السلام علیکم و رحمۃ اللہ امید قوی ہے کہ حضور والا بخیر و عافیت سے ہوں گے کیا فرماتے ہیں علماءحق اس مسئلہ کے بارے میں کہ قبر پر اذان کے احکام کیا ہیں مع دلیل جواب عنایت فرمائیں اور اجر عظیم کے مستحق بنیں
محمد سلمان رضا
بارہ مسیا کشن گنج بہار
قبر پر اذان کے احکام
از قلم۔۔ خادم مشن قطبِ اعظم ماریشس و افریقہ حضرت علامہ ابراھیم خوشتر خلیفہ مجاز حضور تاج الشریعہ محمد غفران رضا قادری رضوی ماریشس افریقہ بانی دارالعلوم رضا ۓ خوشتر و جامعہ رضاۓ فاطمہ قصبہ سوار ضلع رامپور انڈیا
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے سر کی جانب قبلہ کی طرف منہ کر کے اذان کہناجیسا کہ اہل سنت وجماعت کا معمول ہے،قطعاجائز،بلکہ مستحسن عمل ہے۔اِس کے دلائل درج ذیل ہیں
(1)جب میت کو دفن کر دیا جاتا ہے،تو سوالاتِ قبر کے وقت شیطان قبر میں مردے کو درست جوابات سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔جیسا کہ حافظ الاحادیث حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمۃ سے مروی ہے:’’اذا سئل المیت من ربک تراءی لہ الشیطان فی صورۃ فیشیر الی نفسہ ای انا ربک فھذہ فتنۃ عظیمۃ‘‘
ترجمہ:جب میت سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟تو اُسےشیطان ایک صورت میں دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی میں تیرا رب ہوں،پس یہ بڑی آزمائش ہے۔(نوادر الاصول، ج3،ص227،بیروت)۔
اِس کے بعدامام حکیم ترمذی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ’’فلو لم یکن ھناک سبیل ماکان لیدعو لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بان یجیرہ من الشیطان‘‘۔ ترجمہ:اگر مسلمان مردے کو دفن کرنے کے بعدبہکانے کے لیے شیطان کے قبر میں آنے کی کوئی راہ نہ ہوتی،تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میت (جو قبرمیں ہے،اُس)کےحق میں شیطان سے حفاظت کی دعا نہ فرماتے۔(نوادر الاصول۔ ج3،ص227،بیروت)َ۔
اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ اذا ن شیطان کو دفع کرتی ہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اذا اذن المؤذن ادبر الشیطان ولہ حصاص‘‘۔ ترجمہ:جب مؤذن اذان دیتا ہے،توشیطان پیٹھ پھیر کر،گوز لگا کر بھاگتا ہے۔(الصحیح لمسلم،ج1،ص291،دار احیاء التراث،بیروت)۔
لہٰذا اہلِ سنت وجماعت اپنے مسلمان بھائی کی بھلائی کے لیے اُس کی قبر پر اذان دیتے ہیں تا کہ سوالاتِ قبر کے جوابات کے وقت شیطان وہاں سے بھاگ جائے اور وہ مسلمان شیطان کے فتنے سے بچ کر درست جوابات دینے میں کامیاب ہو کر آخرت میں سُرخرو ہوجائے ۔
(2)حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد اونچی آواز سے تکبیر(اللہ اکبر)کا تکرار فرمایا۔چنانچہ المعجم الکبیر اور مسند احمد وغیرہ کتب ِحدیث میں ہے کہ حضرت سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں(الفاظ مسند احمد کے ہیں):۔
’’فلما صلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ووضع فی قبرہ وسوی علیہ سبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسبحنا طویلا ثم کبر فکبرنا۔فقیل:یارسول اللہ !لم سبحت ثم کبرت ؟قال:لقد تضایق علی ھذالعبد الصالح قبرہ حتی فرجہ اللہ عنہ‘‘۔
ترجمہ:جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی اور اُنہیں قبر میں رکھا اور اوپرسے مٹی برابر کر دی،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سبحان اللہ فرمایا،تو ہم نے بھی کافی دیر سبحان اللہ کہا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ اکبر فرمایا،تو ہم نے بھی اللہ اکبر کہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کیوں فرمایا؟فرمایا:اِس نیک بندے پر قبر تنگ ہوئی،تو اللہ تعالیٰ نے اِس تسبیح و تکبیر کی وجہ سے قبر کو کشادہ فرما دیا۔(مسند امام احمد بن حنبل،ج23،ص158،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)۔
حضرت علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اِس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:۔ ’’ای مازلت اکبر واسبح ویکبرون ویسبحون ویکبرون حتی فرجہ اللہ عنہ‘‘۔
ترجمہ:یعنی میں اورمیرےصحابہ سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کی قبر کو کشادہ کر دیا۔(شرح طیبی،ج1،ص265،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،کراچی)۔
قبر پر تکبیر(اللہ اکبر )کا تکرار کرنا حدیث پاک سے ثابت ہوا اوراذان میں بھی تکبیر کے الفاظ کا تکرار ہوتا ہے۔
(3)غضبِ الہٰی کو بجھانے کے لیے تکبیرکہنا بہت فائدہ مند ہے۔اذان میں بھی تکبیر کے الفاظ ہیں،لہٰذا قبر پر اذان دیتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ مردے پر غضب نہ فرمائے ،بلکہ رحمت فرمائے اور اِسی طرح ظاہری طور پر آگ لگی ہو ،تب بھی تکبیر کہنے کا حکم ہے کہ اِس سے آگ بُجھ جائے گی،تو اذانِ قبر میں یہ بھی حکمت ہے کہ اگر اُس قبر میں خدا نخوستہ آگ کا عذاب ہوا،تو ختم ہو جائے گا۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
۔’’اطفؤ الحریق بالتکبیر‘‘۔ ترجمہ:آگ کو تکبیر کہہ کر بجھاؤ۔(المعجم الاوسط،ج8، ص258،دارالحرمین،قاھرہ)۔
حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’التکبیر علی ھذا لاطفاء الغضب الالٰھی ولھذا ورد استحباب التکبیر عند رؤیۃ الحریق‘‘۔
ترجمہ:قبر پر تکبیر(اللہ اکبر)۔ کہنا،غضبِ الہٰی کو بجھاتا ہے،اِسی لیے آگ کو دیکھ کر تکبیر کہنا مستحب قرار دیا گیا۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،330،۔ مطبوعہ کوئٹہ)۔
۔4)اذان کے بعد کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے،لہٰذا اذان ِقبر کے بعد میت کے لیے بخشش کی دعا کرنے پر زیادہ امید ہے کہ اُس کی بخشش ہو جائے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’اذا نا دی المنادی فتحت ابواب السماءواستجیب الدعاء‘‘۔ ترجمہ:جب مؤذن اذان کہتا ہے،تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے۔(المستدرک علی الصحیحین،۔ ج1،ص731،دار الکتب العلمیہ، بیروت)۔
۔(5)اذان ذکرِ الٰہی ہے اور ذکرِ الہٰی عذاب دفع کرتا ہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ ’’ما من شئی انجی من عذاب اللہ من ذکر اللہ‘‘۔
ترجمہ:ذکرِ الہٰی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے ۔(شعب الایمان،ج2،ص62، مطبوعہ ریاض)۔
۔(6)اگر یہ دلائل اور اِس کے علاوہ دیگر دلائل نہ بھی ہوں، تواذانِ قبر کے جواز کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن و حدیث میں اِس سے منع نہیں کیا گیا، جو منع کرتا ہے،اُسے چاہیے کہ قرآن و حدیث سے اِس کی ممانعت ثابت کرے۔
بہت سے لوگ اس حوالے سے حضرت امام شامی رحمۃ اللہ الباری کی ایک عبارت پیش کرکے بہت واویلا مچا تے ہیں اس کی تشریح ملاحظہ کیجیے۔علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:۔ ’’فی الاقتصار علی ماذکر من الوارد اشارۃ الی انہ لا یسن الاذان عند ادخال المیت فی قبرہ کما ھو المعتاد الآن وقد صرح فی فتاویہ بانہ بدعۃ‘‘۔
ترجمہ:اقتصار میں ہے کہ میت کو قبر میں دفن کرتے وقت اذان کہنا سنت نہیں جیسا کہ آجکل رائج ہے اور علامہ ابن حجر علیہ الرحمۃ نے اپنے فتاوی میں اِس کے بدعت ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔ (ردالمحتار،ج3،۔ص166،مطبوعہ پشاور)۔
حضرت علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے اِس عبارت میں اذانِ قبر کو ناجائز نہیں فرمایا،بلکہ صرف یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اذانِ قبر سنت نہیں،چونکہ بعض علماء شافعیہ اذانِ قبر کو سنت قرار دیتے تھے،تو آپ علیہ الرحمۃ نے شافعی عالم علامہ ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ کے قول سے اپنے مذہب کی تائید میں یہ عبارت ذکر کی کہ یہ امر سنت نہیں ۔نیز ایک اور جگہ اِس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
۔’’(لایسن لغیرھا)ای من الصلوات والا فیندب للمولود وفی حاشیۃ البحر للخیر الرملی:رأیت فی کتب الشافعیۃ انہ قد یسن الاذان لغیر الصلاۃ کما فی اذان المولود والمھموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقہ من انسان او بھیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق قیل:وعند انزال المیت القبر قیاسا علی اول خروجہ للدنیا لکن ردہ ابن حجر فی شرح العباب ‘‘۔
ترجمہ:نمازوں کے علاوہ اذان دینا سنت نہیں،مگر بچے کے کان میں اذان دینا مستحب ہے۔علامہ خیر الدین رملی علیہ الرحمۃ کے حاشیہ بحر میں ہے:میں نے بعض کتبِ شافعیہ میں لکھا ہوا دیکھا کہ نماز کے علاوہ اذان دینا چند مقامات پر سنت ہے جیسے بچے،غمگین اورمرگی والے کے کان میں،حالتِ غصہ میں،جب آدمی بد مزاج ہو،جانور بدک جائے اور اسلامی لشکرکے پسپا ہونے کے وقت،آگ لگنے کے وقت اور میت کو قبر میں رکھتے وقت، اِس پر قیاس کرتے ہوئے کہ جب وہ دنیا میں آیا،تو اُس کے کان میں اذان دی گئی،لیکن علامہ ابن حجر علیہ الرحمۃ نے اِس کے سنت ہونے کا رد فرمایا ہے۔ (ردالمحتار،ج2،ص62،63، مطبوعہ پشاور)۔
اِن عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ اذانِ قبر کو علامہ شامی اور علامہ ابنِ حجر مکی علیہما الرحمۃ میں سے کسی نے بھی ناجائز نہیں فرمایا،بلکہ فقط یہ فرمایا کہ یہ سنت نہیں(ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ سنت نہیں،۔
مگر جائز ،بلکہ مستحسن ضرور ہے) اور ایک چیز کے سنت نہ ہونے سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ناجائز ہو،کیونکہ کئی امور ایسے ہیں ، جو سنت نہیں، لیکن پھر بھی جائز، بلکہ مستحب ہیں جیسے کسی صحابی یا بزرگ کےنام کے ساتھ رضی اللہ عنہ یارحمۃ اللہ علیہ لگانا سنت نہیں،لیکن ناجائز بھی نہیں،بلکہ علماء نے اِسے مستحب قرار دیاہے۔چنانچہ تنویر الابصار میں ہے:۔
’’یستحب الترضی للصحابۃ والترحم للتابعین ومن بعدھم من العلماء والعباد وسائر الاخیار‘‘۔ ترجمہ:صحابہ کرام کے اسماء کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘اور تابعین اور اُن کے بعد کے علماء و صالحین کے لیے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘کا استعمال مستحب ہے۔ ( تنویر الابصار،ج9،ص520، مطبوعہ پشاور)۔
وہ طبقہ جو اذان قبر کا منکر ہے وہ حضرت علامہ ابنِ حجر مکی علیہ الرحمۃ کے اس قول کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں ۔وہ قول یہ ہے، حضرت علامہ امام ابن حجر مکی علیہ الرحمہ نے اس اذان قبر کو بدعت قرار دیا۔ان نادانوں کو اللہ تعالیٰ ہی سمجھ عطا فرمائے ان کو اصول کا اتنا بھی علم نہیں کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ حضرت علامہ ابنِ حجر مکی علیہ الرحمہ کا اِسے بدعت قرار دینا بھی اِس کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں،
کیوں کہ آپ علیہ الرحمۃ کے نزدیک کسی کام کا بدعت ہونا ،اُس کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں،بلکہ وہ کام بدعت ہونے کے باوجود واجب و مستحب بھی ہو سکتا ہے۔چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
’’ تنقسم الی خمسۃ احکام یعنی الوجوب والندب الخ وطریق معرفۃ ذالک ان تعرض البدعۃ علی قواعد الشرع فای حکم دخلت فیہ فھی منہ فمن البدع الواجبۃ تعلم النحو الذی یفھم بہ القرآن والسنۃ ومن البدع المحرمۃ مذھب نحو القدریۃ ومن البدع المندوبۃ احداث نحو المدارس والاجتماع لصلاۃ التراویح ومن البدع المباحۃ المصافحۃ بعد الصلاۃ الخ‘‘۔
ترجمہ:بدعت کی پانچ اقسام ہیں:بدعت واجبہ ومستحبہ وغیرہ اِ سکی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ اُس بدعت کو قواعدِ شرع پر پیش کیا جائے،تو جس حکم کے تحت وہ داخل ہو گی، اُس پر بھی وہ ہی حکم لگے گا ۔ مثلا :بعض بدعتیں واجب ہیں جیسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے علمِ نحو سیکھنا؛بعض حرام ہیں جیسے قدریہ وغیرہ گمراہوں کا مذہب؛بعض مستحب ہوتی ہیں جیسے مدارس کا قیام اور تراویح کے لیے جمع ہونا؛بعض مباح ہیں جیسے نماز کے بعد مصافحہ کرنا۔(فتاوی حدیثیہ،ص150،مطبوعہ کراچی)۔
پتا چلا کہ علامہ ابنِ حجر مکی علیہ الرحمۃ کی تشریح کے مطابق اذانِ قبر کو مطلقابدعتِ محرّمہ( حرام بدعت) نہیں کہہ سکتے ،بلکہ قوانینِ شرع پر پیش کرنا ضروری ہے اور قوانین و دلائلِ شرعیہ(جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے)کی روشنی میں اِس کا جواز بالکل واضح ہے۔
اسی طرح علامہ شامی علیہ الرحمۃ کے نزدیک بھی ہر بدعت ناجائز نہیں ۔چنانچہ نماز کے لیے زبان سے نیت کرنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت نہیں،لہٰذا بدعت ہے،لیکن بدعتِ حسنہ ہے ۔چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمۃاِس بارے میں فرماتے ہیں
۔’’(اذلم ینقل۔۔ الخ)فی الفتح عن بعض الحفاظ لم یثبت عنہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم من طریق صحیح ولا ضعیف انہ کان یقول عند الافتتاح اصلی کذا ولا عن احد من الصحابۃ والتابعین۔۔(بل قیل :بدعۃ)نقلہ فی الفتح وقال فی الحلیۃ:ولعل الاشبہ انہ بدعۃ حسنۃ ‘‘۔
ترجمہ:فتح القدیر میں بعض حفاظ سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سندِ صحیح ،بلکہ سندِ ضعیف سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں نیت کی ہو کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں۔۔۔کہا گیا کہ نماز کے لیےزبان سے نیت کرنا بدعت ہے، اِسے علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ نے ’’فتح القدیر‘‘میں نقل کیا اور صاحب ِحلیہ نے ’’حلیہ‘‘میں فرمایا:یہ بدعتِ حسنہ ہے۔(ردالمحتار،ج2،ص114،مطبوعہ پشاور)۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ سنت نہ ہونا،ناجائز ہونے کی دلیل نہیں ،یوں ہی بدعت ہونا بھی اِس کے بدعتِ محرّمہ(حرام بدعت)ہونے کے لیے کافی نہیں جیسا کہ اوپر واضح ہوا اور علامہ شامی اور علامہ ابن حجرمکی علیہما الرحمۃ کی اِن واضح عبارات کو ملاحظہ کرنے سے پتاچلتا ہے کہ آپ علیہما الرحمۃ میں سے کسی نے بھی اذانِ قبر کو ناجائز نہیں فرمایا اور نہ ہی دیگر فقہاء کرام میں سے کسی نے اِسے ناجائز قرار دیا
کیونکہ کسی کام کو مکروہ وناجائز کہنے کے لیےاُس کےعدمِ جواز کی خاص دلیل ہوناضروری ہے۔چنانچہ حضرت علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:۔ ’’ثبوت الکراھۃ اذلا بد لھا من دلیل خاص‘‘۔ ترجمہ: کسی چیز کو مکروہ کہنے کے لیےاُس کے مکروہ ہونے پر خاص دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ (ردالمحتار،ج1،ص267،مطبوعہ پشاور)۔
اور اذانِ قبر کے عدمِ جواز پر کوئی دلیل بھی نہیں،بلکہ متعدد دلائل سے اِس کا جواز ثابت ہے۔
نوٹ ! اذانِ قبر کے جواز پر تفصیلی دلائل کے لیے فتاوی رضویہ ،ج5 میں موجودامامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا رسالہ مبارکہ ’’ایذان الاجر فی اذان القبر‘‘۔
کا مطالعہ ضرور کیجیے ۔ اور اگر کوئی شخص اس تفصیل جاننا چاہے تو اس کو اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی نور اللہ مرقدہ و قدس سرہ العزیز یہ رسالہ ثواب کی نیت سے بطور ہدیہ پیش کریں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبہ ۔ ۔۔۔ خاکپاۓ علماء اہل سنت خادم مشن علامہ خوشتر محمد غفران رضا قادری رضوی عفرلہ القوی