Friday, October 18, 2024
Homeاحکام شریعتفلسفہ قربانی بھی کیا عجیب و غریب ہے

فلسفہ قربانی بھی کیا عجیب و غریب ہے

ازمحمد اشفاق عالم نوری فیضی  فلسفہ قربانی بھی کیا عجیب و غریب ہے

فلسفہ قربانی بھی کیا عجیب و غریب ہے

اسلامی سال کے آخری مہینہ میں جگر گوشہ خلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے آپ کو راہ حق میں قربان ہونے کے لئے پیش کر دیا ۔

اور محرم الحرام میں جگرگوشہ خاتون جنت حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا تن من دھن اور اپنے چھ ماہ کے نور نظر حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ سمیت بہتر تن قربان کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو زندہ  کردیا ۔

گویا اس مقدس سال کی  ابتداء بھی قربانی پر اور انتہا بھی قربانی پر ہے بلکہ یوں کہیے کہ اس بے مثل خالق تبارک وتعالیٰ کے بے مثل محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے مثال امت کی تاریخ بھی کیسی بے مثل ہے

جس کی ابتدا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے ہوئی ۔اور انتہا حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر ہوئی۔گویا اس تاریخ مقدس کی حیات تمام تواریخ عالم سے ممتاز و مایہ ناز اور بے نظیر ہے۔ ترجمان حقیقت علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ملت اسلامیہ کی تاریخ کا  پس منظر اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان فرمایاہے ۔

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل   غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم 

ذی الحجہ کی فضیلت

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت میں بہت کچھ روایت کیا گیا ہے ان میں سے چند باتیں مزید آپ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں اس امید پر کہ یہ لوگوں کے لئے نفع کا باعث ہو گی اور اللہ تعالی مجھے بھی اجر عطاء فرمائے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے۔  انہوں نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن بھی ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی دوزخیوں کو دوزخ سے نجات دے کہ ان کی تعداد ان سے زیادہ ہو جن کو یوم عرفہ  دوذخ سے نجات دی  جاتی ہے(زبدت الواعظین)۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام غیر ذی زر  میں

ایک روز حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام دونوں اکٹھے کھیل رہے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیار سے اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لے لیا اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو پہلو میں بٹھا لیا ۔ اس منظر نے  حضرت سارہ کو  غضبناک کردیا ۔ آپ کا جذبہ رقابت بھڑک اٹھا ۔ غصے سے بولیں۔ اب اس  گھر میں ماں بیٹے کے لیے کوئی جگہ نہیں آپ ان دونوں کو فورا کسی اور جگہ چھوڑ آئیں۔ میں انہیں مزید برداشت نہیں کر سکتی۔

  حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے حضرت سارہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں پھر اللہ تعالی کی طرف سے بھی یہی حکم ہوا کہ جبرائیل کی معیت میں ماں بیٹے کو وادی غیر ذی زر ع چھوڑکر آؤ جہاں ہمارا گھر ہے ۔ چنانچہ آپ نے دونوں کو لیا اور تعمیل حکم کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔  جو اس وقت ایک ٹیلے کی شکل میں تھا گردوپیش پہاڑیاں تھیں اور قریب ہی ایک بہت بڑا درخت اگا ہوا تھا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب انہیں وہاں چھوڑ کر واپس چل پڑے تھوڑا ہی دور گئے تھے کہ پیچھے سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آواز دی اور عرض کیا اے میرے سرتاج ! “ اَیۡنَ تَذۡ هَبُ وَتتۡرُ كُنَا بِهٰذَالوَادِیُ الَّذِی لَیۡسَ فِیۡ اِنۡسٌ وَلَا َۡشَیۡء ٌـ ” کہ اے ابراہیم علیہ السلام آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں ۔ ہمیں اس وادی میں یک و تنہا چھوڑ کر جس میں نہ کوئی انسان ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز  ۔

آپنے یہ کلمات کئی بار دہرائے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر نہ دیکھا اور آپ کی طرف متوجہ ہوئے بغیر آخری بار صرف اتنا کہا کہ میں تمہیں اللہ کے سپرد کر کے جا رہا ہوں تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بے ساختہ کہا  ” فَلَنۡ يَضيۡعَنَا اللّٰهُ  ” کہ وہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں ہونے دےگا ۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس طرح ملتجی ہوئے۔

  اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کو تیرے محترم  گھر کے نزدیک اس بنجر وادی میں رہائش پذیر کیا ہے۔اے ہمارے پروردگار ! چاہیے کہ وہ نماز قائم کریں ,پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل فرما ( ان کی محبت ان کے دلوں میں پیدا فرما ) اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ شکر ادا کریں” ( ترجمہ سورہ ابراہیم )۔

چشمہ آب زمزم

آپ علیہ السلام کی یہ دعا اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول ہوئی اور لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے اس جگہ کی محبت پیدا فرما دی اور دنیا کا کوئی ایسا پھل نہیں جو مکہ میں دستیاب نہ ہو۔ یہ آپ علیہ السلام کی دعا کا ہی نتیجہ ہے ۔اب لوگ دنیا  کے گوشہ گوشہ سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے وہاں حاضر ہوتے ہیں۔

حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت اسماعیل کی پرورش کرتی رہیں اور جب پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں تو آپ قریب ہی صفا پہاڑ پر تشریف لے گئیں تاکہ دور و نزدیک کہیں کوئی آبادی نظر آ جائے اور وہاں سے پانی اور غذا حاصل کی جائے ۔

  پھر وہاں سے مروا پہاڑ پر تشریف لے گئیں لیکن وہاں بھی آبادی کا کوئی نشان نظر نہ آیا۔اس طرح آپ نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سات چکر لگا ۓ  ساتویں چکر میں جب آپ مروہ پر تشریف لے گئیں تو دیکھا جہاں حضرت اسماعی علیہ السلام فرماتھے وہاں آپ کے قدموں کے نیچے سے پانی کا چشمہ جاری ہے ۔

 اسی چشمہ کو آب زمزم کہتے ہیں۔ اس کاپانی ہر قسم کی بیماریوں کے لئے شفا  ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم آب زمزم نوش کرنے لگو تو  کھڑے ہو کر یہ دعا مانگو ” اَللّٰهُمَّ ارۡزُقۡنِیۡ رِزۡقَاًوَاسِعَاً حَلَا لاً طَیِّباً وَ عِلۡماً نَافِعاً وَ شِفَاءً كَا مِلاً مِنۡ كُلِّ دَاءٍ “(   اے اللہ تعالی مجھے وسیع حلال اور طیب رزق عطا فرما اور مجھے علم نافع اور ہر بیماری سے شفاء کامل عطا فرما۔)۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام قربان گاہ کی طرف

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمرتقریبا تیرہ سال تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رات کے وقت سوتے میں ایک خواب دکھایا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ آپ اپنی نظر پوری کریں ۔جس  رات کویہ خواب دکھایا گیا یہ ترویہ کی رات تھی صبح کے وقت آپ اس خواب کے متعلق سوچنے لگے کہ کیا یہ خواب شیطانی ہے یا رحمانی ی اس لیے اس دن کو یوم الترویہ یعنی شک کا دن کھتے ہیں ۔

  یہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ تھی ۔ اسی شش و پنج میں آپ دوسری رات سوۓ تو آپ کو خواب میں وہی پیغام دیا گیا کہ اپنی عزیز ترین چیز قربانی کے لیے پیش کریں ۔ جب آپ اٹھے تو آپ کو یقین ہوگیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہےلیکن ابھی تک یہ واضح نہ تھا کہ کون سی چیز  قربانی کے لیے پیش کروں یہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ تھی اس کو یوم عرفہ (پہچان اور یقین کا دن) کہتے ہیں ۔

جس جگہ یہ خواب آپ کو دکھائے گئے تھے  اس کو عرفات کہتے ہیں ۔اور تیسری رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ اپنے لخت جگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں تو آپ کو یقین ہو گیا خواب رحمانی ہے اورلخت جگر قربان کرنے کا حکم ہے ۔

 چوں کہ انبیاء کرام کے خواب سچے ہو تے ہیں ۔ اس لیے آپ اپنے بیٹے کو حکم خداوندی کے مطابق قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور آپ خیال فرما رہے تھے ۔ کہ  اگر ایک لخت جگر کی قربانی سے اللہ رب العزت عزت کی رضا حاصل ہو جائے تو یہ سودا سستا ہے۔

اس لیے  فورا حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایاکہ اپنے لخت جگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو نہلاو،  خوبصورت لباس پہناو، بالوں میں کنگھی کرو، آنکھوں میں سرمہ لگاؤ ، میں انہیں ایک ضیا فت میں لے جانا چاہتا ہوں ۔انہوں نے تعمیل حکم میں دیر نہ لگا ئی اپنے نور نظر کو بنا سنوار کر آپ کے حوالے کردیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری اور رسی بھی لے لی اور  اپنے بیٹے کو اپنے رب کی رضا پر قر بانی کرنے کے لئے  منی کی طرف چل دیئے۔اور سارا ماجرا اپنے لخت جگر کو بھی بتا دیا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے۔  

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا اے میرے پدر بزرگوار آپ کر کزرۓ جس کا آپ کو حکم ہوا ہے انشاءاللہ ضرور آپ مجھے صابرین میں پائین گے ۔اسی کی منظر کشائی ڈاکٹر ڈاکٹر اقبال کچھ اس طرح کرتے ہیں

      سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی     یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی 

عید کے لیے تحفہ خریدیں

 دس ذی الحجہ کو حسب ارشاد الٰہی باپ اور بیٹا دونوں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کے لیے صبح سویرے ہی گھر سے روانہ ہوگئے بیٹا اپنی جوانی،اپنا حسن،اپنی رعنائی اور اپنی امیدوں اور امنگوں کو قربان کرنے کے لۓ شاداں شاداں جارہا ہے اور باپ اپنی سو سالہ دعاؤں کے رنگین ثمر اپنے لخت جگر اور نور نظر کو قربان کرنے جا رہا ہے دونوں خوش ہیں۔

 شیطان نے سوچا آج تک ابراہیم علیہ السلام نے مجھے ہر قدم پر زک پہنچائی اور چرکے پر چرکہ لگایا آج اگر اس کا بنا بنایا کھیل بگاڑ کرنہ رکھ دوں تو میرا نام نہیں دوڑتا ہوا آپ کے گھر پہنچا حضرت ہاجرہ تشریف فرما تھیں ہاجرہ ! اسماعیل آج نظر نہیں آرہا ہے

حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے  بتایا دونوں باپ بیٹا سیر و تفریح کے لئے باہر گئے ہیں  کہنے لگا نہیں تم دھو کے میں ہو ابراہیم آج تیرے  بچے کو ذبح کرنے کے لئے لے گیا ہے دوڑو اور اپنے بچوں کو بچاؤ آپ نے فرمایا کبھی باپ بھی اپنے بیٹے کو قتل کرتا ہے اور ابراہیم کو تو اپنے اس بیٹے سے بڑا پیار ہے تم جھوٹ بول رہے ہو نکلو یہاں سے!۔

  شیطان نے کہا تم بھولی بنی بیٹھی ہو وہ آج ضرور تیرے بچے کو ذبح کر دے گا کیونکہ اسکے رب نے اسے یہ حکم دیا ہے۔ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا اگر رب کریم کا حکم ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہزاروں اسماعیل ہوں تو بھی اس کے اشارہ پرقربان کر دوں یہاں ا سے اپنی کامیابی کی سو فیصد امید تھی لیکن منہ کی کھائی۔

دوڑتا ہوا اسماعیل کے پاس پہنچا وہاں سے بھی اسی قسم کا جواب ملا ۔ مایوس ہو کر آخری بار زور آزمائی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا کر الجھ پڑا اور کہنے لگا کہ اتنے خوب صورت بچے کو ذبح کر نےکو  چلے ہو یہ  کہاں کی دانش مندی ہے

اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے اور سیکڑوں طریقے ہیں بڑھاپے میں ایک بچہ ملا وہ بھی اتنا حسیں جسے دیکھ کر چاند شرمائے جائےاس کو ذبح کرنے چلے ہو ۔ تمہارا تو نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا نسل ختم ہو جائے گی خاندان مٹ جائے گا۔

آپ نے غضب ناک ہو کر زمین سے پتھر اٹھایا اور دے مارا تین دفعہ ایسا ہی کیا۔شیطان کی آنکھیں کھل گئیں اسے پتہ چل گیا کہ آج اللہ تعالی کے بندے کے ساتھ اسے واسطہ پڑا ہے اسی کے متعلق  اِلَّا عِبَادِیَ الصَّالِحِیۡنۡ ” ارشاد فرمایا گیا

جب دونوں گوشہ تنہائی میں پہنچے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نےعرض کی محترم پدر بزرگوار !  میرے ہاتھ اور پاؤں رسی سے باندھ دیجیئے مبادا بے خبری میں انھیں ہلا بیٹھوں اور آپ پر میرے خون کے چھینٹے پڑ جائیں نیز میرا منہ زمین کی طرف کر دیجئے تاکہ میرا چہرہ دیکھ کر آپ کو ترس نہ آجائے چناں چہ ایسا ہی گیا۔ 

جب حضرت ابراہیم نے آپ کو منہ کے بل زمین پر لٹایا اور تیز چھری گلے پر رکھ کر پھیر نی شروع کردی تو عالم بالا میں لرزہ طاری ہو گیا ہوگا اور اور فرشتوں کو ” اِنِّی اَعۡلَمُ مَالَا تَعۡلَمُوۡنۡ “کی تفسیر کا علم ہواہوگا آپ تیزی سے چھری گردن پر پھیر رہے ہیں ادھر سے نداآتی ہے ۔

بس! اے میرے خلیل بس ! ہوگیا تیرا امتحان اور تو امتحان میں کامیاب ہو گیا ” قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّؤۡیَا اِنَّا كَذَالِكَ نجۡزِالۡمُحۡسِنِیۡن ” بے شک تو نے سچ کر دکھایا خواب کو ہم اس طرح بدلہ دیتے ہیں محسنوں کو

۔ ” اِنَّ هٰذَا لَهۡوَالۡبَلٓوءُالۡمُحۡسِنِیۡنۡوَ فَدَیۡنٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡم ” بے شک یہ تیری کھلی آزمائش تھی اور ہم نے بچا لیا اسے فدیہ میں ایک ذبیحہ دیکر ۔

نوٹ  :- یہ ہے فلسفہ قربانی کا عجیب وغریب اوراسلامی تعلیم کا اپنے آپ کو اپنی ہر چیز کو مالک حقیقی کی رضا کے لئے قربان کر دینا۔

 اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں بھی سنت ابراہیمی کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانی کو قبول عطا فرمائے۔آمین 

از قلم  ۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی

رکن ۔ مجلس علماء مغربی بنگال

شمالی کولکاتا ناراین پور زونل کمیٹی

رابطہ نمبر ۔ 9007124164

mdashfaquealam670@gmail.com

اس کو بھی پڑھیں قوم سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن