Friday, November 22, 2024
Homeشخصیاتڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال

از:طارق انورمصباحی=ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی) ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال قسط اول قسط دوم کے لیے کلک کریں 

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال


ماہ فروری  2020 میں ڈاکٹر آصف اشرف جلالی صاحب قبلہ نے ایک رافضیہ کاجواب دیتے ہوئے ایک جملہ کہا۔اس کے بعد ہند وپاک میں بحث کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا

پھر 20:جولائی ۔ 2020 کو ڈاکٹرموصوف کو گرفتارکر لیا گیا۔موصوف کی گرفتاری اہل سنت وجماعت کے لیے ایک اذیت رساں امر ہے۔
ایسے مواقع پر دفع فتنہ کے واسطے مشروط توبہ کی جا سکتی ہے۔جب کسی کلام کی غلطی ثابت نہ ہوتو غیر مشروط توبہ نہیں ہوسکتی،کیوں کہ بلا شرط، توبہ کی صورت میں صحیح قول کو ترک کرنا اور غیر صحیح کواختیارکرنالازم آئے گا۔ ہاں، بحث کا دروازہ بندکرنے کے واسطے مشروط توبہ میں کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی،مثلاً اس طرح کہا جائے:۔

۔”اگر میرا قول شریعت اسلامیہ کی نظرمیں قابل گرفت ہے تو میں نے اس کلام سے توبہ ورجوع کیا“۔
چوں کہ ایسے مواقع پرعام طورپر ”کلموا الناس علیٰ قدرعقولہم“کالحاظ نہ کرنے کے سبب شوروہنگامے ہو جاتے ہیں تو ہنگامہ آرائی کو ختم کرنے کی راہ اپنانی ہوگی،اور اس کلام سے قائل کا جومقصودتھا،اس کو سہل اسلوب میں پیش کرنا ہوگا۔اس طرح ہنگاموں کوکنٹرول کرنے میں بھی آسانی ہوگی اورقوم کی صالح رہنمائی بھی ہوسکے گی۔ایسے موقع پر اہل حق کو بھی متکلم کے کلام کے ساتھ اس کے مقاصد پر بھی نظر رکھنی چاہئے،تاکہ ہنگامے بھی بند ہوں اورباطل نظریات کوبھی دفن کیا جا سکے۔مومنین کے ایمان وعقیدہ کا تحفظ مقصد اولین ہے۔اختلاف کے سبب عوام مسلمین انتشار میں مبتلا ہوجاتے ہیں

اورجومقصداصلی تھا،وہ نظروں سے غائب ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے ایک معترض کی آڈیوکلپ سننے کا موقع ملا،جس میں ڈاکٹر موصوف پر بے ادبی،اور کفرلزومی کی بات کی گئی تھی۔ اسی کلپ کے مشمولات پرمختصر تبصرہ مرقومہ ذیل ہے۔ مضمون میں کسی فر یق کے نام کی بجائے متکلم اور فریق دوم کے لفظ سے تعبیرہوگی۔کسی فریق کی حمایت کی بجائے حکم شرعی کا بیان ہوگا:واللہ الموفق والہادی
لفظ خطا کے متعدد معانی
فریق دوم کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ متکلم نے جس بیان میں وقوع خطا کی بات کی ہے،وہاں خطا سے خطائے اجتہادی مراد نہیں لیا جاسکتا،کیوں کہ سیاق کلام اورقرینہ سے یہ ثابت ہے کہ یہاں اس خطا کی بات ہے، جس سے اہل بیت محفوظ ہیں اور یہ خطائے اجتہادی نہیں،بلکہ وہ خطا بمعنی معصیت ہے۔اب اس خطا کے وقوع کی نسبت حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف کرنایقینا ایک غلط بات ہے۔

اس سے فریق اول کو توبہ کرنی واجب ہے۔ نیز وہاں خطائے اجتہادی کا قول کرنا بھی مناسب نہیں، کیوں کہ حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وراثت سے متعلق قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت مقدسہ کے پیش نظر باغ فدک میں میراث کا مطالبہ کیا تھا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث نبوی کے پیش نظر باغ فدک میں میراث جاری نہ فرمائی،اس لیے یہاں دونوں شخصیتوں پر کوئی اعتراض نہیں۔(ملخصا)۔
جواب: لفظ خطا کے متعددمفاہیم
۔(1)اگر فریق دوم کی وضاحت کے اعتبارسے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہاں خطا سے خطائے اجتہادی مراد نہیں ہوسکتی ہے توبھی یہاں شہزادی رسول حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر کوئی اعتراض وارد ہونے کی گنجائش نہیں۔شایدمتکلم نے اس مفہوم کو بھی اپنے وضاحتی بیان میں پیش کیا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے:۔


کسی سے صدور خطابھی ہو،اور حکم خطا بھی عائد نہ ہو،یعنی اس مرتکب کے حق میں وہ امر خطا نہ ہو، جیسے علم ویقین کی حالت میں کسی ضروری دینی کا انکار یقینا کفر ہے،لیکن نومسلم لاعلمی کی حالت میں کسی ضروری دینی کا انکارکردے تو اس ضروری دینی سے لاعلم ہونے کے سبب نومسلم کا انکار کفر نہیں

اسی لیے اس پرحکم کفر عائد نہیں ہو گااور لاعلمی کے سبب ضروری دینی کا انکار اس کے حق میں کفر نہیں ہو گا۔یہاں نومسلم سے کفر کا صدور بھی ہوا، لیکن وہ نہ اس کے حق میں کفرہے،نہ ہی اس پر کفرکاحکم کا واردہوتا ہے۔حکم کفر اس وقت وارد ہوگا،جب اس کو علم ویقین ہو جائے کہ یہ ضروری دینی ہے۔جب علم یقینی ہوجانے کے بعد انکار کرے تو یہ انکار کفر ہے۔

مسئلہ حاضرہ کی تفہیم کے لیے ایک مثال رقم کی جاتی ہے۔زید کے والد نے اپنی جائیداد کا نگراں اورمحافظ کسی کو بناد یاتھا۔ اس کی جائیداد میں ایک انگورکا باغ تھا۔اپنے والد کی وفات کے بعد زید نے اس محافظ ونگراں سے انگور کے باغ میں اپنی وراثت طلب کی تو نگراں نے کہا کہ آپ کے والد نے وہ باغ فلاں کو فروخت کردی تھی،اور اس خریدار نے اس باغ کی حفاظت ونگرانی بھی میرے ذمہ کر دی ہے تومیں جیسے آپ کی جائیداد کی حفاظت کرتاہوں،اسی طرح اس کے باغ کی بھی حفاظت ونگرانی کرتا ہوں۔
پھر اس محافظ نے اس کے والد کے انگورکاباغ فروخت کرنے کے کاغذات اورگواہوں کے نام بتائے۔ زید نے گواہوں سے بھی تحقیق کرلی اوراسے اطمینان ہوگیا کہ اس کے والد نے وہ باغ فروخت کردی تھی۔
اب کسی نے کہا کہ زید باغ کے مطالبہ میں خطا پرتھا تو یہ بات صحیح ہے کہ جب وہ باغ اس کے والد کی ملکیت نہیں تھا تو اس باغ میں وراثت کا مطالبہ غلط تھا،لیکن لاعلمی کی صورت میں وراثت کامطالبہ جرم نہیں۔اگر جان بوجھ کر زید باغ کامطالبہ کرتا تو اب یہ مطالبہ جرم ہوتا،کیوں کہ جس کا یہ مستحق نہیں،اس کا مطالبہ کررہا ہے۔
لاعلمی کے سبب جو غلط مطالبہ ہوا، وہ ظاہرمیں غلط مطالبہ ہے،لیکن حقیقت میں صحیح مطالبہ ہے،کیوں کہ اس نے اپنے والد کی ملکیت سمجھ کر مطالبہ کیا،پس یہاں کسی امر میں دواعتبار ہوتے ہیں۔ ظاہری اعتبار اورحقیقی اعتبار۔
حقیقی اعتبارسے یہ مطالبہ صحیح ہے۔ ظاہری اعتبارسے یہ مطالبہ غلط ہے۔جو اس مطالبہ کو صحیح کہے،اس نے حقیقی اعتبارسے اس کوصحیح کہا اورجس نے غلط کہا وہ ظاہری اعتبار سے غلط کہا۔
اب یہاں دوسرا کہے کہ زید اپنے مطالبہ میں صحیح تھا تو یہ بات بھی صحیح ہے کہ جب اس نے اپنے والد کی ملکیت سمجھ کر مطالبہ کیا تو حقیقت میں وہ غلط مطالبہ کرنے والا نہیں،اسی لیے جب اسے باغ فروخت ہونے کاعلم ہو گیاتو اس نے مطالبہ ترک کر دیا،کیوں کہ وہ جائز حق کی طلب میں تھا۔جب اس پرواضح ہوگیاکہ باغ اس کے والد کی ملکیت میں نہیں تووہ اس باغ کا حقدار نہیں،اوراس جانکاری کے بعد اس کا ترک مطالبہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ حقیقت میں غلط مطالبہ کرنے والا نہیں تھا،ورنہ جانکاری کے بعد بھی وہ مطالبہ جاری رکھتا۔

مذکورہ بالا عبارت میں جومفہوم بیان ہوا،یہ عام انداز میں مسئلہ کی تفہیم کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ارباب فضل وکمال کے لیے لفظ خطا کا استعمال عرف میں معیوب ہو تو ان کی عظمت شان کے موافق الفاظ وعبارات میں اس مفہوم کوباندازاحسن پیش کیا جا سکتا ہے۔نہ صرف ارباب فضل وکمال،بلکہ ہرمومن قابل تکریم ہے۔ لوگ اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے بے ادبوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں،حالاں کہ ان پر سخت شرعی احکام وارد ہیں،اور سنی مسلمانوں کی تذلیل کرتے ہیں،حالاں کہ ان سے محبت و تکریم کا حکم ہے۔
لفظ خطا کے تین معانی کا بیان
مذکورہ بالا تشریح کے مطابق خطا کے تین مفہوم ہوں گے:(1)وہ خطا جومعصیت ہو(2)وہ خطا جوغیر معصیت ہو۔اس پر نہ اجروثواب ہو، نہ ہی گناہ۔(3)وہ خطا جو موجب اجر وثواب ہے،یعنی

اجتہادی خطا
مطالبہ باغ فدک میں خطاکے معنی اول مرادہونے کی کوئی صورت نہیں،کیوں کہ میراث نبوی سے متعلق حدیث نبوی میں بیان کردہ خصوصی حکم سے عدم معرفت،اور قرآن مجید میں بیان کردہ حق میراث کے پیش نظر خاتون جنت حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالبہ حق پر مبنی ہے تو ایسی صورت میں عند الشرع یہ مطالبہ معصیت قرار نہیں پاسکتا۔جب جان بوجھ کرکوئی خلاف شرع مطالبہ ہو،تب وہ مخالفت شرع کے سبب معصیت ہوگا۔
جب حدیث نبوی سن کر حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا کواپنے عدم استحقاق کا علم ہوا،اور آپ نے مطالبہ ترک فرمادیا تو اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ وہ موافق شرع میراث کا مطالبہ فرما رہی تھیں۔
حدیث نبوی سن کر مطالبہ ترک کرنا ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت سیدہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بحکم قرآنی اپنے حق کامطالبہ فرما رہی تھیں۔ جب یہ مطالبہ درحقیقت قرآن مجید کے موافق تھاتو اس مطالبہ کے معصیت ہونے کی کوئی راہ موجود نہیں۔ اگران کو حدیث نبوی پہلے معلوم ہوتی تومطالبہ ہی نہ فرماتیں، جیسے مطالبہ کے بعدحدیث نبوی معلوم ہونے پرمطالبہ بالکل ترک فرمادیا۔دوبارہ کبھی مطالبہ نہ فرمائیں۔
یہاں لفظ خطا کے بیان کردہ تین معانی میں سے پہلا معنی معصیت ہے،اور مطالبہ باغ فدک پر یہ معنی کسی طورپر منطبق نہیں ہوتاتو مطالبہ باغ فدک میں یہ معنی مراد نہیں ہو سکتا۔ اب معنی دوم ومعنی سوم باقی رہے۔
معنی سوم کی نسبت ارباب فضل وکمال کی طرف نہ شرعاً معیوب ہے،نہ ہی عرفاً معیوب ہے۔معنی سوم کی تعبیر کے واسطے خطائے اجتہادی کا لفظ مروج ہے اورارباب فضل وکمال کے لیے خطائے اجتہادی کا لفظ استعمال کر نا معیوب نہیں سمجھا جاتا،بلکہ خطائے اجتہادی موجب اجر وثواب اور مظہر فضل وکمال ہے،کیوں کہ نہ کوئی عام آدمی اجتہاد کرسکتا ہے،اور نہ اس سے خطائے اجتہادی ہوسکتی ہے۔اجتہاد کوئی مجتہد ہی کرسکتا ہے۔
خطائے اجتہادی اعلیٰ درجہ کے اہل فضل وکمال یعنی مجتہدین کے ساتھ خاص ہے۔اس خطا پر بھی انہیں ایک اجر وثواب ہے،کیوں کہ انہوں نے شرعی دلیل میں غوروفکر کیااور حق کو پانے کی کوشش کی،گر چہ حق تک رسائی نہ ہوسکی،لیکن ان کی محنت ومشقت،شرعی دلائل میں غوروفکر اور اصابت حق کی نیت صالح وقصد محمود پر انہیں اجر ملتا ہے۔ اگر حق کو پالیتے تو دوثواب انہیں ملتا۔ اس کا ذکر حدیث مصطفوی میں موجود ہے۔
مسئلہ حاضرہ میں متکلم معنی سوم مراد لیتاہے،اور فریق دوم معنی سوم مراد لینے پراعتراض کرتا ہے،اور کہتا ہے کہ معنی سوم مراد نہیں ہو سکتا۔اب ایک معنی باقی رہا،یعنی معنی دوم۔ یہاں معنی اول مراد نہیں ہوسکتا، او ر فریق دوم معنی سوم مراد لینے کا منکر ہے تو اگر معنی اول اورمعنی سوم مراد نہ ہوتو صرف معنی دوم کی گنجائش باقی رہی۔
معنی دوم مراد لینے پر متکلم پر اعتراض ہوگا،یا نہیں۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ہندوپاک میں شور محشر اسی معنی دوم نے کھڑا کردیا ہے۔ اسی شور وغو غا نے اہل حق کو بھی اس جانب متوجہ کردیا۔
معنی دوم کی نسبت ارباب فضل وکمال کی طرف
مفہوم دوم حقیقت میں غیرمعصیت ہے،لیکن اس کی ظاہری شکل وصورت معصیت کی طرح ہے،اسی لیے عرف میں ارباب فضل وکمال کی طرف اس کی نسبت کو غیرمناسب سمجھا جاتا ہے۔چوں کہ عرف میں ارباب فضل کی طرف لفظ خطا کی نسبت کو معیوب سمجھا جاتا ہے تواب یہ دیکھنا ہوگا کہ اس عرف کے اعتبارسے ارباب فضل کے لیے لفظ خطا کا استعمال از روئے شرع خلاف اولیٰ وغیرہ ہوگا یا نہیں؟ اس کی تحقیق کرنی ہوگی۔
قبل تحقیق کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔آج جو صورت لفظ خطا کی ہے،وہی حال لفظ باغی کا ہے۔
صحابی رسول حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ برحق شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخالفت کی،لیکن وہاں اجتہادی خطا کے سبب مخالفت تھی۔ وہاں گناہ کی کوئی صورت نہیں ہے۔
اس مخالفت کوپہلے بغاوت کہا جاتا تھا،لیکن بعدمیں علمائے اسلام اس مخالفت کوبغاوت سے تعبیر کرنا ناپسند فرمانے لگے،کیوں کہ بعدمیں بغاوت کا مشہور مفہوم الگ ہوگیا،اسی لیے اب ان نفوس قدسیہ کو باغی نہیں کہا جائے گا۔اب باغی کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنا ہوگا۔صدر الشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃوالرضوان نے صحابی رسول حضرت طلحہ وحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ذکرکرتے ہوئے تحریر فرمایا:۔
۔”عرف شرع میں بغاوت مطلقاً مقابلہ امام برحق کوکہتے ہیں۔عناداً ہو،خواہ اجتہاداً۔ ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ گروہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حسب اصطلاح شرع اطلاق فۂ باغیہ آیا ہے،مگر اب کہ باغی بمعنی مفسد ومعاند وسرکش ہوگیا اور دشنام سمجھا جاتا ہے۔ اب کسی صحابی پر اس کا اطلاق جائز نہیں“۔(بہارشریعت حصہ اول ص ۰۶۲-مجلس المدینۃ العلمیہ)۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ باغی کی طرح ارباب فضل وکمال کے لیے لفظ خطا کابھی استعمال نہیں ہونا چاہئے،گرچہ لفظ خطا سے وہاں گناہ مراد نہ ہو،بلکہ بھول چوک،سہوونسیان وغیرہ مراد ہو۔ فقہا ئے اسلام اس بارے میں حکم شرعی کی وضاحت فرمائیں،تاکہ عوامی شوروہنگامے بند ہوں۔دوملک ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔
ہندوپاک میں اردو زبان مروج ہے۔اردو کے مشہور لغت فیروز اللغات میں لفظ خطا کے متعددمعانی مرقوم ہیں۔یہ مشترک لفظ ہے۔ اردوزبان میں غلطی، سہو،بھول، چوک کے معنی میں اس کا استعمال مشہور ہے۔
لفظ خطا کے معانی:(۱)قصور،گناہ، جرم، تقصیر (۲)غلطی،سہو، بھول،چوک۔(فیروز اللغات:فصل خ ط)۔
جب فریق دوم خطائے اجتہادی مراد لینے پر معترض ہے توخطائے اجتہادی مراد نہ لیا جائے،توبھی حدیث نبوی کی عدم معرفت، اور آیت قرآنیہ میں استحقاق وراثت کے اعتبار سے حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا باغ فدک کا مطالبہ حقیقت میں عدم معصیت ہے، گرچہ ظاہری اعتبار سے وہ تسامح ہو۔
لفظ خطا سے احتراز کے طورپرلفظ تسامح استعمال ہوا۔اس سے بہتر کوئی لفظ ہوتو اسی کا استعمال کیا جائے۔ یہاں مسئلہ کی تفہیم مقصود اصلی ہے،نہ کہ کسی خاص لفظ کا استعمال۔لفظ تسامح اہل فضل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
آمدم برسر مطلب
اگر ارباب فضل وکمال کے حق میں معنی دوم کی تعبیر کے لیے لفظ خطا کا استعمال عرف میں معیوب سمجھا جاتا ہو تو لفظ میں تبدیلی کر کے شایان شان لفظ کا استعمال ہو،مثلاً تسامح،یا اس سے بھی بہتر تعبیر تلاش کی جائے۔
چوں کہ یہاں لفظ خطا کے معنی میں عدم معصیت کا مفہوم ملحوظ ہے تو متکلم نے اسی عدم معصیت کی وضاحت کے واسطے بعد میں کہا:”بے خطابے گناہ سیدہ طاہرہ“۔اس سے متکلم کا اعتقادحق بھی واضح ہوگیا۔
خطاکا یہ معنی دوم عند الشرع معصیت نہیں ہے تو اگر متکلم نے اس کی نسبت کسی معظم دینی کی طرف کردی تو ان کی طرف معصیت کی نسبت کرنا ثابت نہیں ہوا،بلکہ عدم معصیت کی نسبت کرنا ثابت ہوا،کیوں اس کے مفہوم میں عدم معصیت ملحوظ ہے، اوراہل فضل کی طرف عدم معصیت کی نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
لفظ خطا کے استعمال پر صرف عرفی طورپر اعتراض ہوگا،شرعی طورپرنہیں۔چوں کہ یہ لفظ عرفاً معیوب سمجھا گیا تو متکلم نے اس کوبدل کر اس طرح کر دیا: ”سیدہ معصومہ نہیں اور ابوبکر ظالم نہیں“۔
اب عرفی طورپر بھی اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہی۔اگر بیان اول میں لفظ خطا کے استعمال کے سبب کسی کی دل آزاری ہوئی ہوتو ان سے معذرت خواہی مناسب ہے،لیکن یہاں کوئی شرعی حکم وارد نہیں ہوتا۔

مفہوم سوم یعنی خطائے اجتہادی مراد لینا صحیح ہے یانہیں؟
۔ (2)فریق دوم لفظ خطا سے خطائے اجتہادی مراد لینے پرمعترض ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ سیاق کلام یعنی قرینہ لفظ خطا کے مفہوم کو متعین کررہا ہے،اورماقبل کلام میں جس خطا کا ذکر ہے،وہ خطائے اجتہادی نہیں، بلکہ وہ خطا ہے،جس سے غیرمعصوم محفوظین محفوظ قراردئیے جاتے ہیں،جب کہ خطائے اجتہادی کا صدورمحفوظین سے بھی ہوتا ہے۔(ملخصا)۔
جواب :دراصل لفظ خطا کسی مفہوم میں متعین ومفسر نہیں۔اس میں متعددمعانی کا احتمال موجودہے۔
اس کے معنی کے تعین کے لیے قرینہ یا بیان متکلم کی ضرورت درپیش ہوگی۔فریق دوم نے قرینہ کا لحاظ کیا اورفریق اول نے اپنا بیان قطعی جاری کیا۔ یہاں متکلم نے صریح ومفسر لفظوں میں باربار کہا کہ خطا سے ہماری مراد خطائے اجتہادی ہے۔ ان کا یہ بیان،بیان قطعی بالمعنی الاخص ہے۔

اس کے بالمقابل قرینہ کو ترجیح حاصل نہیں ہو سکتی،گرچہ یہاں قرینہ کو قطعی بالمعنی الاعم بھی مان لیا جائے۔
بیان کبھی ظنی،کبھی قطعی بالمعنی الاعم اور کبھی قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے۔ قرینہ کبھی ظنی اور کبھی قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔ قرینہ قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا،کیوں کہ وہاں یہ احتمال بعید موجود ہوتاہے کہ متکلم کی مراد وہ نہ ہوجو قرینہ سے ظاہر وثابت ہورہاہے۔مسئلہ حاضرہ میں سیاق کلام قرینہ ہے اور خطائے اجتہادی مراد ہونا متکلم کے بیان قطعی بالمعنی الاخص سے ثابت ہوا۔
جب بیان قطعی بالمعنی الاخص اورقرینہ میں تعارض ہوتو بیان قطعی بالمعنی الاخص کوترجیح حاصل ہوگی،کیوں کہ قرینہ کبھی ظنی اور کبھی قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔اگر یہاں قرینہ کو قطعی بالمعنی الاعم بھی مان لیا جائے توبھی وہ بیان قطعی بالمعنی الاخص کے مقابلے میں ترجیح نہیں پا سکے گا،کیوں کہ قطعی بالمعنی الاعم اورقطعی بالمعنی الاخص میں تعارض ہو تو قطعی بالمعنی الاخص کو ترجیح حاصل ہوگی۔
اصول فقہ کی اصطلاح کے اعتبارسے اس طرح کہا جائے گا کہ مفسر کے مقابلے میں نص موجودہوتو مفسرکوترجیح ہوگی،کیوں کہ نص میں جانب مخالف کا احتمال بعیدہوتا ہے،اور مفسر میں جانب مخالف کا احتمال بعید بھی نہیں ہوتا،لہٰذا مفسرراجح قرارپائے گا۔
قرینہ اوربیان قطعی کی تفصیلی بحث ”البرکات النبویہ“رسالہ دہم (باب سوم:فصل چہارم)میں ہے۔
ضروریات دین اورتکفیرکلامی کے باب میں بیان قطعی بالمعنی الاخص کا اعتبار ہوگا۔قرینہ قطعی الاخص نہیں ہوتا،اس لیے ضروریات دین اور باب تکفیرکلامی میں قرینہ کا اعتبار نہیں ہوگا۔
قال الغزالی(450-505):}۔

قال تعالٰی:(ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ)وَاَرَادَ بِہٖ القُراٰنَ-وَعَلٰی ہٰذَا فَبَیَانُ الشَّیءِ قَد یکون بعباراتٍ وُضِعَت بِالاِصطِلَاحِ-فَہِیَ بَیَانٌ فِی حَقِّ مَن تَقَدَّمَت مَعرَفَتُہٗ بِوَجہِ المُوَاضَعَۃِ-وَقَد یکون بالفعل والاشارۃ والرَّمزِ-اِذِ الکُلُّ دَلِیلٌ وَمُبَیِّنٌ-وَلٰکِن صَارَ فِی عُرفِ المُتَکَلِّمِینَ مَخصُوصًا بالدلالۃ بالقول-فَیُقَال لہ:”بیان حسن“ اَی کَلَامٌ حَسَنٌ رَشِیقُ الدَّلَالَۃِ عَلَی المَقَاصِدِ{(المستصفٰی للغزالی جلداول ص 366)۔


توضیح :منقولہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ متکلمین کے یہاں صرف قول کے ذریعہ بیان واقع ہوتا ہے۔فعل،اشارہ،رمزوغیرہ قرینہ ہیں۔قرینہ قطعی بھی ہوتو قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا اور ضروریات دین اورتکفیر کلامی کے باب میں قطعی بالمعنی الاخص دلیل کی ضرورت ہوتی ہے،پس ضروریات دین اور تکفیرکلامی کے باب میں قرینہ کے ذریعہ معنی کا تعین نہیں ہوسکتا۔

قرینہ کبھی ظنی ہوتا ہے اورکبھی قطعی بالمعنی الاعم۔جب قرینہ قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا توضروریات دین اور تکفیر کلامی کے باب میں قرینہ کااعتبار نہیں ہوگا۔ اسی طرح قرینہ کبھی بیان قطعی بالمعنی الاخص کے بالمقابل راجح قرارنہیں پائے گا،مثلاً قطعی قرینہ بتارہا ہے کہ یہاں متکلم کی مراد کفری معنی ہے، لیکن بیان قطعی بالمعنی الاخص اس کے خلاف ہے تو بیان قطعی کا لحاظ ہوگا۔

اشخاص اربعہ کا کفری کلام، کفری معنی میں متعین اور مفسر یعنی کفری معنی میں قطعی بالمعنی الاخص ہے، اسی لیے تاویل قبول نہیں کی گئی۔ وہاں کسی قرینہ کے سبب کفری معنی کا تعین نہیں ہواتھا،بلکہ خود کلام کفریہ معنی میں مفسر ومتعین تھا۔مفسرکلام میں قرینہ یا بیان کا لحاظ نہیں ہوتا، بلکہ کلام کے متعین معنی کے اعتبارسے حکم جاری ہوتا ہے۔ محتمل کلام میں قرینہ یا بیان کا لحاظ ہوتا ہے۔
مسئلہ حاضرہ میں لفظ خطا متعددمعانی کا احتمال رکھتاہے۔جب فریق دوم نے بھی معنی کی وضاحت کے لیے قرینہ اور سیاق کلام کو دلیل بنایا تو اس کے یہاں بھی لفظ خطا محتمل ہے۔اب متکلم کا قطعی بالمعنی الاخص بیان آگیا تو قرینہ کا لحاظ نہیں ہوگا،بلکہ بیان قطعی بالمعنی الاخص کے سبب لفظ خطا سے خطائے اجتہادی مراد ہوگی۔

اگر خطائے اجتہادی،لفظ خطا کا معنی نہ ہوتی،تب متکلم کے بیان قطعی بالمعنی الاخص کا لحاظ نہیں ہوتا،کیوں وہ ایسے معنی کا بیان ہوجاتا کہ لفظ جس کا احتمال ہی نہیں رکھتا،لیکن یہاں لفظ خطا کا ایک معنی خطائے اجتہادی ہے تو متکلم کے بیان قطعی بالمعنی الاخص سے وہ معنی متعین ہوجائے گا اورقرینہ کی دلالت کا لحاظ نہیں ہوگا،کیوں کہ بیان قطعی بالمعنی الاخص کے بالمقابل قرینہ مرجوح ہوگا،گرچہ قرینہ قطعی بالمعنی الاعم بھی ہو۔
فریق دوم کی تعبیر بہت عمدہ
فریق دوم نے کہا کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالبہ قرآن مجید کے موافق تھا،لہٰذا وہ حق پر تھیں اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منع فرمانا حدیث کے موافق تھا،لہٰذا وہ بھی حق پرتھے،یعنی اس باب میں دونوں حق پر تھے۔ یہ عمدہ تعبیر ہے اورعوامی خلفشار سے بچنے کی عمدہ راہ ہے۔ دراصل عہد حاضر میں ہمیں حقانیت کے ساتھ ان راہوں کی تلاش اور ان تعبیرات کالحاظ کرنا ہوگا،جس سے بدمذہبیت فنا ہوسکے۔ کئی سالوں سے رافضیت کا قدم اہل سنت وجماعت کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ہمیں متحدومتفق ہوکر اس پربند باندھنا چاہئے۔
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::وآلہ العظیم


طارق انور مصباحی
ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)۔

قسط دوم کے لیے کلک کریں 

اس کو بھی پڑھیں : ہم خود کو سنبھالیں اور قوم کی صالح رہ نمائی کریں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن