Wednesday, November 20, 2024
Homeمخزن معلوماتیہ دنیا ایک خواب ہے

یہ دنیا ایک خواب ہے

    ازقلم  محمد کامل حنفی (بنارس) یہ دنیا ایک خواب ہے   جس کا یوم پیدائش  اس کا یوم وصال ضرورآئے گا

یہ دنیا ایک خواب ہے

عزیزو! الله تبارک وتعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے  کُلُّ نَفْسٍ ذآئِقَۃُالْمَوْتِ  ترجمہ۔ ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے

الله کے پیارے حبیب ﷺ  ارشاد فرماتے ہیں انسان دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر یعنی مسافر جب سفر کرتا ہے تو اس کا کوئی ایک مقام ہوتا ہے اس کا ایک وطن ہوتا ہے جہاں اسے جاکر ٹھہرنا ہوتا ہے بلکل اسی طرح ہم بھی دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہیں اور سفر کر رہے ہیں اور ہمارا اصل مقام آخرت ہے اور یہ دنیا ایک خواب ہے۔

 اور اسکی حقیقت آخرت ہے انسان کا سفر شروع ہوتا ہے  علم الٰہی سے پھر علم الٰہی سے ہماری روح عالم ارواح میں یعنی روحوں کی دنیا میں آتی ہے جب ہماری روح عالم ارواح میں ہوتی ہے تو وہ سوچتی ہے میرا مقام یہی ہے اب مجھے یہاں سے نہیں نکلنا لیکن الله کی قدرت کہتی ہے تجھے اور آگے جانا ہےاور جب سفر اور آگے کو بڑھتا ہے تو پھر وہاں سے وہ باپ کی پشت میں آتا ہے تو پھر وہی خیال آتا ہے کہ میرا مقام یہی ہے مجھے اور کہیں نہیں جانا لیکن نہیں۔

 پھر اللہ کی قدرت سے اسے باپ کی پشت سے ماں کے شکم میں منتقل کیا جاتاہے جب وہ ماں کے پیٹ میں آجاتا ہے اور نومہینے کی مدت گزارتا ہے تو سوچتا ہے اب مجھے اسی جگہ رہنا ہے کیوں کی وہ دنیا سے غافل ہوتا ہے اس کے بعد سفر اور آگے بڑھتا ہے تو پھر وہ اللہ کی قدرت سے  دنیا میں آتا ہے یعنی اس کی پیدائش ہوتی ہےاور انسان جب عالم اروح سے عالم دنیا میں آتاجاتا ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے اور بچہ سے جوان پھر بوڑھا ہوتا ہے۔

جس کی جتنی عمر مقرر ہوتی ہے اتنےدن وہ دنیا میں رہتا ہے  پھر اس کا انتقال ہو جاتا اور آخرت کی پہلی منزل قبر کی طرف چلا جاتا ہے پھر قبر سے محشر پھر آخرت کی طرف جاتا ہے یعنی  وہ اس خواب سے بیدار ہوکر حقیقت کی طرف چلا جاتا ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کی جب ہماری آخری منزل آخرت ہے تو ہمیں دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہمیں زمین پہ بھیجنے کا کیا مقصد ہے اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا میں کس لیے بھیجا تو جب ہم قرآن دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہوگَا 

الله تبارک وتعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے   وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُونْ °  ترجمہ اورمیں نے جن اور انسان اس لیے بنائے تاکہ میری عبادت کریں

 ،اللہ رب العزت ایک اور  مقام پر ارشاد فرماتا ہے  اَلَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَلِیَبْلُوَکُم اَیَّکُم اَحْسَنُ عَمَلاً °۔  ترجمہ-وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرےکہ تم میں کون زیادہ اچھےعمل کرنے والا ہے

 ،،تو معلوم ہوا کہ ہم انسانوں کو زمین پر اللہ کی عبادت کہ لیے بھیجا گیا ہے، ہمیں دنیا میں اپنے رب کا حکم بجا لانے کے لیے بھیجا گیا ہے، ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ ہم اپنے رب کے حضور سجدہ کریں لیکن غور کریں کہ آج ہمارا حال کیا ہے، ہم اللہ کی عبادتوں سے غافل ہوتے جا رہے اور گناہوں سے قریب سے قریب ہوتے جارہے ہیں بالخصوص آج کل کے نوجوانوں کے دلوں سے شوق عبادت دور ہوتا جا رہا ہے آج ہمارا حال ہے کہ ہم ہر کام کے لیے وقت نکالتے ہیں لیکن اللہ کی عبادت کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے، رب کی عبادت کا وہ شوق ذوق نہیں ہمارے اندر، آج وہ جذبہ نہیں جو ہمارے اسلاف میں ہوا کرتا تھا 

الله اکبر کیا انداز تھا ہمارے اسلاف کا خود کو گناہوں سے بچانے اورنیکیاں کرنے کا، اس لیے کہ پرہیزگاری نام ہے اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کا اور نیکیاں کرنے کا کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ صرف نیکیاں کرنے کا نام ہی تقوی ہے ،نہیں ! بلکہ انسان اگر کم نیکیاں کرے اور زیادہ گناہوں سے بچے تو وہ بھی بہت بڑا تقوی ہے،  میں یہاں صحابہ کرام کے کچھ رقت انگیز کلمات کو نقل کرتا ہوں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم کے دلوں میں خوف خدا کیسا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ۔

ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پرندے کو دیکھ کر فرمایا: اے پرندے کاش میں تمہاری طرح ہوتا اور مجھے انسان نا بنایا جاتا، حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کاش میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے : میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مجھے وفات کے بعد اٹھایا نہ جائے، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے کاش میں راکھ ہوتا،اللہ اکبر  ایسا تھا صحا بہ کرام کا خوف خدا۔

اور ایک ہم ہیں جسے صرف دنیا کی ہی فکر لگی ہوئی ہے میں مانتا ہوں کہ ہم لاکھ عبادت کرلیں کروڑوں نیکیاں کرلیں لیکن صحابہ کرام کی ایک نیکی تک بھی نہیں پہنچ سکتے مگر صحابہ کرام کے بتائے ہوئے راستے پر چل تو سکتے ہیں۔اگر اللہ، اس کے  رسول ﷺ اور صحابہ کرام کے طریقے پر چلتے تو کامیابیاں ہمارا مقدر ہوتیں، لیکن ہم اپنے اعمال پر غور کریں تو ہم گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، بے شمار گناہوں کے بعد بھی ہماری پیشانی پر ذرہ برابر شکن نہیں دکھتی۔

آخر ایسا کیوں کیا ہمیں لوٹ کر نہیں جانا کیا ہمیں موت نہیں آنی؟کب تک دنیاوی رنگینیوں میں مست رہیں گے، کب ہوش کے ناخن لیں گے، اس دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کب کریں گے؟ 

خوش اخلاقی ایک نعمت   اس مضمون کو بھی پڑھیں

میرے عزیزو! ہمیں دنیا میں پہلی اور آخری مرتبہ بھیجا گیا ہے اس دنیا میں ہمیں  قدم قدم پر آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کے لیے ہم تیار رہیں، اور نیک اعمال کرکے اپنی آخرت سنوار لیں کہ یہ زندگی دوبارہ ملنے والی نہیں 

ایک بار موت آگئی تو دوبارہ زندگی نہیں ملے گی اس لیے خود کو نیکیوں کی طرف لے جائیں، گناہوں سے دور ہو جائیں جیسے جھوٹ، غیبت،چغلی، مزید یہ کہ تمام حرام کاموں سے تمام برے افعال سے باز آجائیں، دلوں میں خوف خدا پیدا کریں، نیکیوں کا ذوق و شوق پیدا کریں، نمازوں کو پابندی سے قائم کریں، چند دنوں کی زندگی ہے اسے ایسے پوری کریں کی ہماری آخرت سنور جائے، 

اخیر میں اللہ عزوجل سے دعاہے کہ الله کریم مجھے اور ساری امت کے دلوں کو نیکیوں کی طرف مائل کردے، برائیوں سے دور کردے، بالخصوص ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو اور قبر میں سرکار کی زیارت نصیب فرما  آمین یارب العالمين 

طالب دعا  محمد کامل حنفی

بجرڈیہہ  بنارس

رابطہ   7905909013

Amazon   Bigbasket   Havelles   Flipkart 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن