اُدھر قدرت کی طرف سے طبیعت میں پِنہا جذبات کو قلم و قِرطاس کےحوالہ کرنے کا شُعور بیدار ہوا اور اِدھر فی زمانہ تبدیل ہونے والے ملک کی مثبت و منفی کردار پر مشتمِل عنوانِ سیاست پر دِلچسپی کا عنصر گہرا ہوا۔ مفاد پرست سیاست داں اور قوم کا بھولا پن
مفاد پرست سیاست داں اور قوم کا بھولا پن
تبھی سے مسلسل اس بات کا مشاہدہ عمیق تر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ہندوستانی سِیاست کے داؤ پیچ کو سمجھنا آج بھی ویسے ہی مشکل ترین کام ہے جیسے کہ کسی نہ سُلجھنے والی گُتّھِی کے داؤ پیچ ہوتے ہیں، کہ اسے جتنا سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں اور بھی زیادہ اُلجھاؤ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بالآخر اس اُلجھی گُتّھِی کو اَثناء راہ چھوڑ کر آگے کی طرف قدم بڑھائے جاتے ہیں، تاکہ وقت کی مزید بربادی سے بَچا جا سکے۔
عرصئہ دراز سے عہدہ و مناصب کی ہوڑ و ہوَس نیتاؤں میں کچھ اتنی شِدّت اِختیار کر چکی ہے کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اور کون کس کی گود میں جا کر بیٹھ جائے اور کون کس وقت خود کو ‘إبنُ الوقت’ ثابت کرکے میدانِ سیاست میں نئے آنے والوں کی طرف سے عوام کو نئے سرے سے سوچنے سمجھنے پر مجبور و مشکوک کر دے؟۔
اسی کے ساتھ جب یہ ‘دَل بدَلو’ نیتا اور ‘آیا رام گیا رام’ والی پالیسی اپنانے والے عہدہ و مناصِب کے بھوکے در بدر ہوتے ہیں تو یہ سب اپنی ماضی کی تاریخ، قربانی، بیان بازی اور پارٹی کی طرف سے نوازے جانے والے اوقات و لمحات کو اپنے ذہن و دماغ سے فراموش کر دیتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی سیاسی ہیر پھیر اس ہولی (10/مارچ) پر اس وقت دیکھنا میں آیا جب اِس ہَلچَل کا سبب کانگریس کے سرگرم، جواں لیڈر اور سابق ممبرِپارلیمنٹ “جیوتی رادتیہ سندھیا” بنے اور وہ دفعۃً دَل بدَل ہوتے ہوئے حکراں پارٹی کے دامن میں پناہ گزیں ہو گئے۔
ہولی کے دن اچانک اٹھائے گئے “سِندِھیا” کے اس قدم سے سوشل میڈیا سمیت پِرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی یہ بحث اور موضوع مکمل طور پر چھایا رہا اور ابھی بھی طوفان بَرپا ہے؛ جس پر طرح طرح کے تبصرے کئے جا رہے ہیں، رائے مشورے سامنے آ رہے ہیں۔
اور ایک طبقہ وہ بھی ہے جو سِیاست دانوں کے سیکولراِزم اور کمیونل اِزم کی لایعنی بحث و تکرار کو مدعیٰ بنا کر عوام کا ذہن اصل مسائل اور مدعوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو “سندھیا” کی اِس “گھر واپسی” پر سیکولراِزم کی دہائی دے کر ان کو کانگریس پارٹی کی طرف سے نوازے جانے پر گلے پَھاڑ پَھاڑ کر نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
حالانکہ میدانِ سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے اس مفاد پرست ٹولے اور اس طرح إبن الوقتی کا ثبوت دینے والوں کی ذہنیت کو پرکھنے والوں کے تئیں ان کی اس مذموم حرکت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ موجودہ زمانے میں سب سے بڑا سیکولر لیڈر وہی کہلاتا ہے جو حالات و مواقع کو مدّنظر رکھتے ہوئے سِیاسی بِساط پر قدم بقدم آگے کی منازل طے کرنے کی مہارتِ تامّہ اپنے اندر رکھتا ہو۔
آج تمام سیاسی پارٹیاں ایسے شخص کےلئے اپنے دروازے کھولنے کو نہ صرف پسند کرتی ہیں بلکہ آنے والے کےلئے پہلے ہی سے پھولوں کا ہار اور گُلدستہ لےکر اس کا استقبال کرتی ہیں۔
جو شخص اپنے تمام خاندانی رسم و رواج کو پامال کرنے اور قدیم سیاسی رِفاقتوں کی پرواہ کئے بغیر ماحول کے موافِق خود کو ڈھال کر اس نئی تجویز شدہ پارٹی کا ہم نِوالہ و ہم پِیالہ بن کر آنے کو تیار ہو گیا ہو۔
اور اس سلسلے میں حکمراں جماعت تو سرِفہرست ہے اس لئے کہ”یہاں سات خون بھی معاف ہیں، بشرطیکہ آپ پارٹی کے رکن بن جائیں” اس لئے موجودہ زمانہ میں سیکولر اور غیر سیکولر کی بحث میں اُلجھنا فضول ہے۔
ایک اور بات؛ ہمیں سبھی سیاست داں سیکولر اور مسلمانوں کے ہمدرد نظر آتے ہیں، کب جبکہ ووٹ حاصل کرنے ہوں اور ایم۔پی ایم۔ایل۔اے کی شکل میں اپنی نمائندگی درج کرانی ہو تو اس وقت بڑے سے بڑا فرقہ پرست اور شدت پسند بھی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہماری صفوں میں شامل ہو جاتا ہے۔
کیا نکاح سے پہلے کلمہ پڑھانا ضروری ہے
اور اس وقت وہ درگاہوں مزاروں پر حاضری دینے، گل پوشی کرنے یا محترم و مقتدر شخصیات پہ ہونے والے سالانہ عُرسوں کے مواقع پر مُنقَّش و مُعطَر چادریں اپنے سروں پر ڈھوتے نظر آ جاتے ہیں ۔
اور جب ان تمام باطل حِیلوں بہانوں سے بھی کام نہیں چلتا تو یہی مفاد پرست اور خود کو سیکولر کہلانے والے لیڈران ہمارے ان بزرگوں کے نام پر نذر و نیاز کے پتیلے اتارنے میں بھی کسی طرح کی دِقّت و پریشانی محسوس نہیں کرتے، اور سیاسی بصیرت سے محروم مسلم عوام اس وقت سب کچھ بھول کر ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے طواف کرنے میں مست ہو جاتے ہیں۔
لیکن دَل بدلو یہ ٹولہ جب کامیاب ہو جاتا ہے تو سود سمیت منافع اور اپنی قیمت ہم سے وصول کرتا ہے، وہ چاہے “جیوتی را دتیہ سِندھیا” ہوں یا کرسی اور وزیر کے عہدوں کے لالچی دیگر نیتا “رام وِلاس پاسوان”، “ٹھاکرے بِرادران”۔
اور بہار کے موجودہ وزیرِاعلی (پلٹو رام سے مشہور) “نتیش کمار” ہوں، یہ ایسا إبن الوقت ٹولہ ہے جو عہدہ و مناصِب کی خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے اور ذِلّت و رسوائی کے کسی بھی غار کود سکتا ہے۔
رام وِلاس پاسوان اور ان کے ساتھ سبرامنیم سوامی کو بھی شامل کر لیا جائے تو آپ کو یہ جان کر کر حیرانی ہوگی کہ حکمراں جماعت کے یہ ایسے سرکردہ و سرگرم لیڈران ہیں جن کے سیکولراِزم اور مسلم دوستی کی ایک وقت قسمیں کھائی جاتی تھیں۔
مگر یہ بھی بہت پہلے “سِندھیا” والی راہ چل کر خود کو غیر سیکولر ثابت کر چکے ہیں اور اب کہاں کھڑے ہیں یہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے؟
Amazon se New mobile Buy Karain.Redmi Note 8
سیاست کے حمام سب برہنہ بہت ہی لاجواب مضمون ضرور مطالعہ کریں
محمد قاسم ٹانڈوی
رابطہ۔۔0931901900
mdqasimtandvi@gmail.com