Friday, October 18, 2024
Homeشخصیاتامام احمد رضا کے علمی آثار

امام احمد رضا کے علمی آثار

        ترسیل محمد ہاشم اعظمی مصباحی  امام احمد رضا کے علمی آثار(ولادت10شوال 1272ھ/14جون1856ء)۔

امام احمد رضا کے علمی آثار

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات بابرکات نہ صرف یہ کہ منفرد مقام ومرتبہ کی حامل ہے بلکہ تمام امت مسلمہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہے. آپ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مردم خیز شہر بریلی کے سوداگر ان محلہ میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

آپ کے آباءواجداد وقت کے بڑے عالم اور عارفِ کامل تھے۔ ساتھ ہی ساتھ علومِ عقلیہ و نقلیہ میں بھی بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ ایسے نیک اور عارفِ کامل آباؤ اجداد کی تربیت نے امام احمد رضا کو فضل وکمال کی اوج ثریا پر پہنچا دیا۔آپ نے محض چودہ سال کی عمر میں مروجہ علوم وفنون سے فراغت حاصل کر لی۔ بیشتر علوم اپنے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ (متوفی 1297ھ)سے ہی حاصل کیا، اپنے والد ماجد کے علاوہ اپنے زمانے کے جلیل القدر علما و فقہا سے مروجہ علوم عقلیہ ونقلیہ حاصل کیا۔
مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمتہﷲ تعالٰی علیہ کی ذات ستودہ صفات دنیا کے لئے ایک علمی انسائیکلوپیڈیا ہے امام احمد رضا کو دینی علوم فنون کے علاوہ تمام مروجہ ومتداولہ علوم و فنون میں کامل مہارت و مکمّل دسترس حاصل تھی ایسے تما م علوم وفنون کی تعداد پچاس کے قریب ہے جن پر امام اہل سنت نے سیکڑوں کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ان میں کچھ فنون تو ایسے ہیں جواب ناپید ہو چکے ہیں ۔

وہ کون سا علم ہے جس پر اعلیٰ حضرت نے قلم نہیں اٹھایا،تفسیر و حدیث اور فقہ و فتاویٰ کے امام تو تھےہی ۔علم ریاضی،ہیئت ،توقیت ،لوگارثیم،منطق، فلسفہ اور علم ہندسہ وغیرہ میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی آپ کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی زبان میں مختلف فنون پر آپ کی 600 سے زائد کتب منظر پر آچکی ہیں۔

تذکرہ اعلیٰ حضرت اور حیات و خدمات    از علامہ غفران رضا قادری 

کیوں رضا آج گلی سونی ہے  از علامہ عبد المبین نعمانی قادری

ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں:۔

العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 

یوں تو آپ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک ہزاروں فتاوے لکھے۔ لیکن سب کو نقل نہ کیا جاسکا۔ جو نقل کرلئے گئے تھے ان کا نام العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا گیا۔ جس کی اولین ترتیب وتحقيق کا عظیم کارنامہ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے قابل فخر فرزندوں حضرت علامہ عبد الرؤوف بلیاوی بحرالعلوم مفتی عبد المنان علیہما الرحمہ نے انجام دیا اور مبارکپور ہی سے سنی دارالاشاعت کے زیر اہتمام فتاویٰ رضويہ کی پہلی اشاعت عمل میں آئی فی الحال فتاوٰی رضویہ جدید کی ۳۳ جلدیں ہیں جن کے کل صفحات ۲۲۰۰۰ سے زیادہ ہیں کل سوالات مع جوابات ۶۸۴۷ اور کل رسائل ۲۰۶ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ قرآن و حدیث، فقہ، منطق اور علم کلام سے مذین ہے۔

نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان

اس کتاب میں آپ نے سائنس دانوں کے اس نظریہ کو رد فرمایا جو زمیں کی گردش کے بارے میں ہے۔جدا لممتار علی الدرالمختار: علامہ ابن عابدین شامی کی رد المختار شرح ’’در مختار‘‘ پر عربی حواشی ہیں۔الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبہ: دوسری بار کے سفر حج میں آپ نے ۸ گھنٹے میں لکھی۔ کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراھم (۱۹۰۶ء) : جوکاغذی کرنسی سے متعلق علماء حرمین کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔

کنز الایمان :اعلیٰ حضرت رحمتہ اﷲ علیہ کی تفسیری مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ’’کنز الایمان ‘‘ بھی ہے۔ آپ نے عشق و محبت میں ڈوب کر قرآن مجید کا عمدہ اور مثالی ترجمہ کیا جس کے بارے میں محدث اعظم فرماتے ہیں: علم قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے

اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال سابق نہ عربی میں نہ فارسی میں نہ اردو زبان میں ہے، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جاسکتا، جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن (کی روح) ہے۔( جامع الاحادیث ،ج ۸ از مولانا محمد حنیف خان رضوی، ص۱۰۱)۔

آپ نے اردو، فارسی، عربی تین زبانوں میں خوب خوب نعت و منقبت گوئی اور قصیدہ نگاری بھی کی۔ آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے۔ پہلی دو جلدیں آپ کی حیات طیبہ میں اور تیسری بعد وفات شائع ہوئی۔ حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک انمول تحفہ ہےجس نے بعد میں آنی والی نسل کے نعت گو شعراء کو بہت ہی متأثر کیا۔آپ کے دیوان کایہ شعر جو آپ کے مقطع میں تحديث نعمت کے طور پر ہے۔ ع: ملکِ سُخن کے شاہی تم کو رضا مسلمجس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہے

جس روز اعلیٰ حضرت کا وصال ہوا ٹھیک اُسی روز بیت المقدس میں ایک شامی بزرگ نے خواب دیکھا کہ حضورِ اَقدسؐ تشریف فرما ہیں تمام صحابہ کرام حاضرِ دربار ہیں لیکن مجلس پر سکوت طاری ہے۔ اَیسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی کے آنے کا اِنتظار ہے۔

 شامی بزرگ نے بارگاہِ رسالت مآب ؐمیں عرض کی یارسول اللہؐ کس کا اِنتظار ہے؟ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا احمد رضا خاں کا عرض کی حضور احمد رضا خاں کون ہے؟ فرمایا ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں۔ چنانچہ شامی بزرگ شوقِ دیدارمیں ہندوستان آئے بریلی پہنچ کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ اُن کا عین اُسی روز اِنتقال ہوگیا تھا جس روز خواب میں حضور سرورِ کائنات نے فرمایا تھاکہ ہمیں احمد رضا خاں کا اِنتظار ہے۔

انھیں جاناانھیں مانانہ رکھاغیرسےکام

للہ الحمد  میں دنیا  سے  مسلمان گیا

تحریر محمد ہاشم اعظمی مصباحی

نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی

 رابطہ     9839171719

 Amazon  Flipakrt   Havelles

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن