منقبت در شان غوث اعظم
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلی تیرا
سر بھلا کیا کوئ جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
تو حُسینی حسنی کیوں نہ محی الدیں ہو
اے خِضر مجمع بحرین ہے چشمہ تیرا
قسمیں دے دے کہ کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ تیرا چاہنے والا ہے تیرا
تجھ سے در در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی دور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہے نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا
میری قسمت کی قسمیں کھائیں سگانِ بغداد
ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا
ہیں رضؔا یوں نہ بلک تو نہیں جیّد تو نہ ہو
سیّدِ جیّدِ ہر دہر ہے مولی تیرا
منقبت کے لئے مزید پڑھیں