تحریر محمد احمد حسن سعدی امجدی اسلام میں ظلم کا مقام اور اسلام مخالف ممالک کی نت نئی سازشیں
اسلام میں ظلم کا مقام
یہ بات شمس نصف النہار کی طرح بے غبار اور صاف و شفاف ہے کہ دین اسلام امن وآشتی، عدل و انصاف، اخوت و رواداری اور میانہ روی پر کما حقہ مبنی ہے اور اس کے برعکس تشدد اور ہر قسم کی انتہا پسندی سے مبرا، منزہ اور دودھ سے زیادہ سفید ہے۔
اس بات کا اندازہ بلا چوں چرا محسن انسانیت، ہادی برحق حضور محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق طیبہ اور خصائص حمیدہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ حضور ﷺ کی ترسٹھ سالہ حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں تو عنقریب روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ اسلام کا دور دور تک انتہاء پسندی اور ظلم و استبداد سے کوئی رشتہ، ناتہ ہے ہی نہیں۔
اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ کا فرمان عالیشان ہے، انما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق، كہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ اور ایک دوسرے مقام حضور رحمت عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں , حدیث قدسی ہے، یا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا
الله تعالى اپنے بندوں سے مخاطب ہے کہ اے میرے بندوں میں نے اپنے نفس پر ظلم کو حرام کر دیا اور تمھارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا تو ایک دوسرے پر باہم ظلم نہ کرو ( بلا شبہ رب تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کلمہ ظلم یہ نا قابل تصور ہے اور رہارب کا فرمان تو یہ اپنے بندوں پر حد درجہ فضل واحسان کو بیان کرنا ہے)۔
اور یہ حدیث پاک تو یقیناً بلا تفریق مذہب وملت ہر قسم کے ظلم وستم کے سد باب کے لئے کافی ہے جس میں حضور ﷺ قیامت تک کے لئے اپنی پوری امت کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں! اتقوا دعوة المظلوم وإن كان كافرا فإنه ليس دونه حجاب
یعنی اے میری امت کے لوگوں مظلوم کی بد دعا سے بچو اگر چہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ رب تعالیٰ اور مظلوم کے درمیان سارے حجابات اٹھا دیے جاتے ہیں اور رب تعالیٰ اس کی دعائیں قبول فرماتا ہے ۔
اور تمام احادیث کی طرح یہ حدیث بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس میں نہ تو صرف ظلم کی نفی بلکہ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کی مدد کرنے کے بارے میں صراحتاً بیان کیا گیا ہے، آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں!۔
انصر أخاک ظالما او مظلوما، فقال رجل! یارسول اللہﷺ، أنصرہ اذا کان مظلوما أفرائت اذا کان ظالما کیف انصرہ؟ قال! تحجزه أو تمنعه من الظلم فإن ذلك نصره
حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اپنے بھائی کی مددکرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، ایک صحابی نے عرض کیا! یارسول اللہ، ہم مظلوم کی مدد تو کر سکتے ہیں لیکن ظالم کی مدد کیسے کیسے کریں گے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسے ظلم کرنے سے روکو یہی اس کی مدد ہے۔
کیا مسلم بادشاہوں نے جبراً غیر مسلموں کو مسلم بنایا اس کو پڑھ اپنے احباب میں ضرور شئیر کریں
محترم قارئین کرام
اب تک حضور ﷺ کے مذکورہ چند ارشادات و توجیہات کی روشنی میں بالکلیہ اس بات کی وضاحت ہو گئ کہ اسلام میں ظلم کی کوئی گگنجائش ہے ہی ہیں اور مزید برآں کہ مذہب اسلام کا دامن ظلم اور انتہا پسندی سے ایسے ہی طیب و طاہر ہے جیسا کہ ثوب ابیض ثوب دنس سے، اور بلا شبہ اس بات پر تقریباً ساڑھے چودہ سو سال کی ہماری اسلامی تاریخ شاہد عدل ہے۔
لیکن ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر پوری دنیا پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی جاے تو ایک معمولی ذہن ودماغ کا مالک شخص بھی بخوبی جان لے گا کہ آج پوری دنیا مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، ہر محاذ پر صرف اور صرف مسلمانوں ہی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہماری پشتوں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مہر لگائ جا رہی ہے، ہر چہار جانب سے اسلام اور مسلمانوں کو آتنگواد جیسے ذلت آمیز اور گھٹیا ناموں سے موسوم کیا جا رہا ہے، مختلف زاویہ نظر سے ہمیں بدنام کرنے کی حتی المقدور کوششیں کی جا رہی ہیں،
واضح رہے کہ اس کام کو کسی صوبائی یا ملکی پئمانہ پر نہیں بلکہ عالمی پئمانہ پر انجام دیا جا رہا ہے اور اس ناپاک مہم میں امریکا اور اسرائیل جیسے تمام اسلام دشمن ممالک شامل ہیں ، جو اپنی بنیادی کتابوں کے ذریعہ چھوٹے بچوں کے نازک دلوں میں اسلام دشمنی کا زہر گھول رہے ہیں، جو اپنی تقریروں کے ذریعے نوجوان طبقے کے لوگوں میں اسلام کے خلاف نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا پھر الیکٹرانک میڈیا،ہر جگہ مسلمانوں ہی کی باتیں ہو رہی ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کے مقدس قانون کو ظلم کا نام دیکر ان میں بیجا مداخلت کی ناپاک کوشش جا رہی ہے، ہر ڈبیٹ میں ہمیں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، ہر محفل میں حقیقت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ہماری گزشتہ خلافات ،ہماری گزشتہ حکومتوں کو ظلم اور انتہا پسندی کے ناموں سے جوڈنے کی سعی لا یعنی کی جاتی ہے۔
معزز قارئین ، ان کی ان تمام کالی کرتوتوں کو دیکھ کر اتفاق سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کریں بلکہ یہ ان کے وہ خواب ہیں جو برسوں سے ان کے باطن میں انگڑائیاں لے رہے تھے اور اب اب رفتہ رفتہ شرمندہ تعبیر کے راستے پر گامزن ہیں۔
اور ایسا کیوں کر نہ ہوں؟
کیونکہ ان لوگوں نے اپنے اس ناپاک منصوبے کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بلکہ اپنی پوری قوت لگا دی ، پھر خواہ وہ فلمی دنیا ہو یا ٹی وی سیریل ، ہر میدان میں انھوں نے مسلمانوں کو ظالم وجابر اور اشتعال انگیز باور کرانے کی کوشش کی جو کہ عالم آشکار ہے۔
اس کی وضاحت کے لیے زیادہ دور جانے کی حاجت نہیں، نصف صدی سے جو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں یا ڈرامے ہیں خواہ وہ کسی تاریخ پر مبنی ہو یا محض افسانہ کے قبیل سے ہو، اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً پردہ خفا سے پردہ ظہور پر ایک ہی بات ابھر کر سامنے آتی ہے، صرف ایک ہی چیز ہمارے ذہن ودماغ کو بوجھل کر دیتی ہے ، وہ ہے ان کی اسلام اور مسلم عداوت،
بلا شبہ انگلش، ہندی ،چائنیز، ان تمام فلموں کے پس منظر کو اگر زیر نظر لایا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے خلاف بغض وعداوت کی آگ انھیں کس حد اندھا کر چکی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اداکاری کے لیے صرف اور صرف انھیں مسلم نام ہی نظر آتا ہے، ابھی حال ہی میں ایک مسلم دانشور کی تحقیق کے مطابق ایک دو یا تین نہیں بلکہ ہزاروں ایسی فلمیں اور ڈرامے ہیں جن کے زریعے مسلمانوں کو مسلمانوں ہی کا دشمن بنایا جا رہا ہے،
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلموں میں مسلمانوں کے ناموں کو استعمال کرنے سے مسلمانوں کو کیا نقصان ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ایک شخص کسی فلم کا مشاہدہ کرتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو تو اس کہانی کے اندر جسے ہیرو یعنی مظلوموں کا مسیحا، باأخلاق اور خوش طبع دکھایا جاتا ہے وہ شخص اسے نفس الأمر بھی ایسا ہی سمجھتا ہے اور جس کو شر انگیز، فتنہ پرور اور ظالم فلمایا جاتا ہے مشاہدین کے قلوب واذہان اسے حقیقت میں ویسا ہی سمجھتے ہیں اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آج دنیا میں بلا تفریق مذہب وملت ۹۰ پرسینٹ لوگ سوشل میڈیا اور اور فلمیں دیکھنے میں منہمک ہیں ۔
ان کفار کے لائق ملامت کاموں کی جیتی جاگتی مثال ۲۰۱۸ء میں ریلیز شدہ فلم پدماوت ہے جس کو تاریخ پر مبنی ڈرامہ کی طرف منسوب کرکے یقیناً تاریخ کی بے حرمتی کی گئی، یہ فلم محض کذب وافترا پر مشتمل ہے جس میں ہندوستان کے ایک عظیم حکمران سلطان علاءالدین خلجی کا کردار ادا کیا گیا اور اپنی گھٹیا سازشوں کو بروے کار لاتے ہوئے انہیں ایک عیاش، مکار اور ایک ہم جنس پرست جو اپنی خواہش نفسانی کی تکمیل کے لئے دوسروں کی ازواج تک کو نشانہ بناتا ہو ، کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا،
حالانکہ معاملہ مطلق اس کے بر عکس ہے سلطان علاء الدین ایک خدا شناس، تقوی شعار اور اعلی اخلاق کا مالک تھا بلا شبہ اس فلم کے ذریعے علاءالدین خلجی کے چمکتے دمکتے تاریخ کو مسخ کرنے کی ایک بھونڈی سازش کی گی جو کہ ناقابل برداشت ہے۔
مزید بر آں ۶ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ریلیز شدہ فلم پانی پت میں بھی تاریخ کے حوالے سے کچھ اسی طرح چھیڑ چھاڑ کر افغانستان کے ایک مسلم اور منصف حکمران سلطان احمد شاہ ابدالی کو دنیاے ظلم و بربریت کا بے تاج بادشاہ دکھایا گیا ہے،
معلومات میں مزید اضافہ کے لیے احمد شاہ ابدالی اور اس کی بھارت آمد پر ایک مختصر توضیح اور ازالہ شبہات
۔۱۷۴۷ء میں احمد شاہ ابدالی، درانی کو افغانستان کا بادشاہ منتخب کیا گیا، جس نے بہت ہی کم وقت میں بیشتر فتوحات حاصل کی، دوسری جانب بھارت میں مراٹھاوں کے دباؤ میں آکر ۱۷۵۹ ء میں بادشاہ عالمگیر ثاني کو دہلی کے تخت سے معزول کردیا گیا اور پھربھارت میں مراٹھاؤں کا ظلم اس حد تک بڑھ گیا کہ پونا میں ان کے سربراہ نے دہلی جامع مسجد میں مہادیپ کا بت رکھنے اور ہند کے تمام مسجدوں اور مقبروں کو بت خانوں میں تبدیل کرنے کا فرمان جاری کیا۔
اس نازک ترین ماحول میں بھارت کے شاہ ولی اللہ نواب شجاع الدولہ اور دوسرے بعض امن پسند حضرات نے سلطان احمد شاہ ابدالی کو افغانستان ایک لکھا اور مدد طلب کی، جس کے نتیجے میں ۱۷۶۱ ء کو وہ لاکھوں کا لشکر لیکر بھارت آیا اور پانی پت کی سرزمین پر مراٹھاؤں کو بدترین شکست کا مزہ چکھایا۔
مؤرخین کے مطابق یہ اصل واقعہ ہے لیکن ان کفار کی بنائی فلم پانی پت میں حقیقت کا برعکس درشایا گیا یعنی احمد شاہ ابدالی کو ظالم وجابر اور ایک بہت بڑا سفاک، اور ان کے مقابل مراٹھاؤں کو عدل و انصاف کا پیکر اور مظلوم دکھا کر پھر ایک مسلم سلطان کو لوگوں کی نظر میں گرانے کی کوشش کی گئی۔
برہمنوں کی مضبوط سیات بھارتیوں کی کمزور سیاست ضرور مطالعہ کریں
معزز قارئین کرام
اس کی ہزاروں مثالیں ہیں جن کے ذریعے دنیا کے سامنے ہمیں ذلیل کرکے اور ہماری اسلامی حکومتوں کو بدنام کرکے وہ دنیا بھر میں اسلام کی شبیہ کو مجروح کر رہے ہیں ۔ (اللہ ہمیں ان کے مکر وفریب سے بچاۓ ) ۔
دشمن کو اسی کی زبان میں دنداں شکن جواب
ایسے پر آشوب ماحول میں، میں قابل صد تحسین سمجھتا ہوں اسلامی قائد اور رہنما کی شکل میں ابھر کر افق عالم پر چھا جانے والے ۱۲۹۹ء سے ۱۹۲۲ء تک سلطنت عثمانیہ کے مرکز ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو، جنھوں نے پھر سے دنیا کے افسردہ مسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہر پھونک دی، جنھوں نے پھر سے امت مسلمہ کو ۱۹۲۲ء میں منسوخ شدہ خلافت عثمانیہ کے قیام کا دوبارہ خواب دکھایا اور نہایت ہی برق رفتاری سے اپنے اس مبارک مقصد کی طرف سرگرداں اور سرگرم ہیں ۔ ( اللہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کے زیور سے آراستہ فرمائے)۔
واضح رہے کہ رجب طیب اردگان ہر محاذ پر امریکا اور اسرائیل جیسے اسلام دشمن ممالک سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، اقوام متحدہ ہو یا اور کوئی محفل اپنی حق گوئی اور منصفانہ تجویزات سے وہ ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں
در حقیقت وہ یہودونصاری اور ہنود کو شکست دینے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ اپنی جواں مردی اور پر عزم حوصلے کے ساتھ إعلاءکلمة الحق کی خاطر ہمالیہ پہاڑ کی طرح مضبوط و مستحکم رہتے ہیں ، فی زماننا ان کی خدمات محتاج بیاں نہیں , چند سالوں قبل جب امریکا کی ایما پر اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا خواب دیکھا تو زمین وآسمان گواہ ہیں ، وہ واحد مرد مجاہد کوئی اور نہیں بلکہ رجب طیب اردگان ہی ہے جس نے طاغوتی قوتوں کو نہیں دیکھا، جس نے سپر پاور کے رعب ودبدبے کو خاطر میں نہیں لایا بلکہ پوری امت محمدیہ کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے اس منصوبے کی پر زور مخالفت کی اور ان کے اس فتنہ آمیز خواب کو قبل از تکمیل ملیا میٹ کر دیا،
اس کے علاوہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر جہاں کہیں مظالم ڈھاے جاتے ہیں تو یہی منفرد المثال شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے جو دشمنوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب اور اپنوں کے لیے قابل تسکین ملہم ثابت ہوتا ہے۔
۔( اللہ تعالی ایسے قائد کا سایہ ہم پر تادیر قائم فرماۓ اور پوری امت مسلمہ کو ان کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی توفیق مرحمت فرماۓ، آمین ثم آمین) ۔
معزز قارئین
اگر طوالت و اکتاہٹ کا خوف نہ ہوتا تو میں اس عظیم قائد کی قابل ستائش تمام خدمات پر مفصل روشنی ڈال کر آپ کو ان سے روشناس کراتا لیکن افسوس ! قلت وقت ومکان دامن گیر ہے۔
ہاں تو میں عرض یہ کر رہا تھا ایسے نازک ترین ماحول میں جبکہ ایک جانب عیسائی صلیبی مسلمانوں پر شبخون مارنے کی تیاری میں ہیں تو وہیں دوسری جانب کفار بھی ہم پر یلغار کرنے میں ہر چند کوشاں ہیں اور وہ اس کی انجام دہی کے لیے سوشل میڈیا، ڈرامہ اور فلموں کو بطور ہتھیار بروۓ کار لا رہے ہیں
تو حسب معمول پھر ایک مرتبہ رجب طیب اردگان نے ان بد ذاتوں کو انھیں کی زبان میں دنداں شکن جواب دیتے ہوئے اپنی لازوال سلطنت ، سلطنت عثمانیہ کے بانی ،مہتمم اور جد اعلیٰ ارتغل غازی کی حیات وفتوحات پر ایک ڈرامہ بنام دیریلیس ارتغل بنانے کا ارادہ کیا ، 2016ء سے جس پر کام جاری ہے۔
واضح رہے کہ اس ڈرامہ کے ذریعہ نہ تو صرف سلطنت عثمانیہ کی تشہیر ہو رہی ہے بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کو اسلام کا مقام اور مسلمانوں کی حد درجہ انصاف پسندی اور رواداری کا بھی علم ہو رہا ہے اور یہ ٹی وی سیریل اس وقت دنیا کے ١٥٠ سے زائد ممالک میں مختلف زبانوں میں نشر ہو رہا ہے ، جسے دیکھنے کے بعد عوام ۲۰۲۳ء میں معاہدہ لوزان کے اختتام کے بعد دوبارہ سلطنت عثمانیہ کا قیام دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ان کفار ومشرکین کے حربوں سے ہماری حفاظت فرماۓ اور ۲۰۲۳ میں دوبارہ اسلام کی شمع کو از سر نو مثل سابق روشن فرماۓ۔ آمین ثم آمین۔
نوٹ۔ اس ادنی سی ناقص تحریر کا مقصد فقط دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل سے عوام و خواص کو روشناس کرانا ہے،
خدا را اس مضمون کو پڑھ کر مجھے طنز و تنقید کا نشانہ ہرگز نہ بنایں۔
از قلم محمد احمد حسن سعدی امجدی
مسکن۔ لکھن پورواں، رودھولی بازار ضلع بستی۔
8840061391 رابطہ
Amazon Bigbasket Havelles Flipkart