از قلم : اللہ بخش امجدی اسلام کے اخلاقی نظریہ پر عمل کرکے معاشرے میں کوئی اداس نہیں رہ سکتا
اسلام کے اخلاقی نظریہ
آج دنیا میں تقریبا ہر انسان پریشان نظرآتا ہےکوئی گھریلوں مسائل سے پریشان، کوئی معاشی اعتبار سے پریشان، کوئی سب سامان تعیش ہونے کے باوجود سکون قلب سے عاری اس کے علاوہ ہرانسان کی الگ الگ پریشانی ہوتی ہیں ـ
ہم جب پوری دنیا پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہچتے ہیں کہ انسان اخلاق وآداب کو بھلا بیٹھا ہے اور آئے دن ہم اخلاق کے جنازے نکالتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو پریشانی اداسی کے کنویں میں ڈھکیل دیتے ہیں اخلاق وآداب ایک ایسا نظریہ ہے جس پر عمل کے ذریعے معاشرے میں کوئی فرد اداس نہیں رہ سکتا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
۔ ٫٫بعثت لاتمم حسن مکارم الاخلاق ،، یعنی مجھے مکارم اخلاق بنا کر بھیجا گیا صحابہ کرام نے جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق پورا قرآن ہے یعنی قرآن مقدس کی اخلاقی تعلیمات کے حقیقی آئینہ دار حضور ہی کی ذات بابرکات ہیں ـ
کسی قوم کی سب سے بڑی قوت، اخلاقی قوت ہوتی ہے اس کی عظمت ورفعت کی تاریخ اخلاقی قوت سے لکھی جاتی ہے ـ ہمیں یہ اصول اپنانے کی ضرورت ہے کہ اگر اخلاق نہیں تواسلام نہیں
یہی وہ دولت ہے جس کے بل بوتے پر اسلام نے بہت کم عرصے میں دنیا میں فتح کا پرچم لہرایا اور تاہنوز اس میں ترقی جاری و ساری ہے ـ
میں یہ دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر پوری دنیا میں اسلام کے اخلاقی نظریہ کو نافذ کردیا جائے تو معاشرے میں کوئی اداس نہیں رہ سکتا ـ لہذا اسلام کے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے حوالے سے ہمیں اپنے گریبان میں جھاک کر دیکھنا ہوگا اور مکمل طریقے سے اسلام کے اخلاقی نظریہ پر عمل کرکے دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ اسلام ایک عالمگیر، مہذب، پاکیزہ، مقدس اور اخلاقی تعلیم سے ایسا لیس ہے کہ پوری دنیا میں صرف تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق کی بدولت پھیل رہاہیں۔
ازقلم : اللہ بخش امجدی،جالنہ
رکن تحریک فروغ اسلام شعبہ نشر واشاعت
جالنہ مہارشٹر
رابطہ 9506086609
اس کو بھی پڑھیں ہمارے آئیڈیل کون ہیں ؟۔