ازقلم ۔ محمدقمرانجم قادری فیضی امریکی احتجاج ہم سے کچھ کہہ رہا ہے
امریکی احتجاج ہم سے کچھ کہہ رہا ہے
امریکہ میں ایک سفید فام(گورا) نے سیاہ فام کو نسلی تعصب کی بنیاد پر قتل کردیا، آٹھ دن سے مظاہرے جاری ہیں،انصاف نہیں تو امن نہیں، کا نعرہ لگاتے ہوئے آج وائٹ ہاؤس میں داخل ہوگئے ہیں، ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے فرار یازیر زمین روپوش ہے، آٹھ ریاستیں مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں. وائٹ ہاؤس کے اندر صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے، وائٹ ہاؤس کے اندر دو لوگ بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ وہاں سے اگر ٹرمپ فرار یا روپوش نہ ہوتا تو آج وہ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا، اور ایک ہمارا احتجاج ہے، ہزاروں جانیں گنوانے کے باوجود ہم نعرے لگاتے ہیں “ سنودھان بچاؤ “گجرات سے لیکر دہلی فسادات کے ماسٹر مائنڈ مجرمین آزاد ہیں اور مظلوم مسلمان( عوام و طلبہ و طالبات )ناحق جیلوں میں قید وبندکی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔
اورابھی بھی کیئے جارہے ہیں ،مزید یہ سلسلہ ختم ہونےوالا نہیں ہےکیونکہ یہ حکومت ہمیں ایسا مسلمان بنانا چاہتی ہے یا بنانا پسندکرتی ہے جو ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے اور جب اس پر ظلم ہوتب بھی چپ رہ کر بھی ظلم سہتارہے، ایسا مسلمان جو گونگا بہرہ ہو، پھر بھی ہم کہتے ہیں ” ہمیں عدلیہ پر بھروسہ ہے”ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں بھی اور آپ کو بھی عدلیہ پہ پورا پورا ایمان رکھنا چاہیئے؟؟
اسی بیچ امریکہ کے مختلف شہروں میں کرفیو کی خلاف ورزی اور لوٹ مار کے متعدد واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ہزاروں امریکی شہری آج بھی سڑکوں پر جمع ہوئے اور پولیس کے خلاف شدید احتجاج کا مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ریلیاں نکالیں اور جارج فلائیڈ سے اظہارِ یکجہتی بھی کیا۔ جارج فلائیڈ کی ہیوسٹن میں رہائش گاہ کے باہر بھی ہزاروں افراد جمع ہوئے اور ان کے اہلِ خانہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فلائیڈ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مظاہرین ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس کے باہر پارک میں جمع ہوئے جہاں سے پیر کو پولیس نے انہیں آنسو گیس کی شیلنگ کرتے ہوئے اٹھا دیا تھا۔ نیشنل گارڈ کے درجنوں دستوں نے لنکن میموریل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا جہاں مظاہرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔
اسی طرح لاس اینجلس، فلاڈیلفیا، اٹلانٹا اور سیٹل میں بھی ریلیوں میں مظاہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی جب کہ نیویارک میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور لوٹ مار کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے۔ دن کے اوقات میں نیویارک میں مظاہرین نے پرامن طور پر احتجاج کیا اور سورج ڈھلتے ہی لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور املاک کو آگ لگانا شروع کر دی۔ مظاہرین نے رات آٹھ بجے سے نافذ ہونے والے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے “بارکلے سینٹر سے بروکلن برج” تک مارچ شروع کیا۔ اس دوران پولیس کے ہیلی کاپٹر فضا میں پرواز کرتے ہوئے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کی ہدایت کرتے رہے۔
مین ہٹن برج پر موجود مظاہرین پل کے داخلی راستے پر جمع ہوئے اور انسدادِ فسادات فورس کو دیکھ کر نعرے بازی کرتے رہے کہ ’ہمارے اوپر سے جاؤ، ہمارے اوپر سے جاؤ‘۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ نیویارک مکمل طور پر کنٹرول سے باہر ہو گیا ہے۔
گورنر کومی کو چاہیئے کہ وہ فسادات کو کم کرنے کے لیئے اہم کردار ادا کریں۔امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے ممکنہ ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جب ہزاروں امریکی وائٹ ہاؤ س کے باہر پُر امن طور پر احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت صدر نے فوٹو شوٹ کے لیئے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کرائی۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو عوام نے تمام امریکیوں کی خدمت کے لیے منتخب کیا تھا لیکن وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔
دنیا کو انسانی حقوق کا درس دینے والا امریکہ کیسے گھِرتا جارہا ہے، امریکہ میں احتجاج جاری ہے، دکان، مال اور دیگر پراپرٹی جل کر راکھ ہوچکی ہے، وائٹ ہاؤس بند کردیا گیا ہے،ٹرمپ کو زیر زمین پناہ لینا پڑی، پولیس اور احتجاجی آمنے سامنے ہیں۔ گورے اور کالے کی لڑائی صدیوں پرانی ہے، آپ دیکھیئے گورے بھی کالوں کا ساتھ دے رہے ہیں، اور پوری طاقت سے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،مظاہرین کے ہاتھوں میں جو پوسٹر تختیاں اور پمفلیٹ ہیں ان پر صاف لکھا ہوا ہے
-To kill Us And Keep Silent (We Are Not Arabs)
کہ ہم عربی نہیں ہیں کہ انہیں مارو اور وہ چپ رہیں گے، ہم عرب والے نہیں ہیں کہ انہیں مارو اور وہ خاموشی سے تہمارے ظلم وستم کو برادشت کرتے رہیں گے، کیا ہندوستان کے عوام میں اقتدار کو آنکھ دکھانے کی ہمت ہے؟ مظلوموں کا ساتھ دینے کا حوصلہ ہے؟ بالکل نہیں۔ ہمیں تو اپنوں کی لاشوں کو ڈھونے کا اچھا تجربہ ہے۔ یاد رکھیں، ڈر کی وجہ سے زندگی کو بزدل نہیں بنایا جاسکتا ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کیجئیے تاکہ انصاف کی حکمرانی قائم ہو۔
قارئین کرام۔امریکہ میں سیاہ فام شخص پر پولیس کی بربریت کے خلاف جاری احتجاج نے شدت اخیتار کر چکی ہے، ہم تشدد کی مخالفت کرتے ہیں لیکن احتجاجی لہراہم بات ہے کیونکہ اس کا پیغام یہ ہے کہ اس طرح کا قتل برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کو تشدد کی آزادی کسی بھی معاشرے کے لیے خطرنا ک ہوتی ہے۔۔ اور بعض اوقات اس “خطرنا ک” صورت کا اظہار ضروری ہے۔ ہمارے یہاں لوگ بے حس ہیں اور ظلم وستم برداشت کرتے ہیں، اور اگرسب کچھ ایسے ہی رہاتوآگے بھی ظلم وتشددکو برداشت کرتے رہیں گے، یہ بھی شاید ایک وجہ ہے ظلم ہمارے یہاں قابل برادشت شے تصور کیا جا رہا ہے۔
اور ہم جو کررہے ہیں یا جو کرتے آئے ہیں اسے دوسری زبان میں بزدلی کہوں تو بےجا نہ ہوگا، ظاہر ہے یہ بے حسی کی انتہا ہے ،اس کا ذمہ دار کسی حد تک ہمارے قول و فعل کا تضاد بھی ہے۔ہمارے یہاں ایک اور چیز کی کمی ہے اور وہ ہے اتحاد کوئی آواز اٹھائے تو ہم اس کی حوصلہ افزائی کرنےکے بجائے اسکو روکتے ہیں، اسکی آواز میں آواز ملانے کےبجائے اس کی دل آزاری کرتے ہیں، ہمت اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ ہم لوگ فطرتأ منافق بھی ہیں،اور آپس میں اس قدر تضاد اور بے ایمانی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ظلم ہمارے یہاں قابل برداشت ہے۔
اس کو بھی پڑھیں شاید کہ اتر جاے تیرے دل میری بات
جس طرح ظلم ظالم کا حق ہوتا ہے اسی طرح حمایت مظلوم کا حق ہے جس طرح باقی تمام معاملات میں خرابی و بے راہ روی حقوق کی عدم ادائیگی ہے اسی طرح مظلوم کی حمایت جو کہ اسکا حق ہے یہی وجہ ہے جب اصل میں خرابی ہو تو فرع کی خرابی لازم ہے ہمارے یہاں فرع کیلئے تدابیر ہوتی ہیں جبکہ بیماری اصل میں ہے جسکی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا ہم عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے پھرتے ہیں، اگر اس طرح کے جرات مندانہ قدم اٹھاتے تو آج جو خونوں سے ہولیاں کھیلی گئ تھی وہ نہیں کھیلیں ہوتیں
ہمیں ان کالے نسل کے امریکیوں سے سیکھتے ہوئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا جس سے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تمام اھل اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے والے اہل وطن محب وطن غیر مسلم کوآپس میں مل کر ایک مظبوط لائحہ عمل تلاشنا چاہیئے، امریکہ میں اک سیاہ فام کو ناحق ماراگیا تو پورا امریکہ سراپا احتجاج بن گیا لیکن جب امریکہ نے افغانستان میں بشارالاسد نے سیریا میں اسرائیل نے فلسطین میں اورسیسی نے مصر میں لاکھوں لوگوں کوناحق قتل کردیاتھا،تب دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی کیوں کہ مرنے والے مسلمان ہیں اور دنیا تو مطلب کی یار ہے
مضمون نگار۔سدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگر کے ریسرچ اسکالر ہیں
رابطہ نمبر۔6393021704
Email-qamaranjumfaizi@gmail.com
حالات و ماحول سے بے خبر ٹھیک نہیں پورا پڑھ کر ضرور شئیر کریں