جس حرم شریف میں زلزلہ نہیں آ سکتا, جس مکّہ میں دجال داخل نہیں ہو سکتا, جس مکّہ میں قومِ لوط پر عذاب کےلیے بھیجے گئے پتھر باہر فضاء میں اس آدمی کے انتظار کےلیے معلق رہے جن پر گرنے کا ان کو حکم تھا .
جب وہ آدمی حرم سے نکلتا تو جو پتھر جس پر گرنا تھا اس پر ہی گرتا, اس مکّہ میں آج امت مسلمہ اک عام سے وائرس سے خوف زدہ ہے. جس کعبہ میں ہیبتِ الٰہی اس قدر مضبوط ہے کہ عورت ومرد اکٹھے طواف کرتے ہوئے اک دوسرے پر نظر اٹھانے کی جسارت نہیں کر سکتے۔
خدارا اے مسلم امہ اپنے مقام کو پہچانو تمہاری ثابت قدمی دیکھ کر دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے اسلام قبول کیا اور تم آج اس قدر بے یقین ہو گئے کہ جسکا کعبہ ہے جس نے تم کو عبادت کےلیے پوری دنیا کے انسانوں میں سے اپنے گھر کے طواف کےلیے منتخب کیا ہے کیا وہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتا۔
وائرس کا خوف اور رہنماؤں کی بے توجہی
خدارا اپنے آپ کو پہچانواک مسلم کی طاقت یہ ہے کہ وہ آج سے 1400 سال قبل اس پتھریلی سرزمین عرب کے ہِلنے پر اپنے نافذ کردہ عدل و انصاف کی یاددہانی کے سلسلے میں اس پر ضرب مارے اور آج تک اس زمینِ عرب پر زلزلہ نہیں آیا۔
تو کیا ہم اپنے پختہ ایمان واعتقاد اور عمل وافکار سے اس عام کرونا وائرس کو نیست ونابود نہیں کر سکتے ۔
ہم یہ ثابت کریں گے کہ ہم وہ خاص لوگ ہیں کہ ایک مسلم کے منہ سے جب تلاوتِ خداوندی جاری ہوتی ہے تو فرشتے اس مسلم کے منہ کو بوسہ دینے کےلیے رشک کرتے ہیں۔
جب یہ مسلم اللہ اکبر منہ سے کہتا ہے تو شیطان کوسوں دور ہو جاتا ہے…….جب یہ مسلم فراخ دلی سے اپنے مسلم بھائی کو گلے لگاتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے تو اللہ انکی اس ادا کو دیکھ کر دونوں کے سابقہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔
یہ مسلم جب جمعہ کے وقت مسجد میں اجماعِ امّہ کے ساتھ شمولیت کرنے کے سلسلے میں مسجد کے دروازہ پر قدم رکھتا ہے تو فرشتے اسکے مسجد میں آنے والے وقت کے لحاظ سے سونے, چاندی کے اوراق پر حاضری لگانے کے سلسلے میں اس آدمی کا نام تحریر کرتے ہیں۔
جب یہ مسلم وضو کرتے ہوئے جس جس عضو کو دھوتا ہے تو ہر عضو سے گناہ پانی کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں تو میرے پیارے نادان مسلمان تو کیوں مساجد و حرمین شریفین سے خوف کھانے لگا ہے۔
کل تک لوگ مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے، سجدے میں سر رکھ کر گڑ گڑاتے تھے گناہوں سے توبہ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا تھا اور انہیں ہر طرح کی مشکلات سے چھٹکارا حاصل ہوجاتا تھا۔
آج کرونا وائرس نامی بیماری سے وہ قوم بدحواس ہے جو اللہ کو ایک نہیں مانتی، نبی کریم کا کلمہ نہیں پڑھتی، جنہوں نے اپنے نبیوں کی کتابوں سے بغاوت کی انکی بدحواسی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ قوم جس کے پاس شریعت ہے، قرآن مجید ہے، نبی سیدالکونین ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ۔
وہ قوم آج بیچین ہے خود اپنی شریعت، اپنی عبادت گاہ کو شک اور متزلزل بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اور مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر رہی ہے یہ تو انتہائی تشویشناک بھی ہے، خطرناک بھی ہے اور سب سے بڑا خطرہ گمراہی کا ہے دوسرا خطرہ دنیا بھر میں مساجد میں اذان اور نماز کی ادائیگی کا ہے۔
آج مساجد کے ماننے والے مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا رہے ہیں کل مساجد کے مخالف مساجد میں نماز اور اذان پر پابندی عائد کریں گے تب کیا ہوگا اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں یہ قدم اٹھایا گیا ہے جو قابل مذمت ہے۔
بات بات میں اللہ کریم اللہ کریم کہنے والوں کو آخر آج کیا ہوگیا کیا اب اللہ پر بھروسہ نہیں، یقین نہیں؟ اگر ہے تو کرونا وائرس کا اتنا شدید خوف کیوں؟ ۔
کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور ہے جو زندگی اور موت کا مالک ہو، عزت اور ذلت کا مالک ہو، کیا کوئی اور ہے جو ہماری جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کر سکے اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کو ایسا مانتا ہے تو وہ گمراہ ہے ۔
اور ایسا نہیں مانتا تو پھر اسی کے نظام اور اسی فرمان سے مخالفت کیوں کی جانے لگی اللہ تو کہتا ہے کہ اے میرے بندوں میں تمہیں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں آؤ میری بارگاہ میں میں تمہاری توبہ قبول کروں گا۔
تمہارے گناہوں کو معاف کردونگا، تمہیں سربلندی عطا کروں گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے مومن بنو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحتیاب ہوتے ہوئے گھر میں نماز ادا کرنے والا مومن ہوسکتا ہے، باجماعت نماز کی ادائیگی پر ستائیس گنا زیادہ ثواب ہے تو جان بوجھ کر اکیلے نماز ادا کرنے والا مومن ہوسکتا ہے۔
راقم الحروف ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے کہ دنیاوی بیماری سے خوف زدہ ہوکر مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگانے والا ہرگز مومن نہیں ہوسکتا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ علماء کرام کو حالات کے مدنظر شریعت میں ردوبدل پر مبنی فیصلہ لینے کا حق ہے۔
تو میرا ان سے سوال ہے کہ کیا اسلام مکمّل ضابطہ حیات نہیں ہے، دین مکمّل نہیں ہے اگر دین مکمّل ہے اور اسلام ضابطہ حیات ہے تو پھر چاہے کچھ بھی ہوجائے شریعت میں تبدیلی کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔
ارے عرب ممالک کے بیحس حکمرانو!۔ کچھ تو سوچو کب تک تم یہودیوں کے چنگل میں قید رہنا پسند کروگے تمہاری عیش پرستی اور یہود نوازی اب تمہیں حرمین شریفین سے بھی محروم کردیگی اور یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
آج تمہیں خدا پر یقین نہیں، سرزمین مکہ کے بلدالامین ہونے پر یقین نہیں ارے تم اتنے بیغیرت ہوگئے کہ رب العالمین اور رحمۃ اللعالمین کے در کو چھوڑ کر دیگر در اور ذرائع تلاش کر رہے ہو اور امن و وسکون کی اور کرونا وائرس جیسی بیماریوں سے نجات چاہتے ہو۔
یاد رکھو کبھی نجات نہیں ملے گی اس لئے کہ بیماری اور شفا دونوں کا مالک اللہ ہے تم اس کی مساجد کو ویران کروگے تو وہ دوسری مخلوق سے مساجد کو آباد رکھنے پر قادر ہے ۔
اور تم شریعت کے باغیوں میں شمار کئے جاؤ گے قول محمد ﷺ اور قول خدا میں تبدیلی کرنے والوں میں شمار کئے جاؤ گے، اسلام کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں میں شمار کیے جاؤ گے ۔
اور تاریخ تمہیں کبھی معاف نہیں کریگی۔
کیونکہ آج تمہارا جو کارنامہ ہے وہ احتیاطی تدابیر نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اسلام کی راہ میں اسلام کے ماننے والوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں۔
یعنی آج مسلمانوں کو خطرہ ہے تو مسلمانوں سے شرعی اعتبار سے تم مجرم ہو کیونکہ کلمہ گو ہوکر تمہیں نماز باجماعت سے، جمعہ کی ادائیگی، سلام و مصافحہ سے بیماریوں کے بڑھنے کا خطرہ نظر آنے لگا اب تو یہی کہا جائے گا کہ بڑی تیزی کے ساتھ قیامت کے آثار نظر آنے لگے ۔
جاوید اختر بھارتی
سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین
محمد آباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
موبائل 08299579972