Saturday, November 23, 2024
Homeعظمت مصطفیٰمعراج کی رات براق کی سواری

معراج کی رات براق کی سواری

معراج کی رات رب تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کے لیے جو سواری بذریعہ جبریل علیہ السلام بھیجا اس کا نام براق ہے براق ایک سفید جانور تھا  جو خچر سے پست اور گدھے سے اونچا تھا  منتہائے نظر پراس کا قدم پڑتا تھا۔ معراج کی رات براق کی سواری

معراج کی رات براق کی سواری

امام علائی نی اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ معراج میں حضور ﷺ نے پانچ  قسم کی   سواریوں پر سفر فرمایا مکہ مکرمہ سے بیت المقدس براق  پر بیت المقدس سے آسمان تک نور کی سیڑھیوں پر ۔ آسمان اول سے ساتویں آسمان تک فرشتوں کے بازوؤں پر ،ساتویں آسمان سے سدرہ المنتہیٰ تک حضرت جبریل علیہ السلام کے بازوؤں پر سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک رف رف پر (تفسیر روح المعانی)۔

 حدیث شریف ہے کہ مجھے سوار کیا گیا اور حضرت جبریل علیہ السلام مجھے آسمان پر لے گئے۔ حدیث پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ مکہ مکرمہ سے حضور ﷺ آسمان تک براق پر سواری کیے اور وہ براق ہوا پر بھی اسی طرح چلتا  تھا جیسا کہ زمین پر چلتے تھے۔

براق کا ہوا پر چلنا عادت کے خلاف ہے جب آدمی ہوا پر نہیں چل سکتا تو براق وہ تو ایک  جانور ہے ہوا پر کیسے چلا؟   یہ سب قدرتِ الہٰی کے ہاتھ میں ، اور خدا کی قدرت عادت کے خلاف ہونے میں مقید نہیں ہے ۔

 ایک  روایت میں ہے کہ براق کے دو بازو تھے جن سے وہ اڑتا تھا ۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں براق پر سورای مسجد اقصیٰ تک تھی۔ اس کے بعد معراج  ایک سیڑھی کے ذریعے آسمان پر لے جایا گیا ۔

براق بھیجنے کی حکمت

سید عالم محبوب رب العالمین ﷺ کی تعظیم و تکریم مقصود تھی جس طرح کہ محبین اپنے محبوبوں کے لیے گھوڑا بھیجتے ہیں اور اخص و خواص جو محرم و انیس مجلس خاص ہو اس کے بلانے کے لیے پیادوں کو بھیجتے ہیں اور رات کے وقت جو کہ خلوتِ خاص کا وقت ہے غیروں کی آنکھوں سے بچا کر بلاتے ہیں۔  وَ للہِ المثل الاعلیٰ و تعالیٰ و تَقَدَسَ

 براق بھیجنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں اشرہ ہے کہ بلانا سلامتی و امن میں ہے نہ کہ حرب و خوف میں ۔ اور براق کی ایسی تیز رفتاری جس کا عرف و عادت میں رواج نہیں ہے۔ یہ صرف اظہار معجزہ کے لیے تھی۔

ھضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا نام براق ہے گھوڑا اور خچر نہیں ہے اور براق بریق سے بنا ہے جس کے معنیٰ روشنی کی شعاعوں کے ہیں ۔ اسی وجہ سے اس کو براق کہتے ہیں۔

حضرت قاضی  عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسے براق  بناء پر کہا گیا کہ آپ ﷺ سکے دورنگ تھے جسے ” شاۃ برقا ” کہا ( چمکدار بکری) کہا جاتا ہے جس کے بالوں میں سفیدی و سیاہی دونوں ہوں۔

 صاحب مواہب لدینہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے براق بریق سے مشتق نہ ہوں ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ رکاب میں پائے اقدس رکھنے لگے تو براق نے شوخی کی اس وقت جبریل علیہ السلام نے براق سے کہا تجھے کیا ہوگیا ہے کیوں شوخی کرتا ہے تجھ پر حضور اکرم  ﷺ سے زیادہ بزرگ تو سوار نہیں ہوا پھر براق نے شوق کا اظہار کیا اور زمین پر بیٹھ گیا ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے اس کی پشت پر سواری فرمائی۔ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ براق انبیاء علیہ السلام کی سواری کے آماہ تھا۔

 ہر نبی کے لیے ان کے قدس ومرتبہ کے مطابق جداگانہ  براق ہوتا ہے چنانچہ  حضرت شیخ عبد الحق  محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ روایتوں  میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت المقدس سے مکہ مکرمہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملاقات کے لیے براق پر سوار ہو کر  تشریف لاتے تھے گویا حضرت جبریل علیہ السلام کا اشارہ جنس براق کی جانب تھا۔

 براق کی شوخی کی وجہ

اب تک  اس براق پر کسی نے سواری نہیں کی تھی بعض علماء کہتے ہیں کہ براق کی یہ شوخی ناز و طرف اور افتخار سے تھی نہ کہ بطریق استبعادہ  و سرکشی۔ جیسا کہ پہاڑ کے جنبش کرنے سے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا ۔ ” اُث٘بُت٘ یَا ثَبِی٘رُ فَاِنَّمَا عَلَی٘کَ نَبِیٌ وَّ صَدِّی٘قٌ وَشَھِی٘دَانِ ۔

 اے شبیر پہاڑ قائم رہ بلاشبہ تجھ پر نبی صدیق اور دو شہید ہیں ۔

 براق کی رکاب حضرت جبریل علیہ السلام کے ہاتھ میں اور لگام حضرت مکائیل علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ردیف یعنی پس پشت بیٹھے تھے ۔ ممکن ہے کہ پہلے رکاب تھامے ہوں گے اس کے بعد حضور اکرم ﷺ  نے اثنائے راہ میں اپنی محبت و عنایت کی اقتصاء میں اپنا ردیف بنالیا ہو۔ یا یہ کہ پہلے ردیف بنے ہوں گے ا سکے بعد حضور اکرم ﷺ   کی تعظیم و تکریم اور طریقۂ ادب کی رعایت سے  اتر کر رکاب تھام لی ہو۔

جب حضور اکرم ﷺ کی سواری زمین نخلستان میں پہنچی تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا یہاں دوگانہ پڑھئیے۔ یہ زمین یثرب ہے جسے بعد میں مدینہ منورہ کہا جائے گا ۔

اس کے بعد جب مدین اور اس زمین میں پہنچے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ ان دونوں جگہوں میں بھی حضرت جبریل علیہ السلام نے یہی عرض کیا کہ اتر دوگانہ ادا کیجئے۔

اس کے بعد حضور ﷺ نے دیکھا کہ ایک جانب ایک بوڑھی عورت کھڑی ہے۔

حضور ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے دریافت کیا یہ کیا ہے؟۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کیا حضور بڑھیے۔

پھر حضور اکرم ﷺ نے ملاحضہ فرمایا کہ ایک جانب ایک شخص کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے ۔ حضور ﷺ نے دریافت یہ کون ہے۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کیا حضور بڑھیے چلیے۔

اس کے بعد ایک جماعت پر گزر ہوا جو حضور کو سلام عرض کررہی تھی۔اور کہہ رہی تھی السلام علیک یا اول ، السلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حاشر۔

حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول ﷺ ان کے سلام کے جواب مرحمت فرمائے۔ آپ نے ان کے سلام کا جواب مرحمت فرمایا ۔

پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا وہ بوڑھی عورت جسے حضور نے ملاحظہ فرمایا وہ دنیا تھی۔  اب اس کی عمر باقی نہیں رہی ہے مگر جتنی اس بڑھیا کی عمر  باقی ہے ۔ اور وہ جس نے حضور کو مخاطب کیا تھا وہ ابلیس تھا اگر حضور اس کی طر ف التفات فرماتے اور اسے جواب دیتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتی اور شیطان انہیں گمراہ کردیتا ۔

اور وہ جماعت جو آپ پر سلام عرض کر رہی تھی وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام ،حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔

ایک روایت میں ہے جب حضور ﷺ کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر انورپر ہوا تو وہ قبر شریف میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے کہا  اشھد انک رسول اللہ  میں شہادت دیتا ہوں یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں ۔

 چونکہ انبیاء علیھم السلام زندہ ہیں تو وہ خدا کے حضور عبادت کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب جنت، جنت میں کریں گے بغیر اس کے مکلف ہوں۔

اختیارات مصطفےٰ ﷺ       از       مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی

معراج مصطفےٰ ﷺ اور تحفۂ معراج نماز     از     الحاج حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی 

 حضور ﷺ بیت المقدس میں

 جب حضور ﷺ سفر کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے تو براق کو مسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھا جسے اب باب محمد ﷺ کہتے ہیں اس کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور دو رکعت ادا کیں ۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ

مسجد میں داخل ہوتے ہی حضور ﷺ نے جو دوگانہ پڑھی وہ نماز تحیۃ المسجد تھی۔

اس کے بعد  تمام انبیاء علیھم السلام اور تمام فرشتے مقربین حاضر ہوئے اور تمام نے  خدا کی ثنا کی اور حضور ﷺ پر صلوٰۃ و سلام عرض کیا ۔ اور سب ہی نے حضور ﷺ  کی افضلیت کا اعتراف کیا۔  پھر اذان کہی گئی اور نماز کے لیے اقامت ہوئی اور سب نے حضور ﷺ کو امامت کے لیے آگے بڑھایا ۔ حضور ﷺ نے امامت فرمائی اور تمام انبیاء و ملائکہ علیھم السلام نے اقتدا کی ۔

امام عشق و محبت مجدد دین و ملت فرماتے ہیں ۔

 نماز اقصیٰ میں تھا یہی سِر عیاں ہوں معنیِ اول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے۔

یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شئی کا ہو رہا تھا

نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے۔

مکمل قصیدہ معراج پرھنے کے لیے کلک کریں 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے لیے براق لایا گیا جو سفید جانور تھا ، گدھے سے لمبا اور خچر سے چھوٹا  حد نگاہ اپنا قدم رکھتا تھا ،آقائے کریم ﷺ فرماتے ہیں میں اس پر سوار ہوا یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچا اور جبریل علیہ السلام نے براق نے وہاں باندھا جہاں انبیاء علیھم السلام باندھا کرتے تھے ۔

پھر ہم مسجد میں داخل ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں اور  جب مسجد سے نکلے تو جبریل علیہ السلام نے ایک برتن میں دودھ اور ایک برتن میں شراب پیش کیا ۔ آپ ﷺ  فرماتے ہیں کہ ہم نے دودھ کو اختیار فرمایا ،جبریل علیہ السلام بولے کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اور پھر ہم آسمان کی طرف روانہ ہوگئے۔  ( مسلم شریف)۔

خوشبوئے مصطفےٰ ﷺ کو ضرور پڑھیں مکمل چھ قسطوں میں ہے  

حدیث پاک کی اہمیت یہ کتاب آن لائن خریدیں فلیپ کارٹ سے

Flipkart

فضائل اہل بیت و بارہ امام مصنف علامہ عبد الرحمٰن جامی اس کتاب کو فلیپ کارٹ سے خرید سکتے ہیں Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن