Friday, October 18, 2024
Homeمخزن معلوماتنوجوان قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں

نوجوان قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں

تحریر محمد دانش رضا منظری نوجوان قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں

نوجوان قوم کا سب سے قیمتی

حیاء نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی 

خدا کریں کہ جوانی تری رہے باقی 

اسلام آباؤ و اجداد کی اندھی تقلید سے پھیلنے والا جامد نظام حیات نہیں بلکہ تحقیق و تجربے کی بنیاد پر پھیلتی ہوئی ارتقائے انسانیت کی علمی و فکری، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و اجتماعی تحریک کا نام ہے۔ اس ہمہ جہتی تحریک کی نشو و نما میں جہاں انبیاء کرام کے علم و فضل اور علماء اسلام کی جد و جہد کا عمل دخل ہے وہیں پر اسلامی نوجوانوں کے خون کے نذرانے بھی تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں بے شک کار دنیا کو انجام دینے میں جوانی کو سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، لیکن اسلامی شریعت میں بھی جوانی ہی کی عبادت کو بہترین عبادت کہا گیا ہے۔

نوجوان ہی در اصل کسی قوم کا سب سے  قیمتی اثاثہ، نفع بخش سرمایہ اور تابناک مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنے حسن عمل اور جذبۂ خیر و صلاح سے دنیا کو رشک فردوس بنادیں اور چاہیں تو نمونۂ جہنم۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کی حقیقت و ماہیت معلوم کرنے کے لیے اس کے سیم و جواہر اور دیگر معدنیات کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا بلکہ اس کے نوجوان دیکھے جاتے ہیں کہ وہ کن کاموں میں مشغول ہیں۔

 اگر وہ اصحاب تقوی و ورع ہوں، دین کے اوامر و نواہی پر کما حقہ کار بند ہوں مقاصد عظیم میں شب و روز بسر کرتے ہوں اور فضل و کمال کے دامن سے وابستہ ہوں تو سمجھنا چاہیے کہ وہ قوم بڑی عظیم و جلیل قوم ہے،اور اس کی عظمت و رفعت کو دنیا کی کوئی طاقت کبھی بھی چیلنج نہیں کرسکتی۔لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو۔ نوجوان اخلاق و کردار سے دور ہوں، ان کا ذہن گھٹیا سوچوں کا مرکز ہو، لایعنی باتوں میں جٹے ہوئے ہوں، رذیل اور اخلاق سوز  اشیاء پر اس قدر ٹوٹے پڑتے ہوں جس طرح مکھیاں کوڑا کرکٹ پر پڑی  غلاظت  پر گرتی ہیں تو پھر یقین کرلینا چاہیے کہ اس امت کا مستقبل ظلمت و تاریکی میں ہے

اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوئی جاتی ہیں،پرزیں کمزور پڑ رہے ہیں، اور کسی بھی وقت اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی جاسکتی ہے۔ ایسے نوجوان دراصل ننگ، عار قوم و ملت ہوتے ہیں،ان کی وجہ سے امت کے معظمات اور مقدسات کی تحقیر و تذلیل ہوتی ہے،اس کی عظمتیں مسمار ہوجاتی ہیں،اور اس کی تاریخ و ثقافت کا چہرہ مسخ ہو کر رہے جاتا ہے۔

نوجوان بلاشبہ قوموں کا مقدر  ہیں ، وہ چاہیں تو درخشندہ مستقبل اور روشن امیدوں کے سورج اجال دیں اور چاہیں تو ان پر جہالت و رذالت کی کبھی نہ ختم ہونے والی شب تیرہ مسلط کردیں۔

جوانی کا عہد بلند حوصلے، اعلی ہمت اور جنون و عشق کا دور ہوتا ہے، اس لیے تاریخ عالم کو ہمیشہ نوجوانوں کے گرم لہوں نے ہی انقلابات سے ہمکنار کیا ہے،چونکہ تحریکیں شفاف فکر، جواب ہمت اور بلند حوصلے کی مرہون منت ہوتی ہیں،اسلیے اگر کسی بھی تحریک سے جوانوں کو علاحدہ کردیا جائے تو وہ تحریک نہیں رہتی بلکہ پیکر جمود بن جاتی ہے۔

قوموں کی زندگی محض حال و مستقبل ہی سے وابسطہ نہیں ہوتی، ان کا ماضی بھی ان کی پہچان اور راہ نمائی ایک مؤثر ذریعہ ہوتا ہے، زندہ و بیدار قومیں دوسروں کی نقالی میں اپنے ماضی کی نفی کرنے کے بجائے ان سے جڑی رہتی ہیں، ایسی قوموں کی سنہری روایات نسل جدید کی جانب منتقل ہوتی رہتی ہیں،ہماری تاریخ تو اللّٰہ کے فضل و کرم سے شاندار ہے،بدقسمتی سے آج کے دور میں ہمارے نوجوان اس سے بے خبر اور غیروں کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں، آج ہم امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اپنے ماضی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔

نوجوان کسی بھی قوم کا سب قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، جو قوم اپنی نوجوان نسل کی مناسب تعلیم و تربیت کا اہتمام نہ کرسکے وہ اپنی عزت کھو دیتی ہے اور اپنے روشن مستقبل سے محروم ہوجاتی ہے، بیدار مغز قیادت ہمیشہ نسل جدید کے لیے ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جس میں اپنے بنیادی عقائد و نظریات کی آبیاری ہو، صحت مند معاشرہ اپنی منزل کا تعین کرکے یکسوئی کے ساتھ اس کی جانب گامزن ہوتا ہے اور اپنے تابناک ماضی سے آنے والی نسلوں کا رشتہ جوڑے رکھنے  کا بھر پور اہتمام کرتا ہے

 جن امتوں کا حال ان کے ماضی سے لا تعلق ہو ان کا مستقبل ہمیشہ تزلزل اور بے یقینی کا شکار ہوا کرتا ہے،آج کے بچے کل جوان ہونگے اور آج کے جوان کل کے معاملات ملکی و ملی کی زمام کار اپنے ہاتھوں لیں گے۔

ہم اللّٰہ کے فضل سے اتنا شاندار ماضی رکھتے ہیں کہ اس کی روشنی میں ہم مستقبل کی راہیں متعین کریں تو ہر جانب روشنی پھیل جائے

 ہمارے پاس ہدایت ربانی کے دو ایسے چشمے موجود ہیں، جس کے ہوتے ہم کبھی گمراہ و ذلیل نہیں ہوسکتے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم محض اپنے فدیئے پر فخر و مباہات ہی میں گم ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ اس کو حرز جاں بنائے، اس کے اوامر و نواہی کو دل و جان سے تسلیم کریں اور اس کے جامع نظام بلا کم و کاست پورے اخلاص کے ساتھ اپنالیں۔

اپنے آباؤ و اجداد پر فخر بجا ہے مگر وہ فخر باعث ننگ و عار ہوتاہے جس میں اخلاف اپنے اسلاف کی راہ سے ہٹے ہوئے ہوں۔ سیدنا علی ابن ابی طالب نے کیا خوب فرمایا تھا، انما الفتی من یقول انا ھا ذا،ولیس الفتی من یقول کان ابی

یعنی جوان مرد وہ ہے جو میدان میں نکل کر کہے کہ میں چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہوں،وہ جوان مرد نہیں جو مشکل گھڑیوں میں یہ ڈینگیں مارتا پھرے کہ میرے آباؤ و اجداد ایسے تھے ویسے تھے۔

عالم اسلام میں عالم کفر کے مقابلے میں نوجوانوں کا تناسب کہیں زیادہ ہے اپنی نوجوان نسل کی وجہ سے امت مسلمہ بہت بڑا سرمایہ اپنے دامن میں رکھتی ہے، لیکن اغیار ہمیں ہماری تاریخ سے کاٹنے پر تل گیے ہیں۔ واحسرتاہ چوکیدار چوروں سے مل گیے

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چور ہی چوکیدار بن گیے ہیں، ہمارا تحفظ اس بات میں ہے کہ ہم اپنی اصل کو پہچانیں نہ کہ ہم دوسروں کی نقالی کی بے جا حرکتیں کریں، مغرب نے ہماری بیخ کنی کے لیے خوب سوچ سمجھ کر یہ منصوبہ بندی کی ہے کہ امت مسلمہ کے نوجوان نسل کو فحاشی، عریانی بے حیائی، اباحیت اور بدکاری اور عیاشی کا رسیا بنا دیا جائے

تفریح کے نام سے ایسا  رذیل مواد ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے کہ جو زہر ہلاہل سے زیادہ مہلک ہے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلاف سے جوڑنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہیے۔ڈاکٹر اقبال نے اپنی نظموں سے نوجوانوں کو اپنے درخشندہ ماضی سے مربوط رہنے کی پرزو وکالت کی ہے آپ فرماتے ہیں۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہوتی ہے جوانو ں میں ۔

نظر آتیں ہیں ان کو اپنی منزل آسمانوں میں ۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گبند پر۔

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں 

قربانی صرف تین دن

یقینا آج ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل کو اس دور سعید سے جوڑ دیا جائے جسے خیر القرون کہا گیا، وہ دور کہ جب آسمان سے زمین پر براہ راست وحی کی روشنی اترتی تھی اور اس روشنی میں پروان چڑھنے والی نسل انقلابی قوم کہلائی۔

بعض لوگ یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ جوان کون ہے، بلاشبہ عمر کا وہ حصہ جس میں صلاحیتیں مسلسل  پروان چڑھتی چلی جاتی ہیں، جسم و جان اور دل و دماغ کی قوتیں اپنے شباب   پر ہوتیں ہیں اور کچھ کر گزرنے کا سودا سر میں سمایا ہوا ہوتاہے اسی کو دور جوانی کہا جاتا ہے۔

اس معروف تعریف کے ساتھ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ بسا اوقات ماہ و سال کے پیمانوں سے ناپیں تو کوئی شخص جوان کہلانے کا مستحق ٹھرے گا۔لیکن قلب و جگر اور جذبات و عزائم کو پرکھیں تو وہ نوجوان بوڑھا ثابت ہوگا اس کے بر عکس بعض سفید ریش، عمر رسیدہ افراد اپنی  حرارت ایمانی اور حمیت دینی کی وجہ سے تازہ دم اور نوجوان کہلانے کے مستحق ٹھریں گے

یوں بیس سالہ بوڑھے اور سترہ سالہ جوان بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں، ہم ان نوجوانوں کو مخاطب کرنا چاہ رہے ہیں کہ جن کی جوانیاں بھی بے داغ ہوں اور ضرب کاری کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔

اب میں اپنی بات کا اختتام  اقبال کے اس شعر پر کرتا ہوں

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا 

شاب جس کا ہوں بے داغ،ضرب ہو کاری 

تحریر: محمد دانش رضا منظری  پیلی بھیت،یوپی

استاذ: جامعہ احسن البرکات للولی، فتح پور، یوپی، الھند

9410610814

مسجد آیا صوفیہ کی بحالی

Amazon   Flipkart

 
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن