موجودہ وقت جو ملک ہندوستان کا ہے آزادی سے اب تک ایس انہیں ہوا تھا انسان دولت ،طاقت اور حکومت کے نشے اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اپنی اصلیت بھی بھول جاتا ہے یہی حال ابھی ہمارے ملک کے حکمرانوں کی ہے اور پھر ظلم کی ساری حدیں پار کردیا ہے اسی پر کا آج کا یہ مضمون ہے جس کا عنوان ہے جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے جس کو ترتیب دیا نوجوان قلمکار ایم ایم رہبر۔
جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
موجودہ وقت میں ہمارا پیارا ملک ہندوستان جس ظلم کی چکی میں پس رہا ہے، وہ نہایت افسوس ناک ہے، ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے ہی ملک کو ظلم کی اس چکی میں ڈال دیا ہے جس کا انجام نہایت تکلیف دہ ہے، جس ملک کو بچانے کے لیے ہمارے اباواجداد نے اپنے خون کا قطرہ قطرہ دے دیا تھا، موجودہ حکومت اسی ملک کو برباد کرنے پرتلی ہوئ ہے، جو نہایت شرمناک ہے؛ موجودہ حکومت نے بر سر اقتدار آنے سے پہلے جو جو وعدے کیے تھے، وہ ان وعدوں کی تکمیل میں مکمل ناکام ثابت ہوئی ہے؛ جس ناکامی کو چھپانے کے لیے حکومت وقت نے ایسی ایسی سازشوں کوانجام دیا جس سے ہمارے ملک کو نہایت خسارہ اٹھاناپڑا، جیسے کہ کشمیر میں پلوامہ حملہ کرایا گیا جس کی وجہ سے کئی فوجی جوانوں کی جانیں ضائع ہوگئیں، اس سے پہلے کہ عوام موجودہ حکومت سے اس کی ناکام پالیسی کے بارے میں سوال کرتی انہیں ایک ایسے مسئلے میں الجھا دیا جو در حقیقت خود کے ان کے فتین ذہن کابڑا فتنہ تھا۔
اس کے بعد جب عوام دوبارہ حکومت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے لیے تیار ہوئے، اور حکومت نے سمجھ لیا کہ عوام اب گریبان تک پہنچنے والے ہیں، اور ڈر یہ ہے کہ کہیں گریبان سے کھینچ کر زمین پر اوندھے منہ نہ گرا دیں، پورے ملک کی عوام کو این، ار، سی اور سی، اے، اے این، پی ار، جیسے انسانیت مخالف قوانین کے نفاذ میں الجھا دیا؛
یہ واحد ایسی حکومت میری زندگی میں آئ ہے جو اپنے ملک کے باشندوں سے یہ بات جاننا چاہتی ہے، کہ وہ اس ملک کے باشندے ہیں یا نہیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس عوام نے اپنا ووٹ دے کر ایوان بالا تک پہنچایا آج انہیں سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ بتاو تم اسی ملک کے باشندے ہو یا نہیں، جن لوگوں کے اباواجداد کی ہڈیاں اس ملک کی زمیں میں گل چکی ہیں، انہیں لوگوں سے ان کے ملکی ہونے کا ثبوت مانگا جا رہا ہے ، جن کے اباواجداد نے اس ملک کی آزادی میں اپنا تن ، من، دھن سب کچھ لگا دیا ہو۔
آج انہیں سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ بتاو تم بھارتی ہو یا نہیں، میرے خیال کے مطابق ملک کے رہنے والے باشندوں سے ان کے ملکی ہونے کی شہادت مانگنے والے اپنے وقت کے عظیم ظالموں میں شمار کیے جائیں گے؛ آخر اس سے بڑھ کر اور کونسا ظلم ہو گا کہ میرے گھر میں گھس کر مجھ سے ہی یہ پوچھا جائے کہ بتا اس گھر کا مالک کون ہے، ؟۔
اور پھر بر بناء ظلم مجھے ہی میرے گھر سے یہ کہ کر بے گھر کردیا جائے کہ تمہارے پاس سو سال پرانا ثبوت نہیں ہے، بتائے اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوسکتا ہے؛؟ حکومت تو اس لیے بنائ جاتی ہے کہ ملک کی خراب حالت کو درست کرے، مصیبت زدگان کی مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کرے،ناکے اس لیے کہ جو لوگ سکون و اطمینان سے زندگی گزار رہے ہیں ان کا چین وسکون بالکل غارت کردے؛حکومت کا کام ہے جو بھوکیں ہیں ان کا پیٹ بھرے، نا کے جو کھا رہے ہیں ان کے آگے سے پلیٹ بھی کھینچ لے، حکومت بنتی ہے ملک میں پھیل رہی بدامنی کو دور کرنے کے لیے ناکے بد امنی پھیلانے کے لیے۔
عوام حکومت اس لیے چنتے ہیں کہ اس کی سرپرستی میں وہ سکون سے زندگی گزار سکیں ناکے اس لیے کہ ان کے سکون و اطمیان پر ڈاکے ڈالے جائیں، اور اگر کوئی حکومت اپنے ملکیوں کے ساتھ ایسا برتاءو کرتی ہے تو پھر سمجھ لی جیے کہ وہ انتہائی قسم کی ظالم حکومت ہے، اور اس کی باگ ڈور اشراف کے ہاتھوں میں نہیں بلکے احمقوں اور ظالموں کے ہاتھوں میں ہے۔موجودہ حکومت کو آپ حقائق میں دیکھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ انتہائی ظالم حکومت ہے اس کی مثال یہ ہے کہ اس حکومت میں جوچیز دس بیس روپے کی تھی وہ ستر اسی تک پہنچ گئی ہے ہر چیز کی قیمت پر کئی گنا زیادتی ہوئ ہے۔
جس کے باعث غریب طبقہ ان اشیاءکے خریدنے سے محروم ہوگیا اور اس حکومت کے ظلم کی وجہ سے کف افسوس مل رہاہے، لہذا اس حکومت کا یہ غریبوں پر ظلم ہے، اسی طرح جن طلبہ و طالبات سے نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور انہیں جھوٹے خواب دکھا کر لوٹا گیا تھا، جن طلبہ و طالبات کے جذبات و احساسات کو مستقبل کی بہتری کے نام پر ابھارہ گیا تھا اور ان کا استعمال کیا گیا تھا اقتدار کے حصول کے بعد انہیں روزگار نہ دے کر ان کے ساتھ نہایت ہی گھٹیا مذاق کیا ۔لہذا یہ اس حکومت کا طلبہ و طالبات پر کھلا ہوا ظلم ہے۔
اس کے علاوہ بھی اگر آپ اس حکومت کی ظالمانہ پالیسی کا جائزہ لیں گے، تو یہ حکومت ہر جگہ آپ کی توقعات سے کہیں زیادہ ظلم کرتی ہوئ نظر آئے گی، اس حکومت نے ظلم و زیادتی کرنے میں کوئی قصر باقی نہیں چھوڑی ہے امیر سے لےکر غریب تک، بچے سے لےکر بوڑھے تک سب اس کے ظلم و ستم کے شکار ہوئے ہیں۔
اسی ظالمانہ سلسلے کی ایک کڑی ہے این، ار، سی، سی، اے، اے اوراین، پی، ار جس کی آڑ میں یہ حکومت ایک خاص طبقہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا چاہتی ہے، جس کی ابتدا موجودہ حکومت نے آسام سے کردی ہے یعنی وہاں این، ار، سی، نافذ کی جاچکی ہے جس کی فائنل فہرست نے حکومت وقت کے بنے ہوئے منصوبے پر پانی پھیر دیا تھا۔
منصوبہ یہ تھا کہ این آر سی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بھارتی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے دیا جائے اور ان کی املاک وجائیداد پر ناجائز قبضہ جمالیا جائے، مگر معاملہ جب اس کے برخلاف سامنے آیا اپنے کھودے ہوئے گڈھے میں اپنے ہی لوگوں کو گرتے ہوئے دیکھا تو فورا اپنے اندھ بھکتوں کو بےوقوف بنانے کے لیے ایک اور قانون پاس کرالیا گیا جسے سی اے اے کا نام دیا گیا اور اسی سی اے اے پر بات کرتے ہوئے دیش کے گرہ منتری امت شاہ نے بیان دیا کہ ہم اس سی اے اے کے زریعے این آر سی سے باہر ہوئے سبھی غیر مسلموں کو بھارتی شہریت دے دیں گے ، ۔
گورنمنٹ طلبہ مخالف کیوں ،،،،از ایم ایم رہبر
اور اس میں انہوں نے کئی دھرموں کے لوگوں کا ذکر کیا، لیکن اپنے بیان میں کہیں بھی انہوں نے سی اے اے کے زریعے مسلمانوں کو شہریت دینے کی بات نہیں کی ہے، جو ایک سیکولر ملک کی گرہ منتری کے لیے نہایت ہی شرمناک ہے؛ اور یہ آں جناب کی ایک ذلیل حرکت ہے، اور یہ ذلیل حرکت کر کے انہوں نے ملک کے باعزت شہری یعنی مسلمانوں پر ناحق ظلم و ستم کیا ہے، جس کی بنا پر ہم نے اس حکومت کو ظالم حکومت کہا ہے؛ چوں کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں ایک طویل مدت سے تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں، اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں،۔
جب ان برادران وطن نے دیکھا کہ ان کے مسلمان و دلت بھائیوں کے ساتھ یہ حکومت ناانصافی وظلم و زیادتی کر رہی ہے تو وہ فورا اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے میدان میں نکل آئے، جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ تحریک شدید سے شدید تر ہوتی گئی، لوگ ان قوانین کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنے کےلیے روڈوں پر نکل آئے ، اور ان ملک مخالف قوانین کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے؛ یہ مطالبہ اتنا بڑھا کہ آج پورا ملک ان قوانین کی وجہ سے اپنا چین سکون کھو بیٹھا اور بھارتی امن کے چہرے پر ایسا کالا داغ لگ گیا ، جو رہتی دنیا تک بھارت کو عالمی اقوام کے سامنے شرمندہ کرتا رہے گا۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس ملک کی آزادی میں جہاں برادران وطن نے اپنا چین و سکون قربان کیا وہیں بھارتی مسلمانوں نے بھی اپنے خون سے انمٹ داستانیں تاریخ کے صفحات میں درج کردی ہیں،لہذا جب مسلمانوں نے بھی اس بات کا بنظر غائر مطالعہ کیا اور سمجھا کہ یہ قوانین صرف بھارتی مسلمان ہی نہیں بلکے دلت اور بھارتی قانون کے بھی خلاف ہے اور ان قوانین پر عمل در آمدگی کے بعد جہاں غربا ظلم کی چکی میں پسیں گے وہیں قانون پر بھی کاری ضرب پڑے گی تو وہ بھی سر پر کفن باندھ کر اور برادران وطن کے ہمراہ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے میدان میں کود پڑے اور آج صرف ملک میں ہی نہیں بلکے بیرون ملک بھی ان قوانین اور ناانصافی کے خلاف آواز حق بلند کی جا رہی ہے، اور ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اس وقت اگر آپ پورے ملک کی تصویر ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کو جابجا ملک کے باشندے ان قوانین کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہوئے نظر آئیں گے، مثال کے طور پر بھارت کی راجدھانی دہلی کو ہی دیکھیں وہاں جامعہ ملیہ ، شاہین باغ، ترکمان گیٹ اور اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر ان سیاہ قوانین کے خلاف عوام سڑکوں پر ہیں؛ اور مسلسل احتجاج جاری ہیں، صرف دہلی ہی نہیں بلکے لکھنو، کرناٹک، الہ آباد ، دربھنگہ غرض کہ پورا ملک سرپا احتجاج بنا ہوا ہے، اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے، ۔
ہمارے ملک کا قانون کیسے اور کس طرح بنا ۔۔۔ پورا مضمون ضرور پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں
لیکن افسوس ہمارے ملک کے حکمران اپنی زیادتی سے باز نہیں آرہے ہیں، بلکہ ظلم و زیادتی میں اضافے کرارہے ہیں، کہیں مظاہرین پر پولس کے ذریعے تشدد کراتے ہیں، تو کہیں اپنے پالتو کتوں سے امن پسند مظاہرین پر ظلم و زیادتی کی شرمناک تاریخ رقم کرواتے ہیں؛ اور اس کے باوجود بھی وہ خود کو غلط تسلیم کرنے کر راضی نہیں ہیں۔ یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ جس قانون کو ملک کے پروفیسرس، ڈاکٹرس، اینجینیرس،وکلاء، صحافیین اور تمام اہل علم و ادب غلط اور قانون مخالف بتاتے ہوں اس کو یہ حکومت بزور ظلم و ستم ملک کے باشندوں پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔
آخر کیایہ قوانین ملک کی خوشحالی سے زیادہ اہم و ضروری ہیں کہ ان پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی؟۔
کیا یہ قوانین ملک کے باشندوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کہ عوام کی ناراضگی کے باوجود بھی ان کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا؟۔
جب آپ کے ملکی باشندے اس فیصلے کو ماننے پر راضی نہیں ہیں اور آپ کے اس اقدام کو اہل علم وادب بشمول ماہر قوانین غلط اور آئین مخالف بتارہے ہیں تو پھر کون سی ایسی مجبوری ہے جو آپ کو اس فیصلے کی منسوخی سے روکے ہوئے ہے؟
یا پھر ان قوانین کو نافذ کرنے کی آڑ میں آپ کسی اور سازش کا جال بچھا رہے ہیں یا پھر آپ کی حکومت کسی اور کے اشاروں پر ناچتی ہے؟۔
آپ صرف زبان ہلاتے ہیں اور اس سے نکلنےوالے فرامین کسی ایسے کے ہیں جس نے بھارت کے امن امان کو غارت کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے، آخروہ کونسی دقت ہے جس کی وجہ سے آپ کو اپنے ملک کے باشندوں کی تکالیف نظر نہیں آرہی ہیں؟ ۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ در حقیقت آپ بھی کسی اور کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور آپ کے فکرواذہان پر کوئی غدار وطن مسلط ہے۔ بہر حال کچھ بھی ہو موجودہ حکومت سے ہمارا پرزور مطالبہ ہے کہ وہ اس غلط فیصلے کو واپس لے اور ملک کے امن وامان کو غارت نہ کرے اور اگر وہ اپنی اس روش سے باز نہ آئے تو پھر برسر عام یہ نعرہ بلند کیا جائے گا کہ بھارت کا اقتدار ظالموں کے ہاتھوں میں ہے جس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے۔
لہذا ان ظالموں سے ملک کو نجات دلائ جائے اور ملک کے کونے کونے سےظلم سے ،بےروزگاری سے،غریبی سے، بھوک مری سے، آزادی کا نعرہ بلند ہونے لگے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے مولی ہمارے ملک اور اس کے باشندگان خصوصا مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔آمین ثم آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ