ازقلم۔مولانامحمدقمرانجم قادری فیضی مدارس اسلامیہ کا تعاون ملت کی اہم ذمہ داری
مدارس اسلامیہ کا تعاون ملت کی اہم ذمہ داری
مصنوعی تہذیبِ مغرب جس کے بارے میں ڈاکٹرعلامہ اقبال نے کہا تھا
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں
فرنگی مدنیت کی فتوحات چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات۔
آج غازہ ہے نہ ساغر و مینا،رنگ ہے نہ خوشبو۔لیکن خوفناک بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت یہ خیال کر رہی ہے کہ یہ لاک ڈاؤن عارضی سا وقفہ آیا ہے، کچھ دیر بعد سب ٹھیک ہو جائے گا،انسان عظیم ہے اس سب پر یہ قابو پا لے گا۔ یہ ہے وہ خودفریبی ہے جو شیطان انسان کے دل میں وسوسے کے طور پر ڈالتا ہے۔
انسان ایسی صورت حال کواللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک جھنجوڑنے اور خواب غفلت سے بیدار کرنے والا عذاب ہی تصور نہیں کرتا بلکہ حیاتیاتی اور سائنسی بے قاعدگی سمجھتا ہے۔ جب اجتماعی طور پر انسانوں کی یہ حالت ہو تو اللہ انسانوں کو اپنے حرمِ پاک میں بھی بے خوف اور امن کے ساتھ داخل ہونے سے روک دیتا ہے۔
مسجدیں جہاں سے استغفار کی صدائیں بلند ہونا چاہئیں تھیں ویران ہو جاتی ہیں۔اس سانحے کے بعد تو انسان کو اندازہ ہو جانا چاہیئے تھا کہ اس دنیا کا سب سامانِ زیست ہے جسے اللہ ”متاع الغرور” یعنی دھوکے کا سامان بتاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے اور دنیا بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ نہیں۔
آج اس دھوکے کے سامان کی حقیقت کس قدر واضح ہو چکی ہے۔ لیکن شاید انسان کے سنبھلنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ پوری دنیا دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ زیادہ لوگ وہ ہیں جو یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن بس چند دن کی بات ہے اور انسان ایک دن اس مشکل کا حل نکال لے گا اور زندگی پھر اپنی پٹری پر واپس لوٹ آئے گی۔
قارئین کرام ۔
آج ہمارے جو حالات ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے اس وقت مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری ودنیاوی تعلیم کی اشد ضرورت ہے،اصحاب قوم وملت نے اس کی فکر نہ کی اور لاپرواہی برتی تھی تو پھراس کا شاید انجام آج ملک کے جو حالات ہیں وہ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرما ہی رہے ہیں ظاہرہے کہ مذہب کی بقا مذہبی تعلیم اور مذہبی روایات کی بقاپر موقوف ہے اور دینی تعلیم کی بقا دینی مدارس ومکاتیب پر موقوف ہے۔
یہ بات ناقابل تردیدہے کہ انسان کےلئے جتنے فضائل وکمالات ممکن ہیں ان میں علم کا مرتبہ سب سے اعلی واولی ارفع ہے، علم ہی تمام کمالات ظاہری وباطنی کا منبع فضائل صوری ومعنوی کا سرچشمہ ہے، اس کی اہمیت و افادیت اور علوئے مرتبت مسلم الثبوت ہے، افادیت واہمیت اور علوئے مرتبت کےلئے اتنا ضروری ہے کہ کسی فعل اختیاری کا صدوربغیر علم کے ناممکن ہے۔
حصول کمالات اسی پر موقوف ہے بغیر اسکے انسانی زندگی ،زندگی کہلانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ جہالت کی زندگی موت سے بدرجہا بدتر ہے، جس قوم میں علم ہے وہ زندہ ہے اس لئے کہ وہ اپنی حیات سے منتفع ہے، اور ھاں جس میں علم نہیں وہ بد سے بد تر ہے اس لئے کہ اسے اپنی حیات سے کوئی نفع نہیں ہے، غرض یہ کہ علم حیات ابدی ہے اور جہل موت دائمی، فرمان رب العزت ہے “وَماَیستوی الاحیاء والاموات”۔
اسی کی طرف اشارہ ہے اور حضرت سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے”فالنّاسُ موتی واھلُ العلمِ احیاءُ“اسی کی شرح ہے، علم کے ہر کام میں حسن وکمال نظر آئےگا اور جہل کےہرگوشے میں قبح وزوال، علم راہ راست کی ہدایت کرتا ہے اور جہل گمراہی کی رہمنائی ،علم سےحق وباطل میں تمیز ہوتی ہے اور جہل سے نفس امارہ کی تائیداور باطل کی طرف میلان، عالم شیطان کے حق میں ۔مصیبت جان ہے اور جاہل مسخرہءِ شیطان،،،۔
۔”ھَل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون“اس پر برہان ہے دنیا میں علم سے روشنی ہےاگریہ نہ ہوتو تمام دنیاتاریک نظر آئے، اگر علم نہیں ہے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی حقیقی بینائی حاصل نہیں ہے عالَم میں بینا وہی ہے جو زیور علم سے آراستہ وپیراستہ ہے، اگر کوئی ظاہری آنکھ نہ رکھتاہولیکن علم کی روشنی سے اسکا قلب ودماغ منورہےتو وہ آنکھ والوں سے بدرجہا بہترہے۔
قارئین کرام!۔
اس وقت پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن کاقہر جاری وساری ہے جسکی وجہ سے تجارتی معاشی حالت بد سےبدترہوگئی ہے اورلوگ قیدوبندکی صعوبتیں مصیبتیں برداشت کرنے پر مجبور ومقہور ہیں اگر میں یہ کہوں تو بےجانہ ہوگاکہ اس لاک ڈاؤن کا شکار سب سے زیادہ دینی مکاتیب ومدارس اور علماء کرام ہوئے ہیں۔
اور ابھی یہ لامتناہی سلسلہ جاری ہے نیز اس لاک ڈاؤن کے قہرکی وجہ سےدینی مدراس ومکاتیب پر سب سےزیادہ نقصان بھی پہنچاہے جس کی تلافی ناممکن ہے اور ان دینی مکاتیب ومدارس کی بقاخطرےمیں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے،
کہیں کہیں مدارس ومکاتیب میں پڑھانےوالے مدرسین کو رمضان سے قبل ہی یہ کہہ کر نکال دیاگیاکہ مدرسہ ُآپکا اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔
اور جہاں جہاں پر زیادہ اسٹاف تھےوہاں پر اب چَھٹنی چالو ہے یعنی کس کو رکھا جائے اور کس کا نکالاجائے
اور اچانک لاک ڈاؤن سے پھنس جانےکی وجہ سےکئی مدارس کے طلباء جو رمضان المبارک کی چھٹیوں میں اپنے آبائی مقامات پر جاتے تھے اب وہ مدرسےمیں ہی ٹھہرےہوئےہیں۔
جیسا کہ تمامی حضرات کو معلوم ہے کہ دینی مدارس ومکاتیب عطیات،زکوۃ، اور صدقہ فطرہ وغیرہ پرہی منحصرہوتےہیں، ویسے رمضان المبارک میں عوامی چندوں کی حصولیابی زیادہ ہوجاتی ہے اور انہی چندوں کی بنیادپر سال بھر یہ دینی مدارس ومکاتیب چلتے ہیں اور انہی چندوں سے غریب ونادارطلباء کےکھانےپینےکتاب ودیگر چیزوں کا انتظام کیاجاتاہے نیز انہیں چندوں پرمدرسین کرام کی تنخواہیں بھی ڈیپینٹ ہوتی ہیں۔
لیکن اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس ومکاتیب کے علماء سفراء حضرات چندہ کرنےکےلئےباہر نکل نہیں
پائےہیں جس وجہ سے مدارس ومکاتیب کو عوامی چندوں کی حصولیابی ناممکن ہے مزید اگر یہی صورت حال رہاتو دینی مدارس ومکاتیب کو چلانااور انکا انتظام وانصرام کرنا دشوار ہوجائے گا۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ مکاتیب ومدارس کا مستقبل کیا ہوگا اور علوم نبوت کی ترویج واشاعت کےیہ عظیم الشان مدراس ومکاتیب اسلامی قلعے ہوتے ہیں
اور اسباب ووسائل کی دنیا میں عوامی تعاون کا مرہون منت ہوتےہیں اورابھی دینی مدارس ومکاتیب کی زندگی میں قدم قدم پر نہ جانے کتنی دشواریاں آئیں گی، اسکا صحیح اندازہ وہی حضرات کرسکتےہیں جو اس راہ کے مسافرہیں۔
لیکن سفراء اور علماء حضرات کی اگر اہل خیرحضرات تک رسائی نہیں ہوپائی ہے تو دینی مدارس ومکاتیب کو دی جانےوالی رقم آن لائن بینکنگ کےذریعے اکاونٹ میں ٹرانسفرکرائیں یا وہ رقوم بچا کر رکھ لیں جب سفراء حضرات بعد لاک ڈاؤن آپکےپاس تشریف لائیں تو آپ وہ رقوم ان کے حوالے کردیں تاکہ مدارس اسلامیہ اس بحرانی کیفیت سے باہر آسکیں اور مدارس کی بقا خطرےمیں پڑنےسے بچ جائے۔
ان مضمامین کا بھی مطالعہ کریں
کورونا ۔بحران اور آمد رمضان المبارک
مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی
ریسرچ اسکالر سدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگریوپی