Saturday, October 19, 2024
Homeاحکام شریعتاتصال صفوف واجب ہے یا مستحب

اتصال صفوف واجب ہے یا مستحب

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین مسئلۂِ ذیل کے بارے میں کہ اتصال صفوف واجب ہے یا مستحب؟  

اتصال صفوف واجب ہے یا مستحب

نیز کسی مفتی کا اتصالِ صفوف کو امرِ استحبابی کہنا کیسا ہے ؟   باحوالہ جواب عنایت فرماکر مستحق اجر و ثواب ہوں 

المستفتی : محمد ارشاد رضا قادری لکھنوی

الجــــــــــــــواب بعــــون الملک الوھاب  : ۔

           حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تکمیلِ صف کا نہایت اہتمام فرماتے تھے اور اس میں کسی جگہ فرجہ (خالی جگہ) چھوڑنے کو سخت نا پسند فرماتے تھے ، اسی بنیاد پر فقہائے احناف نے اتصال صفوف کو واجب کہا ہے  اسے حکم استحبابی بتانا جرات بیجا ہے۔

     ہاں عذر کی بنیاد پر وجوب تو وجوب فرضیت بھی ساقط ہو جاتی ہے، لہذا موجودہ صورتِ حال میں اتصالِ صفوف کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ نماز ادا کرنے سے نماز ہوجائے گی  کم من احکام تختلف باختلاف الزمان والمکان ۔

اتصال صفوف کے واجب ہونے پر دلیلیں

       سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ارشاد ہوتا تھا     اقیموا صفوفکم وتراصوا فانی اراکم من وراء ظہری  (بخاری شریف ، مسلم شریف، ابو داؤد شریف)۔

     یعنی اپنی صفیں سیدھی کرو اور ہر ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہو ، بیشک میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں ـ

دوسری حدیث میں ہے

سدوا الخلل فان الشیطان یدخل فیما بینکم بمنزلۃ الخذف  یعنی صف چھدری نہ رکھو کہ شیطان بھیڑ کے بچے کی وضع پر اس چھوٹی ہوئی جگہ میں داخل ہوتا ہےـ

حضرتِ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں راصواالصفوف فان الشیطان یقوم فی الخلل ـ یعنی صفیں خوب سیدھی رکھو جیسے رانگ سے درزیں بھرتے ہیں کہ فرجہ رہتا ہے تو اس میں شیطان کھڑا ہوتا ہے ـ

نسائی شریف میں ہے  راصوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوا بالاعناق فو الذی نفسی بیدہ انی لاری الشیاطین تدخل من خلل الصف کانھا الخذف اپنی صفیں خوب گھنی اور پاس پاس کرو اور گردنیں ایک سیدھ میں رکھو کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک میں شیاطین کو رخنۂِ صف میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا وہ بھیڑ کے بچے ہیں ـ

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیثِ طیبہ جو اتصالِ صفوف کی تاکید و تشدید پرناطق و شاہد ہیں لیکن اتنی مقدار بیان کے لیے کافی و شافی ہے ـ

واضح رہے کہ وصلِ صفوف اور ان کی رخنہ بندی اہم ضروریات سے ہے اور ترکِ فرجہ ممنوع و ناجائز یہاں تک کہ اس کے دفع کو نمازی کے سامنے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کے بابت حدیثوں میں سخت نہی وارد تھی ـ

سیدِ عالم صلی اللہ و الہ وسلم فرماتے ہیں :  لویعلم المار بین یدی المصلی ماذاعلیہ لکان ان یقف اربعین خیراً لہ من ان یمر بین یدیہ ـ یعنی اگر نمازی کے سامنے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو چالیس برس کھڑا رہنا اس گز جانے سے اس کے حق میں بہتر تھا ـ

اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ و الہ وسلم : لویعلم احدکم مالہ فی ان یمر بین یدی اخیہ معترضا فی الصلاة کان لان یقیم مأة عام خیرلہ من الخطوة التی خطاھا ـ

اس حدیثِ پاک میں سو برس کھڑا رہنا اس ایک گام رکھنے سے بہتر فرمایا ـ

ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوا  اذا صلی احدکم الی شیئ یسترہ من الناس فاراد احد ان یجتاز بین یدیہ فلیدفعہ فان ابی فلیقاتلہ فانماھو شیطان یعنی جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور کوئی سامنے سے گزرنا چاہے تو اسے دفع کرے اور اگر نہ مانے تو اس سے قتال کرے کہ وہ شیطان ہے ـ

 ظاہر ہے ایسا شدید امر جس پر یہ تشدیدیں اور سخت تہدیدیں ہیں اسی وقت روا رکھا گیا جب دوسرا اس سے زیادہ اشد اور افسد تھا کما لایخفی ـ

ایک دلیل اس کے وجوب اور فرجہ رکھنے کی کراہتِ تحریمی پر یہ ہے ـ

دوسری دلیل  احادیثِ کثیرہ میں صیغۂِ امر وارد ہونا  کماسمعت وماترکت لیس باقل مما سررت ـ

اس لیے ذخیرہ وحلیہ میں  فرمایا :  انہ مامور بالمراصة 

فتح القدیر وبحر الرائق وغیرھما میں فرمایا ”  سد الفرجات مامور بہ فی الصف* “

 اور اصول میں مبرہن ہوچکا کہ امر مفیدِ وجوب ہے  الا ان یصرف عنہ صارف*

تیسری دلیل علما تصریح فرماتے ہیں کہ صف میں جگہ چھوٹی ہو تو اور مقام پر کھڑا ہونا مکروہ ہے ـ

خانیہ و درمختار میں ہے:  لو صلی علی رفوف المسجد ان وجد فی صحنہ مکانا کرہ کقیامہ فی صف خلف صف فیہ فرجۃ

          اور کراہتِ مطلقہ سے مراد کراہتِ تحریم ہوتی ہے  الا اذا دلیل علی خلافہ کما نص علیہ فی الفتح والبحر وحواشی الدر وغیرھما من تصانیف الکرام الغرر

    چــــــوتھی دلـــــــــیل  حدیثِ   من قطع صفا قطعہ اللہ کی وعید شدید  

علامہ طحاوی پھر علامہ شامی زیرِ عبارتِ مذکورۂ در مختار فرماتے ہیں : *قولہ کقیامہ فی الصف الخ

ھل الکراھۃ فیہ تنزیھیۃ او تحریمیۃ ویرشد الی الثانی قولہ علیہ الصلوۃ والسلام ومن قطعہ اللہ

     حضور سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ رقم طراز ہیں

جس پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مواظبت فرمائی اور مواظبتِ دائمہ دلیلِ وجوب ہے اور ترک واجب مکروِہ تحریمی اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ ( فتاوی رضویہ شریف ج ۳ ص ۳۱۴)۔

  ان تمام دلائل سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ وصلِ صفوف امرِ وجوبی ہے استحبابی نہیں ـــــ

     حضور سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے فتاوی رضویہ شریف جلد ۳ صفحہ ۳۱۷ پر صراحت کے ساتھ اتصالِ صفوف کے امرِ وجوبی ہونے کو رقم فرمایا ہے اور دلائل و براہین سے اس کو مبرہن فرمایا ہے ـــ واضح رہے کہ راقم نے فتوے میں جو باتیں رقم کی ہیں وہ فتاوی رضویہ شریف ہی سے ماخوذ ہیں ـــــــ

       لہذا مفتی صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ اتصالِ صفوف کے امرِ استحبابی ہونے کو اسی طرح مضبوط دلائل و براہین سے مبرہن کریں جس طرح سیدی سرکار اعلی حضرت قدس سرہ نے مبرہن فرمایا ہے اور فقہائے احناف کے مد مقابل اپنی رائے پیش کرنے سے گریز کریں ــ

واللہ اعلم وعلمہ اتم 

احتشام الحق رضوی مصباحی

دارالعلوم مخدومیہ ردولی شریف اجودھیا( فیض آباد)۔

کیا وتر کی نماز باجماعت مکروہ تحریمی ہے  

Amazon   Bigbasket  Havells   Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن