Friday, November 22, 2024
Homeمخزن معلوماتبلاؤں اور آفتوں کے چند اہم امور

بلاؤں اور آفتوں کے چند اہم امور

آج پوری دنیا ایک کرونا وائرس نامی بیماری سے پریشان ہے اور اس کا اعلاج ڈھونڈنے سے قاصر ہے اسی سے متعلق کچھ معلوماتی باتیں آج کے اس مضمون میں ملاحضہ فرمائیں جس کو ترتیب دیا ہت محمد قاسم ٹانڈوی صاحب نے جس کا عنوان ہے بلاؤں اور آفتوں کے چند اہم امور۔

بلاؤں اور آفتوں کے چند اہم امور 

اس وقت کم و بیش پوری دنیا کے عوام ایک نئی جان لیوا ‘کرونا وائرس’ نامی بیماری کی

 مار جھیل رہے ہیں جس کے یَکطرفہ پھیلاؤ سے پورا انسانی معاشرہ تَھرتَھر کانپ رہا ہے اور فَضا کو مَسمُوم کرنے کے بعد اس مُہلِک و جان لیوا ‘وائرس’ نے چھوٹے بڑے، امیر غریب، حاکمِ اَعلیٰ و محکومِ اَدنیٰ سے لےکر اپنے پرایوں اور عام خاص کی تمیز کو یَکسَر مِٹا کر رکھ دیا ہے۔

 چنانچہ جیسے جیسے یہ وائرس اپنی ظالمانہ آغوش کو دَراز سے دراز تَر کرتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس بَھیانک اور ہر سطح پر تباہی خیز ثابت ہونے والے مادہ اور آفاقی شئی، جسے کسی طبقے کے مابین تو قُدرتی وَبا و بَلا سے تشبیہ دی جا رہی ہے تو کہیں اسے قدرت کی طرف سے لوگوں کے اِمتحان و آزمائِش سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

 اس کے علاوہ بھی آراء سامنے آ رہی ہیں؛ مثلاً: یہ ایک نئی متعدّی بیماری ہے جو ملکِ چِین سے پوری دنیا میں پھیلی ہے، جبکہ کچھ کا نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ اور چین کی سازِشی حرکت ہے کیوں کہ وہ اپنے ملک سمیت پوری دنیا سے چند سالوں میں غریبی بالفاظ دیگر غریبوں کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔

 مگر ان کے تحقیقی اِداروں سے چوک ہو گئی اور قبل از وقت ان کی یہ سازشی حرکت طَشت از بام ہو گئی جس کی وجہ سے آج پوری دنیا نفسانی خوف میں مبتلا ہے اور لوگ ڈرے سہمے اپنے طور پر یا حکومت کی جاری کردہ ہدایات پر محفوظ مقامات میں خود کو محبوس و محصور کئے عالَم ِحیرانی و پریشانی میں ڈوبے ہیں۔

 اور جلد از جلد اس مسموم وائرس کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ عالمِ مَبہوتِی سے نکل کر خود کو کُھلی و آرام دہ فَضا اور پُرسُکون ماحول سے لطف اندوز کر سکیں۔

ایک طرف تو لوگوں کی پریشان کُن حالت کا یہ عالَم ہے تو وہیں دوسری طرف ذَرا ان لوگوں کو بھی دیکھئے جو ماحول کی اس کشمکش اور جلوے بِکھیرتی سنگینی کے دوران کس کس انداز میں اپنا ناقِص کردار نِبھاتے پائے گئے اور اس بَلائے آسمانی اور آفتِ ناگہانی میں زبان کے چَٹوروں اور کانوں کے رسیا اَفراد کی مانند مذاق اڑاتے رہے۔

 اس نَاہَنجار و نامُراد ٹولے نے متأثرہ علاقوں اور متأثرہ لوگوں پر تفریحِ طبَع اور مُوڈ فِریش کے بَہانے ایسے ایسے لطیفے اور جوکس گھڑے کہ “ألأمان والحفیظ“۔

 وہیں ایک بڑی تعداد ایسے ماہرین کی بھی سامنے آئی جن کی تمام معلومات کا مَنبَع واٹس اپ اور فیس بک یونیورسٹی ہے اور وہ یہیں سے اخذ کردہ معلومات کو فارورڈ کرنے میں لگے ہیں، گویا خود ساختہ معالج و حکیم بن کر کرونا وائرس  جیسی مُتعدد و مُہلِک بیماری اور اس کے جراثیم سے نِمٹنے پر گِیان تقسیم کرنے میں لگے ہیں۔

تعلیمات حضرت نوری میاں مارہروی کی عصری معنویت

بہر کیف ! ملکی پیمانوں سے نکل کر عالمی سطح پر جیسے جیسے یہ وائرس پھیلتا گیا لوگوں میں تشویش، تکلیف اور اندیشے مزید گہرے ہوتے چلے گئے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس نے کیسی خطرناک صورتحال اختیار کر لی ہے اسے اب ہم اور پوری دنیا آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔

أَللّٰھمَّ احْفِظْنَا مِنْہ

مگر اس نازک اور پریشان کُن گھڑی میں ہم بھی اپنے اِختراعی ذہن اور خدا داد صلاحِیت کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً “واٹس اپ اسٹیٹس” پر (جس میں الفاظ کی تحدید کے ساتھ اپنی بات مکمل کرنا ہوتی ہے)۔

 قرانی آیات کے جُملے فِقروں سے ماخوذ مُختصر تحریریں؛ جن میں صبر و تسلی، قناعت و توکُّل، رجوع اِلی اللہ، نمازِ پنج وقتہ کے ساتھ تلاوتِ قرآن کی پابندی، کثرت کے ساتھ توبہ استغفار کرنے اور خود کو زیادہ سے زیادہ وقت دعا و مُناجات میں مشغول رکھنے۔

 نیز اپنے کریم رب کی ذاتِ وَحْدہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ پر کلی طور پر اعتماد و یقین رکھنے جیسے موضوعات پر مشتمِل حالاتِ حاضرہ کی سنگینی کو سمجھنے اور اس کا مَداوا کرنے کےلئے اپنی ان مختصر تحریروں کو قرآنی آیات کی روشنی میں ڈھال کر بَشکلِ اسٹیٹس سوشل میڈیا پر شئر و اپ لوڈ کرتے رہے۔

 چنانچہ اسٹیٹس کی شکل میں مرقوم یہ تحریریں جب سوشل میڈیا پر وابستہ دوست احباب کی نظر سے گزریں تو بہت سے احباب نے اسی وقت اِنتہائی پسندیدگی کا اظہار کیا اور ہِمّت اَفزائی کر مبارک باد پیش کی۔

 وہیں کچھ احباب کی طرف سے یہ تقاضا بھی مسلسل ہوتا رہا کہ قرآنی آیات سے مُستعار ان مختصر ترین “اسٹیٹس” کو اِفادۂ عام کی خاطِر باضابطہ تحریر اور پِرنٹ کی شکل دے دی جائے تو اور بھی زیادہ بہتر و مناسب ہوگا۔

چنانچہ جب ان اسٹیٹس کی تعداد دس سے مُتجاوَز ہو گئی تو احباب کے اِخلاصِ نیت پر مبنی مشورہ اور تقاضے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے ان تحریروں کو وہاں سے کاپی کر ضروری حذف و اضافہ کے ساتھ حوالۂ قرطاس و قلم کرایا جا رہا ہے۔

 تاکہ کسی بھی انہونی اور مصیبت و پریشانی کے وقت ان قرآنی تراشوں سے راہنمائ

حاصل کی جا سکے اور انہیں حرزِ جاں بنایا جا سکے۔

چنانچہ اس وبا کے تعلق سے پہلے دن کا ہمارا اسٹیٹس یہ تھا مَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ

اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں لوگوں کو ہم نے کچھ اس طرف توجہ دلائی کہ حالاتِ حاضرہ کی یہ پَراگندگی (وائرس) متقاضی ہے۔

کہ ہم اللہ کے گھروں کو نماز پنج گانہ، اجتماعی و انفرادی دعاؤں کی پابندی کے ساتھ ساتھ ذکر و تسبیح، تہلیل و تکبیر، اکابر و بزرگانِ دین سے ثابت شدہ اعمال۔

 ان کے مجرّب اور آزمودہ اوراد و وظائف کے معمولات سے آباد کیا جائے نیز معاشرے کو ہر قسم کے و اسباب معاصی سے زیادہ سے زیادہ پاک رکھنے کی فکر و سعی کی جائے۔

اس سلسلے کا دوسرا اسٹیٹس تھا ۔ فَتْحٌ قَرِیْبٌ

مانا کہ حالات واقعی بہت ناموافق اور موجودہ فضا بہت مسموم ہے مگر پھر بھی ایک ذاتِ واحد پر یقینِ کامل بنائے رکھیں نیز ایمان کی سلامتی، عقائد کی پختگی، اخلاق و کردار کی شائِستگی اور معاملات کی صفائی ستھرائی پر انتہائی گہری نظر رکھتے ہوئے۔

 اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت اور مسنون و مقبول دعاؤں میں مشغول رکھیں؛ ان شاء اللہ العزیز فتح بھی ہماری ہوگی اور ہمارے یہ سینے بھی آخری دم تک اطمینانِ قلبی کی دولت سے معمور رہیں گے۔

تیسرا اسٹیٹس تھا   کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ

اس آیت کا مفہوم ہم نے کچھ اس طرح رقم کیا تھا، کہ ایک ربِ حقیقی کے ماننے والو

تمہیں وہ موت سے ڈرائیں گے، مگر تم ڈرنا نہیں؛ کیوں کہ موت سے کسی ذی روح اور جاندار کو رُستَگاری نہیں۔

 وہ تو آکر رہےگی

پھر وہ حالات کی ناسازی کا وہم تمہارے دلوں میں پیدا کریں گے، مگر (دیکھو) تم گھبرانا نہیں۔

 کیوں کہ  حالات کا تبدُّل اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے آگے لکھا تھا کہ ایسے تمام مواقعوں پر تم اسی طرح اپنے ایمانی موقف پر ڈٹے رہنا اور جمے رہنا جن کی تم روحانی اور ایمانی اولاد کہلانے میں خود پر فخر محسوس کرتے ہو۔

 بس یہی ایک نُسخۂ کیمیا ہے جو تمہیں اپنے دینی و شرعی موقف پر مستحکم و مضبوط بنائے رکھنے میں ممدد و معاون رہےگا(إِن شاء اللہ)۔

چوتھا اسٹیٹس تھا ۔ حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الوَکِیْلْ

اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھا گیا تھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ

“حَیات و مَمات کا مالک اللہ ہے، صحت و بیماری مالکِ دوجَہاں کی دَین ہے، خیر و شر کا نزول بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔

 اس کے باوجود شریعتِ مطہّرہ نے ہمیں احتیاطی تدابِیر اختیار کرنے اور متعدی امور کے پیش آنے کے وقت میں جہاں اسباب و وسائل کے استعمال کرنے کا پابند و مکلف بنایا ہے، وہیں  خدائے وحدہٗ لا شریک لہٗ کی ذات پر یہ یقینِ کامِل بھی رکھنا چاہئیے کہوہ اپنے بندوں کو (ہر اعتبار سے) کافی ہے اور بہترین کارساز بھی۔

پانچویں اسٹیٹس میں موجودہ حالات کی روشنی میں حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور ناانصافی کی تصویر کچھ اس طرح سے بیان کی، کہ

   شکریہ وائرس شکریہ

وائرس زدہ دنیا کی موجودہ حالت اور تازہ ترین صورتحال جس میں ظالِم و جابِر، طاقتور اور منصب و اقتدار کی کرسی پر بیٹھے شخص سے لےکر غریب، محتاج، مزدور و ملازم اور ہر وہ شخص جسے تھوڑی سی بھی احساس و شعور کی دولت میسر ہے۔

 اسے وائرس کی تباہ کاریوں کا بخوبی ادراک ہونے کے بعد کم از کم اتنا اندازہ تو ضرور ہو چکا ہوگا کہ جب فرش والے ظلم و تعدی اور ناانصافی سے کام لیتے ہیں تو اس وقت عرش والا اپنی طاقت و قدرت اور ناراضگی کا ا ظہارو ا ۔حساس کچھ اس طرح بھی کراتا ہے۔

ہمارے چھٹے اسٹیٹس کی تحریر کا محور دراصل وزیرِاعظم ہند کی طرف سے ایک دن کے ‘عوامی کرفیو’ کے اعلان اور اس کے اختتام پر تالی، تھالی اور گھنٹی بجانے کی اپیل کے پس منظر میں تھا۔

 جس کے سلسلے میں حالات شناس طبقہ اور ماہرینِ سماج نے مختلف اندیشوں کا اظہار بھی کیا تھا؛ عنوان تھا۔

تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً

کل اتوار 22/مارچ کو حکومت کے مجوزہ اعلان “عوامی کرفیو” پر پابندی اور عملداری اپنی جگہ ہے، مگر بندش کے اختتام پر تالی، تھالی یا گھنٹی بجانے والا فلسفہ عقلی و شرعی طور پر سمجھ سے بالا تر ہے۔

 لہذا ہمیں ایسے مواقع پر شرعی نقطۂ نظر سے کام لینا چاہیے اور اس سلسلے میں بہتر اور بہت مناسب امر یہ ہوگا کہ ہم صبح شام تک (جہاں تک بھی ممکن ہو) تالی، تھالی اور گھنٹی بجانے سے گریز کریں.

 اور اس کی جگہ ہم اپنے ہاتھوں کو دعا و مناجات میں اپنے کریم رب کے سامنے آہ و زاری کے واسطے دراز کریں اور اس آفاقی وبا و بلا سے پوری انسانیت کے محفوظ و مامون ہونے کی دعائیں کریں۔

ہمارے ساتویں اسٹیٹس میں لوگوں کو یاد دہانی تھی اور اس کا عنوان تھ

                        ﴿فَفِرُّوْآ إِلَی اللہِ﴾

بتایا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والا ہر لمحہ گزرے لمحے سے کہیں زیادہ مایوسی، پریشانی، افسردگی اور خطرناکی کی منظر کشی کرا رہا ہے۔

 جس سے کہ مجموعی طور پر لوگوں کے اَذہان و قُلوب پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عدمِ اطمینان کی لہر مزید گہری ہوتی جا رہی ہے اور اس نازک گھڑی میں ایسا ہونا فطری اور یقینی چیز ہے۔

 لہذا مصیبت و پریشانی کی اس نازک گھڑی میں دولتِ ایمان سے سرفراز حضرات کو چاہئیے کہ وہ پوری انسانیت کو حالات کی دَلدَل سے نکالنے اور مایوسی کے اندھیروں میں ٹامَک ٹوئِیاں مارنے سے بچانے کے لئے کثرت کے ساتھ اپنے رب کی تحمید و تقدیس بیان کرنے میں خود کو مشغول کریں۔

 اس کے ساتھ پریشان حال عوام کا ذہن بھی اس مہتم بِالشان امر کی جانب مبذول کرا کر ناراض اللہ کو راضی کریں۔

آٹھویں اسٹیٹس کا عنوان اور مفہوم بھی اسی ساتویں اسٹیٹس کے مُماثِل تھا مگر یہاں اصل چیز اس دنیا کی بےثَباتی اور معدومی کو ظاہر کرنا تھا، چنانچہ اس اسٹیٹس کی ہیڈِنگ یہ تھی۔

    مُنِیْبِیْنَ إِلَیْہِ

اس دنیا کی بےثَبَاتی، فَنائِیت کو جاننے اور لوگوں کی موقع پرستی کو سمجھنے کےلئے ایک دن کی “سرکاری بندش” کی اپیل سے بہتر اور موزوں موقع ہمارے لئے کونسا ہوگا؟۔

دیکھو نہ ذرا ایک نظر اٹھا کر گلی کوچوں اور محلوں میں پسرے اس بھیانک سنّاٹے کو اور ہمہ وقت رواں دواں رہنے والے ان شہروں کی خاموشی، تاریکی اور انسانی سروں سے بھرے رہنے والے بازاروں کی بےرونقی کی طرف جن کے بارے میں “مین اِسٹریم” ہونے کے دعوے کئے جاتے تھے۔

 مگر آج سب کے سب “ماتَم کُناں” بنیں اپنی غیررونقی اور بےبَسی پر کیسے آنسو بہا نے پر مجبور ہیں؟

آگے آیتِ کریمہ کے مفہوم کو اور بھی زیادہ واضح کرتے ہوئے یہ لکھا گیا تھا؛ اس لئے لوگوں آؤ اور عزمِ مصمم کرو دینِ فطرت کی طرف پلٹنے کا اور ہر آن اپنے مہربان خدا

سے ڈرنے کا۔

جبکہ نویں اسٹیٹس کا عنوان تھا  حَیاتِ دنیا مَتاعِ غُرور ہے

یہ عنوان بھی قرآن کی آیتِ کریمہ سے مستعار ہے، ساتھ ہی اس میں ایک تمثیل کا سہارا لیتے ہوئے سہل انداز میں عوام کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

 اور وہ اس طرح کی دیکھو؛ عام سودا سلَف خریدنے میں اگر کوئی دوکاندار ہمارے ساتھ ایک مرتبہ بھی دھوکہ دہی کا معاملہ کر دیتا ہے تو پھر ہم آئندہ اس دوکان کی طرف رُخ کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور اس سے محتاط ہو جاتے ہیں۔

لیکن کبھی ہم اس بات پر بھی تو غور و تدبر کریں کہ

“قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس دنیاوی زندگی کو ہی ‘دھوکہ کے سامان’ سے تعبیر کیا گیا ہے”؟۔

 سو دنیا کے دھوکے میں آنے سے بچو اور اس بات کو جاننے کےلئے موجودہ حالات کا گہرائی سے مشاہدہ کرنا ہی کافی ہو جاتا ہے۔

ہم نے اپنے دسویں اور آخری اسٹیٹس میں بھی قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ کو تحریر کا مرکز بنایا اور اس عالمگیر وبا و بلا جس کے ہر دم کنٹرول سے باہر ہونے کے اشارے فراہم ہو رہے تھے۔

 جس کی وجہ سے ہماری حکومت نے بھی ایک دن کے ‘لاک ڈاؤن’ کو ملک کے بعض حصوں میں مزید بڑھا دیا تھا؛ اس وبا و بلا پوری سے انسانیت کو نجات دِلانے اور دنیا سے اس کا خاتمہ کر دینے کےلئے جہاں حکومتیں اور میڈیکل سائنس اپنی بھرپور کوششیں صرف کر رہی ہیں وہیں اہلِ علم و فَضل حضرات اور یادِ الہی میں خود کو مستغرق رکھنے والی اہم شخصیات خاص کر “قیام اللیل” کی عادی اور پابندی کرنے والوں کی خدمت میں اپنے اس اسٹیٹس کے ذریعے توجہ مبذول کرائی تھی؛ عنوان تھا۔

                       تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ

ایسا محسوس ہوتا ہےکہ کورونا وائرس کے بےکنٹرول ہوتے دیکھ شاید حکومت نے ایک دن کے ‘لاک ڈاؤن’ کو ملک بھر کے 75/اَضلاع میں مزید توسیع دی ہے۔

 جسے دیکھ کر صاف کہا جا سکتا ہے کہ وقت کا دھارا ابھی اور بھی ناقابلِ اطمینان صورتحال سے رُوبَرو کرائےگا۔

ایسی صورت میں دولتِ ایمان سے مُشرّف لوگوں پر دہری ذمہ داری عائِد ہوتی ہے کہ جن لوگوں کے اوصاف حمیدہ اور شب بیداری کرنے کو یہ آیت بیان کر رہی ہے وہ مصیبت و بےقراری کے اس عالَم میں اپنے پہلؤوں کو اپنی آرام گاہوں سے مزید جدا رکھ کر نمازِ تَہجّد و دعاؤں کا اہتمام فرمائیں

وائرس کا خوف اور رہنماوں کی بے توجہی

محمد قاسم ٹانڈوی 

رابطہ 09319019005

mdqasimtandvi@gmail.com

Flipkart    Firstcry  Amazon   Havells    Bigbasket

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن