Wednesday, November 20, 2024
Homeشخصیاتیوم اساتذہ اور ہماری ذمہ داریاں

یوم اساتذہ اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر:محمد مجیب احمد فیضی بلرام پوری ۔ یوم اساتذہ اور ہماری ذمہ داریاں

یوم اساتذہ اور ہماری ذمہ داریاں


مادر وطن ہندوستان میں 5/ ستمبر کو یوم اساتذہ بڑے ہی تزک واحتشام اور خاص کر ہند کے دینی و تعلیمی  اداروں میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں اس خاص موقع پر اسکولوں, کالجوں, اور مذہبی اداروں میں جشن جیسا ماحول نظر آتا ہے۔ طلبہ یوم اساتذہ کی مناسبت سے ایک شاندار محفل کا انعقاد کرتے ہیں, ۔

راقم الحروف کا آنکھوں دیکھی مشاہدہ اس پر شاہد ہے,مادر علمی دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف میں میں تکمیل تعلیم کے بعد تقریبا چھتیس مہینوں تدریسی خدمات انجام دینے کا شرف حاصل ہے۔ 2/ ذی قعدہ عرس بابو میاں علیہ الرحمہ اور افتتاح بخاری کے حسین وپر مسرت موقع  پر  طالبان علوم نبویہ کی طرف سے شہزادۂ شعیب الاولیاء مفکر اسلام تاج العلماء حضرت علامہ غلام عبدالقادر علوی سجادہ نشین و ناظم اعلی دارالعلوم ھذا کی  بہترین صدارت میں یوم اساتذہ کا انتظام وانصرام کیا جاتا ہے”

جس میں سارے اساتذہ و طلبہ برابر شریک ہوکر اساتذہ کی خدمات اور ان کی خوبیوں پر بھر پور روشنی ڈالتے ہیں ۔ اور طلبہ اپنے طور پر انہیں ھدایا وتحائف پیش کرکے ان کی دعائیں لیتے ہیں۔  اساتذہ ان کے لئے مستقبل میں  بہترین اور نیک خواہشات کا پرزور اظہار کرتے ہیں اور انہیں دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتے ہوئے اچھے اور عمدہ مشوروں سے نوازتے ہیں۔

ہردور میں اساتذہ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے۔اور بنظر تعظیم وتکریم دیکھنا بھی چاہئیے۔اسلامی تعلیم میں آج بھی اساتذہ کی قدر دانی اپنی جگہ پر مسلم  ہے۔ اس لئے کہ اللہ کے رسول سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کسی  موقعے پر ارشاد فرمایا تھا کہ “انما  بعثت معلما ” میں تمہارے پاس معلم بناکر بھیجا گیا ہوں

 فرمان مصطفوی ہمیں اس بات کی طرف اشارہ دے رہی ہے کہ استاذ کا رتبہ,درجہ اور اس کا مرتبہ کافی بلند ہے, بلکہ والدین سے بھی زیادہ اس لئے کہ والدین فقط جسم کے مربی ہیں ,جبکہ اساتذہ جسم اور روح دونوں کو سنوارتے ہیں۔ اور فقط جسم کا مربی ہونا آسان ہے۔اس کی انجام دہی کوئی بھی اپنے تئیں کر سکتا ہے۔البتہ جسم وروح دونوں کی تربیت کرنا  یہ انتھائی پر مشقت اور دشوار کن امر ہے ,جس میں ان عظیم ہستیوں کا کوئی بھی سہیم وشریک نہیں۔

حضور صدر الشریعہ اور خدمت حدیث  از فیضان رضا رضوی علیمی

اور تجربہ شاہد ہے کہ متعلمین کی زندگی میں اساتذہ کی تربیت اور کتابوں کا بڑا اہم رول رہا ہے۔جس کی بنیاد پر ایک طالب علم دنیا کی بہت سارے علوم وفنون پر دسترس اور مہارت تامہ حاصل کرلیتا ہے۔اور طالب علموں کی رفعت وبلندی میں مخلص اساتذہ کا ہمیشہ ایک اہم رول رہا ہے۔ ان کی اخلاص اور تربیت  ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی دنیا وآخرت سنور جایا کرتی ہے۔اور طلبہ بھی بعد تکمیل تعلیم اپنے انہیں باوقار اساتذہ کو یاد کرتے ہیں جو مخلص ہوتے ہیں۔استاذ استاذ ہوتا ہے ۔

 جو زمانے کے اقبال وادبار, نشیب فراز , کی پرواہ کئے بغیر اپنے بچوں کے مستقبل کی تابناکی کی خاطر شب و ورز جد وجہد اور سعئ پیہم کرتا ہے۔ رہنمائی کی شکل میں قدم قدم پر مہذب ڈانٹ وفٹکار کی ضرب لگا کر ایک دم صیقل کردیتا ہے کہ بعد فراغت انتخاب تعلیم و تعلم میں نظر اول کے مصداق بنتے ہیں۔

اس لیے ان کی محنتوں کو نظر انداز ,یا ان کے اس احسان عظیم کو بھولنا نہیں چاہئیے,بلکہ ہمیشہ ان کا ادب اور ان کی عزت و قدر کرنی چاہئیے۔
اور مجھے نام تو نہیں معلوم البتہ اپنی کہی ہوئی بات کی مزید تائید وتوثیق کے لئے ایک  عظیم دانش ور کا قول بھی نقل کرتا ہوں شاید اس نے کسی  موقع پر بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ” استاز کی عزت کرو,کیوں کہ یہ وہ ہستی ہے جو تمہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی راہ دکھاتی ہے“۔

اور اساتذہ کو بھی چاہئیے کہ بحییت استاذ ان کا تعلق بچوں سے خاص کر درسگاہوں میں ایک دم رفیقانہ, دوستانہ ہونا چاہئیے

تاکہ طلبہ اپنے احساسات و جذبات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔اور کسی طرح درس وتدریس میں تشنہ لبی وعدم واقفیت کا شکار نہ ہوں, جو کہ ان کے حقوق میں سے ہیں۔ یاد رہے!طلبہ کو بھی لایانی وغیر ضروری سوالات سے باالکلیہ اجتناب کرناچاہئیے,تاکہ تضییع وقت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ استاذ کی نظر میں ان کی قرار واقعی حیثیت محفوظ رہے,ورنہ دیکھا گیا ہے کہ استاذ کی ناراضگی طلبہ کے حق میں کافی نقصان دہ ہے۔

ایک استاذ کے اندر بہت سی خوبیاں ہونی چاہئیے۔ مثلا: انہیں اچھے اور عمدہ اخلاق کا آئینہ دار ہونا چاہئیے,جس سے وہ سماج  کےنو نہالوں کی صحیح نشونما کر سکیں۔ ایک کامیاب استاذ کے لئے لازم ہے کہ وہ قدم بہ قدم طلبہ کی رہنمائی کرے,انہیں صحیح غلط میں امتیاز کر نا سکھائے,ان کی تعلیم وتربیت پر زور دیتے ہوئے انہیں محنت اور جفاکشی کا خوگر بنائے۔

چوں کہ عقلمندوں کے نزدیک وہی کامیاب استاذ تسلیم کیا جاتا ہے جو حق تعلیمی وتربیتی کا فرض منصبی انجام دیتے ہوئے خود ہر لحظہ ہرلمحہ علم کی تلاش جستجو میں لگا رہے۔ان کے نزدیک اس وقت تک وہ ایک  کامیاب استاذ نہیں ہو سکتا ہے,جب تک کہ اپنے  آپ کو ہمیشہ طالب علم نہ تصور کرے۔ اور ایک بہتر استاذ کا فرض ہے کہ وہ ہر مقام پر بچوں کی حوصلہ افزائی کرے, اور اپنے کردار کے ذریعہ ان کی سوچ کو خوب مستحکم کرے۔

حضور صدر الشریعہ اور ان کی شہرہ آفاق بہار شریعت  از  انصار احمد مصباحی

لیکن افسوس صد افسوس!! آج کل اساتذہ کی محبت ان کی عزت ووقار شاگردوں کے دلوں سے نکلتی جارھی ہے۔طلبہ سے وفا کی امید فضول ہے,بلکہ عزت وتکریم تو در گزر رب سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ مولا ان کی ذلت ورسوائی سے بچائے۔
طلبہ کے لیےخون جگرداؤں پے لگانے والا مخلص استاذ اب ایک مظلوم استاذ بن کے رہ گیا۔طلبہ کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔سلام تک کرنے سے گریز کرتے ہیں,چہ جائے کلام۔ بہر حال تالی ہمیشہ دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔اساتذہ اور طلبہ دونوں کو اپنی کردار کشی کرنی چاہئیے۔ اللہ رب العزت طلبہ کو اپنے اساتذہ کی تعظیم وتوقیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے

تحریر: محمد مجیب احمد فیضی بلرام پوری 

سابق استاذ /دارالعلوم فیض الرسول

براوں شریف

رابطہ نمبر:8115775932

Amazon    Bigbasket   Havelles   Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن