئی ہیں۔ اس میں بنیادی حقوق، بنیادی فرائض، ریاستی پالیسی کے ہدایتیں اصول، مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مابین تعلق، صدر جمہوریہ کے ہنگامی اختیارات، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ پبلک سروس کمیشن، الیکشن کمیشن، فائنانس کمیشن جیسے اہم اداروں کی تفصیلات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔
ہمارے ملک کے قانون کے حساب سے صدر جمہوریہ راشٹپتی سربراہِ ریاست یعنی ملک کے مالک ہیں ہے جب کہ وزیر اعظم پردھان میتی حکومت کا سربراہ ہے۔ صدر جمہوریہ حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان کی قانونی کتاب کے بارے میں آپ کو بتا دیں کہ دستور ساز اسمبلی کی 24جنوری 1950کو آخری میٹینگ ہوی۔ اور یہ کتاب ہاتھ سے لکھی گیی تھی جو کہ ہندی اور انگریزی میں ہے جس میں دستور ساز اسمبلیی کے 288لوگوں نے دستخط کیے۔ اور پہلی بار یہ کتاب دہرادؤن سے چھپی تھی۔ تقریبا پانچ سال کے بعد اور اس کی چھپای میں لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ روپیے خرچ ہویے تھے۔ اصل کتاب آج بھی دہلی کے سنسد بھون میں رکھا ہوا۔
آئین ہند کی کہانی ویکیپیڈیا میں پڑھنے کے لئے کلک کریں
ہمارے ملک کے قانون بنانے والوں نے بہت محنت و مشقت کرکے قانون کو بنایا ہماری بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا اور بھارت کومہان بنانے کے لئے رات دن ایک کردیا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس بھارت کو مہان بنانے میں بھارت کے قانون کا پالن کریں اور اپنے ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہیں جن کی قربانیوں سے آج ہم اطمینان سے اپنے ملک میں رہ رہے ہیں ۔۔ ان چند اشعار کے ساتھ ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
وطن سے محبت ہم بھی رکھتے ہیں ، کھٹکتی جو رہے دل میں حسرت ہم بھی رکھتے ہیں
یہ جرأت یہ شجاعت ہم بھی رکھتے ہیں ، ضرورت ہو تو مر مٹنے کی ہمت ہم بھی رکھتے ہیں ،
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ، دیکھنا ہے زور کتنا بازوےؑ قاتل میں ہے
وقت آنے دے دکھادیں گے تجھے اے زمانے والے، ہم ابھی سے کیوں بنایؑں کیا ہمارے دل میں ہے