Saturday, October 19, 2024
Homeشخصیاتسیدالشہداء سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ

سیدالشہداء سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ

بقلم  محمد ہاشم اعظمی مصباحی  سیدالشہداء سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ

سیدالشہداء سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ

اہلبیت اطہاراور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے اپنے قلوب واذہان کو روشن و منور کرنا ہمارے لئے باعثِ سعادت ہے کیونکہ یہی وہ حضرات ہیں جو ہمارے لئے نجات کا ذریعہ اور ہدایت کا معیار ہیں یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہیں خالق کائنات نے اہل بیت نبوت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت سے بھی شرف یاب فرمایا ہے اور صحابیت کے درجہ کمال سے بھی مشرف فرمایا ہے انھیں مقدس اور بے مثال عبقری شخصیات میں ایک صاحب عظمت ورفعت عم رسول اللہ سید الشہداء حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت ہے جو تمام صحابہ وشہداء میں ممتاز ونمایاں نظر آتی ہے

ولادت وقرابت رسول

حضرت امیر حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت با سعادت عام الفیل سے دو سال پہلے تقریباً 568ء میں مکۃ المکرمہ کی سر زمین مقدس پر سردار مکہ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے کاشانہ میں ہوئی آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عمر میں دو سال بڑے، حقیقی چچا اور رضاعی بھائی بھی ہیں اس لئے کہ آپ دونوں نے ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا دودھ نوش کیا ہے اس کے علاوہ حضرت امیر حمزہ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خالہ زاد بھائی بھی تھے اس لئے کہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چچا زاد بہن تھیں (المواہب اللدنیہ ،لامام قسطلانی،جلد اول مقصدثانی صفحہ 589)۔

نام، کنیت اور لقب

آپ کا اسم گرامی حمزہ بن عبدالمطلب(حمزہ کا معنی شیر یا تیز فہمی) کنیت ابوعُمارہ اور ابو یعْلی ہے آپ کی والدہ ہالہ بنت اُہَیب (وُہَیب) بن عبد مَناف بن زُہرہ تھیں۔آپ کو “اسد اللہ” اور “اسدُ رسولِ اللہ” جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے منقولہ ایک حدیث کے مطابق حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوئی اور سید الشہداء کے عنوان سے مشہور ہوئے۔(ایضاً)۔

قبول اسلام

مکہ کی فضا ظلم و جبر کے سیاہ بادلوں سے گھری ہوئی تھی کہ اچانک ایک نورانی بجلی چمکی اور مکہ کی فضاۓ بسیط نور نور ہو گئی یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔آپ کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوی یا 4 نبوی کے اخیر کا ہے۔ اور اغلب یہ ہے کہ آپ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔

آپ کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابوجہل کوہ صفا کے نزدیک رسول اللہﷺ کے پا س سے گزرا تو آپﷺ کو ایذا پہنچائی اور سخت و سست کہا۔ رسول اللہﷺ خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپﷺ کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون نکل آیا۔

پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی کوہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حمائل کئے شکار سے واپس تشریف لائے تو اس لونڈی نے آپ سے ابوجہل کی ساری حرکت سنادی۔

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ غصے سے بھڑک اُٹھے۔ یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوۓ جہاں ابو جہل بیٹھا ہوا تھا سیدھے اس کے پاس گئے اور بولے: او بزدل! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں بھی اس کے دین پر ہوں۔ اس کے بعد کمان سے اس زور کی مار ماری کہ اس کے سر پر بدترین قسم کا زخم آگیا۔ اس پر ابوجہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اُٹھے۔

لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ ابو عمارہ کو جانے دو۔ میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالی دی تھی۔ابتداً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کئی گئی۔ لیکن پھر اللہ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ نے اسلام کا دامن مضبوطی سے تھام لیا۔ اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت و قوت محسوس کی

شجاعت وشہادت

جنگ بدر میں حضرت امیر حمزہ نے خوب جرات وشجاعت کا مظاہرہ کیا اور داد وصول کی حضرت امیر حمزہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل زرہ بکتر پہنتے تھے مگر اسلام لانے کے بعدکبھی زرہ استعمال نہیں کی کسی نے وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ ”اسلام لانے سے قبل میں موت سے ڈرتا تھا مگر اب موت کا ڈر نہیں رہا۔“جنگ بدر میں آپ نے اپنی دستار مبارک میں شتر مرغ کا ”پر“سجا رکھا تھا تاکہ جنگ میں ہر آدمی حضرت امیر حمزہ کو پہچان سکے۔

غزوہ احد میں سیدالشہدا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔آپ کی شہادت کا واقعہ امام بخاری، ابوداﺅد الطیاسی، ابن اسحاق اور دیگر اہلِ تحقیق نے آپ کے قاتل وحشی بن حرب (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے)کی زبان سے یوں نقل کیا ہے کہ ”جنگ بدر میں حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا جب مشرکین مکہ جنگ احد کے لیے روانہ ہوئے تو میرے مالک جبیر بن مطعم (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) نے مجھے کہا کہ اگر تم میرے چچا طعیمہ کے بدلے میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا

چناچہ میں بھی کفار کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا میں حبشی النسل تھا اور حربہ (چھوٹا نیزہ) مارنے میں کمال مہارت رکھتا تھا جب دونوں فریق ایک دوسرے سے مصروف پیکار ہو گئے تو میں نے صرف حمزہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھا آپ ایک غضب ناک شیر کی طرح دندناتے پھرتے تھے جدھر سے گزرتے اپنی تلوار آبدار سے مشرکین کی صفوں کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیتے تھے آپ کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی کسی میں جرأت نہ تھی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ ۔

جدھر رخ کرتے ہیں،صفیں الٹ دیتے ہیں لوگوں نے بتایا یہ حمزہ ہیں میں نے دل میں کہا میرا مطلوب تو یہیں ہے میں نے اُن کو پہچان لیا، اب میں اُن پر ضرب لگانے کی تیاری کرنے لگا کبھی کسی درخت اور کبھی کسی چٹان کی اوٹ میں چھپتا چھپاتا اُن کے نزدیک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا اسی اثناءمیں سباح بن عبدالعزٰی الغبثانی سامنے آ نکلا جب حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اُسے دیکھا تو اُسے للکارتے ہوئے کہا ”اے ختنہ کرنے والے کے بیٹے! آ میری طرف دو دو ہاتھ ہو جائے تُو اللہ اور اُس کے پیارے حبیب سے دشمنی رکھتا ہے یہ کہہ کر آپ نے اُس پر حملہ کر دیا اور آنِ واحد میں ہی اُسے جہنم واصل کردیا اور لاشہ سے زرہ اتارنے کے لیے اُس پر جھکے میں ایک چٹان کی اوٹ میں تاڑ لگائے بیٹھا تھا۔

حضرت امیر حمزہ کا اچانک پاؤں پھسلا تو زرہ سرکنے سے پیٹ کُھل گیا میں نے اپنے چھوٹے نیزے کو پوری قوت سے وہ نیزہ آپ کے شکم پر دے مارا جو ناف کے نیچے سے اندر گھسا اور پار نکل گیا۔ آپ نے غضب ناک شیر کی طرح مجھ پر جھپٹنا چاہا لیکن زخم کاری تھا اس لیے اُٹھ نہ سکے میں وہاں سے چلا آیا جب آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی تو پھر وہاں گیا اور اپنا نیزہ اُٹھا لایا۔

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو وحشی نے شہید کرنے کے بعد آپ کا پیٹ چاک کیا کلیجہ مقدس نکالا اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ کے پاس لے آیا اور کہا کہ یہ حمزہ کا کلیجہ ہے۔ اس نے چبایا اور نگلنا چاہا لیکن نگل نہ سکی اور تھوک دیا۔ ہندہ نے اپنا زیور اتار کر وحشی کو بطور انعام دیا اور وعدہ کیا کہ مکہ جا کر اُسے مزید دس دینار انعام دے گی۔ پھر اُس نے کہا چلو مجھے حمزہ کی لاش دکھاﺅ وہاں پہنچ کر اس سنگ دل عورت نے آپ کے اور دیگر شہدائے کرام کے کان ، ناک کاٹے اور پھر انہیں پرو کر گلے میں ڈالا اور مکہ میں یہ ہار پہن کر داخل ہوئی۔

رسول اللہ کو صدمۂِ جانکاہ

 حضورِ اقدس سیدالشہداحضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر تشریف لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم مبارک کو دیکھا تو انتہائی رنجیدہ اور غمگین ہوئے کہ آپ نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید جلال میں فرمایاکہ میں ایک حمزہ کے بدلےستر کافروں کو قتل کر کےمُثلہ کروں گا اس پر ربِ کائنات نے آیت نازل فرمائی ترجمہ” اور اگر تم سزا دو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی تھی اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا ہے اور اے محبوب تم صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان کا غم نہ کھاؤ اور ان کے فریبوں سے دل تنگ نہ ہو بے شک اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کماتے ہیں۔

 اسی آیت کریمہ کے نازل ہونے پر رحمت عالم نے بارگاہِ خداوندِ قدوس میں عرض کیا ”اے میرے رب! بلکہ ہم صبر کریں گے۔“ اور ستر کفار کے قتل و مُثلہ کا ارادہ ترک کر دیا اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا حضرت امیرحمزہ کی شہادت پر حضور پر نور نے ارشاد فرمایا ”اے چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو کیونکہ آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور صلہ رحمی کرنے والے تھے۔

پھر حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور اُن کے جنازے کے سامنے کھڑے ہو کر اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری ہو جاتی.ہادی عالم نے سیدالشہدا حضرت امیرحمزہ کو ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اُسے سر پر پھیلاتے تو پاؤں کُھل جاتا اور پاﺅں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہو جاتا چنانچہ وہ چادر آپ کے سر مبارک پر پھیلادی گئی اور پاﺅں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال دی گئی،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے آپ ہی کے جنازے کی امامت فرمائی

فضائل ومناقب

رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا : گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت جعفر طیار جنت میں فرشتوں کیساتھ پرواز کر رہے ہیں اور حضرت حمزہ ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں (المستدرک للحاکم ، حدیث 4878)۔

 حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: جس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو جمع فرمائے گا ان میں سب سے افضل انبیاء و مرسلین ہی رہیں گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اور یقینا شہداء کرام میں سب سے افضل حضرت امیر حمزہ ہوں گے(جامع الأحادیث للسیوطی ، حدیث4003)۔

 حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہونگے(مستدرک للحا کم)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا: جب سیدنا امیر حمزہ شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمانے لگے

 آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا پھر آپ نے حضرت فاطمہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا : خوش ہو جائو ! ابھی جبریل امین میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ یقینا حضرت حمزہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے حمزہ اللہ اوراس کے رسولؐ کے شیر ہیں (المستدرک للحا کم ، حدیث4869)۔

تحریر  محمد ہاشم اعظمی مصباحی 

  نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی

رابطہ   9839171719 

Hashimazmi78692@gmail.com

Amazom   Bigbasket   Havelles   Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن