از: طارق انورمصباحی= ایڈیٹر: ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی) ڈاکٹر آصف جلالی اور اصحاب جلال و کمال قسط دوم قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
ڈاکٹر آصف جلالی اور اصحاب جلال و کمال
امکان وقوعی کی بحث
فریق دوم نے متکلم کے امکان وقوعی والی بحث پر جو کلام کیا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب متکلم نے عہد ماضی میں تمام ممکن امور کے لیے امکان وقوعی،بلکہ ضرورت ودوام ثابت مان لیا تو تمام غیرمعصومین کے لیے تمام گناہ اور کفر و ارتداد بھی ممکن ہے تو اس اعتبار سے عہد ماضی کے تمام غیرمعصومین کا معاذاللہ کفروشرک وغیرہ میں مبتلا ہونا ثابت ہوگیا اورایسا قول کرنا مفضی الی الکفر ہے،لہٰذا متکلم پر کفرلزومی کاحکم عائد ہوتا ہے۔ (ملخصا)
جواب : صفات الٰہیہ اورصفات بندگان الٰہی میں فرق
۔(1)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے امکان کی جوبحث فرمائی۔ (فتاویٰ رضویہ:ج15ص 345-346) وہ بحث اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق ہے۔ وہ بحث بندوں کی صفات پر منطبق نہیں ہوسکتی۔ صفات الٰہیہ اور بندوں کی صفات میں بہت فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات،صفات کمالیہ ہیں۔(فتاویٰ رضویہ:ج15ص349)تمام صفات بالفعل حاصل ہیں،بلکہ واجب بالذات ہیں۔(فتاویٰ رضویہ:15ص348)۔
اگر کسی صفت کے بارے میں کہا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے،لیکن حاصل نہیں ہے تواس سے لازم آئے گا کہ کوئی صفت کمال رب تعالیٰ سے متخلف ہے،اوراس کے علاوہ مزیددیگرنقص لازم آئیں گے۔ (فتاویٰ رضویہ:15ص 348)۔
اسی طرح اگرکوئی صفت بالفعل حاصل نہ ہوتوجب حاصل ہوگی، تب ذات الٰہی میں تغیرپایا جائے گا اور ذات الٰہی میں تغیرمحال ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:15ص347)۔
دیوبندیوں کے عقیدۂ امکان کذب کارد کرتے ہوئے امام احمد رضانے فرمایا کہ بقول دیابنہ جب کذب اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن ہے تو یہ ثابت بھی ہوگا،بلکہ بالفعل اوردائمی وضروری طورپرثابت ہوگا،کیوں کہ اگرکلام لفظی میں کذب ہوتو کلام نفسی میں بھی کذب ہوگا اور جب کلام نفسی میں کذب ہوتووہ بالفعل،دائمی اورضروری ہو گا۔
کلام لفظی میں اسی وقت کذب کا ثبوت ہوگا،جب کلام نفسی میں کذب کا ثبوت ہو،کیوں کہ کلام نفسی مدلول ہے اورکلام لفظی دال ہے۔دال اسی کوبیان کرتا ہے جوکچھ مدلول میں ہوتا ہے۔
اگر کلا م نفسی میں کذب نہ ہو تو کلام لفظی میں کذب کا ہونا محال ہوگا،کیوں کہ کلام لفظی دال ہے اور کلام نفسی مدلول ہے۔کلام لفظی میں کذب پایا جائے اور کلام نفسی میں نہ پایا جائے تو مدلول کے وجود کے بغیر دال کا وجود پایا گیا اوریہ محال ہے۔جیسے آئینہ کے سامنے کوئی جسم ہوتو آئینہ میں اس کا عکس آئے گا۔جب آئینہ کے بالمقابل کوئی جسم نہ ہو تو آئینہ میں کوئی عکس نہیں آئے گا۔وہی حال دال اورمدلول کا ہے۔
اسی طرح دال کاذب ہونا،اورمدلول کاصادق ہونا بھی محال ہے۔کیوں کہ دال اسی کو بیان کرتا ہے جو مدلول میں ہو۔جب مدلول میں کذب نہیں تودال میں بھی کذب نہیں ہوگا۔
الحاصل جب کلام لفظی میں کذب ہو تو کلام نفسی میں بھی کذب ثابت ہوگیا اور کلام نفسی،ازلی،ابدی، واجب للذات اور مستحیل التجددہے۔
کلام نفسی میں بالفرض اگر کچھ کذب ہے (یہ مفہوم فعلیت ہے)تو ہمیشہ کذب ہی رہے گا (یہ مفہوم دوام ہے) اور وجوبی طورپر وہ کذب رہے گا (یہ مفہوم ضرورت ہے)۔مستحیل التجددہونے کا یہی مفہوم ہے۔
پس کلام لفظی میں امکان کذب ماننے سے(معاذ اللہ عن ذلک) رب کوبالفعل کاذب ماننا اور کلام نفسی میں کذب کو بالفعل ماننا اور اس کذب کادائمی وضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ سب الزامی مباحث ہیں جوکسی باطل کے بطلان کوواضح کرنے کولکھ دئیے جاتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ امکان کذب کے دھبہ سے بھی پاک ہے۔(اعاذنا اللہ تعالیٰ من سوء الاعتقاد)۔
امام اہل سنت وجماعت نے فتاویٰ رضویہ (ج15ص345-346)میں جورقم فرمایا۔اسی کی یہ توضیح ہے۔ بندوں کی صفات کے احکام الگ ہیں۔ بندوں کے لیے کوئی صفت ممکن بالذات ہوتو نہ اس سے امکان وقوعی ثابت ہوتا ہے،نہ ہی فعلیت،نہ ہی دوام،نہ ہی ضرورت۔نہ ہی وسعت،نہ ہی تکلیف،نہ ہی قدرت۔
بندگان الٰہی کی صفات کے احکام بالکل جدا گانہ ہیں۔ صفات الٰہیہ کے احکام اپنے باب تک محدود ہیں۔
بندوں کی صفات اور امکان وقوعی
۔ (2)انسانوں کی دوقسمیں ہیں:(1)غیرمعصوم (2) معصوم۔
انسان سے کسی گناہ کا صدور محال بالذات یا واجب بالذات نہیں توممکن بالذات ہوگا۔تینوں صورتوں کا عدم نہیں ہوسکتا، یعنی نہ ممکن بالذات ہو، نہ محال بالذات،نہ واجب بالذات۔جب ثابت ہوگیا کہ انسان سے گناہ کا صدور ممکن بالذات ہے تو وہ ممکن الوقوع ہے یا نہیں؟اگر وہاں استحالہ بالغیر ہو تو امکان ذاتی ثابت ہوگا، لیکن استحالہ بالغیر کے سبب امکان وقوعی ثابت نہیں ہوگا۔
امکان وقوعی کا عدم اس وقت تک ہوگا،جب تک کہ استحالہ بالغیر باقی رہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ استحالہ بالغیر دائمی ہو،اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ استحالہ بالغیر عارضی اورغیر دائمی ہو۔
انسان معصوم کے لیے عصمت الٰہی ثابت ہے اوریہ دائمی طورپر ثابت ہے تو انسان معصوم سے گناہ کے صدور کا امکان وقوعی دائمی طورپر معدوم ومسلوب ہوگا۔
انسان غیرمعصوم سے گناہ کے صدور کا امکان ذاتی اور امکان وقوعی دونوں ثابت ہیں اور جب استحالہ عارضی بھی ثابت نہ ہوتو امکان وقوعی دوام،ضرورت اور فعلیت کے ساتھ ثابت ہوگا،لیکن امکان وقوعی کے دائمی، ضروری اور بالفعل ہونے سے کسی گناہ کا صدور ثابت نہیں ہوجاتا۔
میرے پاس سوروپے ہیں اور میں مٹھائی کی دوکان میں موجود ہوں،اور مٹھائی خریدنے سے کوئی امر مانع نہیں تو میں مٹھائی خرید نے پر بالفعل قادر ہوں۔یہاں قدرت کا امکان ذاتی اور امکان وقوعی فعلیت کی صفت کے ساتھ موجود ہے تو اس سے مٹھائی خرید نا ثابت نہیں ہوجاتا۔جب خریدوں گا،تب خریدنا ثابت ہوگا۔
بندگان الٰہی احکام خداوندی کے مکلف ہیں تو مکلف ہونے کی تین شرطیں ہیں۔ جب بندہ کسی امر کا مکلف ہے تووہ امر ممکن بالذات ہو، ممکن الوقوع بھی ہو، اور بندہ کی وسعت وقوت میں بھی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:}لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا{(سورہ بقرہ:آیت286)۔
اس فعل کے صدور کے لیے مزید ایک چوتھا امر چاہئے،جس کو استطاعت کہا جاتا ہے۔ علم کلام کی کتابوں میں استطاعت مع الفعل کی بحث دیکھ لیں۔ کسی امر کے ممکن الوقوع ہونے سے اس کا صدور کیوں کر ہوگا۔
فعل کے ممکن الوقوع ہونے کے ساتھ فاعل کے اندر وسعت (سلامت اسباب وآلات)اور استطاعت (حقیقت قدرت جس سے فعل واقع ہو)چاہئے۔
الحاصل کوئی گناہ ممکن بالذات ہو، یا ممکن وقوعی۔گناہ کے امکان ذاتی یا امکان وقوعی کے ثبوت سے کوئی حکم بندوں پرعائد نہیں ہو گا۔ جب بندوں سے کسی گناہ کا صدور ہوگا،تب حکم عائد ہوگا۔
فعل کے صدور کے باوجود بعض شرطیں ایسی ہیں کہ ان کے فقدان وقت حکم صادر نہیں ہوگا،مثلاً مکرہ ومجبور نے توحید الٰہی کا زبان سے انکار کردیا اوردل میں تصدیق باقی ہے تواس پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔
لزوم کفر کب ثابت ہوتاہے؟
۔(3) متکلم نے یہ کہا ہے کہ عہدماضی میں کسی امر کا امکان تھا تو عہدماضی اورزمان حال میں اس کاامکان وقوعی تسلیم کیا جائے گا اور مستقبل کا حکم الگ ہے۔فریق دوم نے امکان وقوعی سے اس امر کا صدور وظہور مراد لے لیا،حالاں کہ امکان وقوعی تسلیم کرنے سے فعل کا صدور ثابت نہیں ہوتا۔
اگربالفرض امکان وقوعی سے فعل کا صدور مراد لیاجائے تو فریق دوم کے استدلال کے اعتبار سے غیر معصومین کے لیے جہاں کفر وارتداد کا ثبوت ہو جائے گا،وہیں قطبیت وغوثیت اورولایت ومعرفت اور ایمان وعمل صالح کا بھی ثبوت ہوجائے گا اوریہ معلوم ہے کہ ایمان وکفر دومتضاد امر ہیں،دونوں ایک ہی انسان کے لیے بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے تو یہاں اجتماع متضادین کے محال ہونے کے سبب کسی ایک ہی کا ثبوت ہوگا۔
اب ان دونوں متضادین میں سے کس کا ثبوت مانا جائے؟کسی کو ترجیح دینے کا کوئی سبب ظاہر نہیں۔
جب دونوں امور متعارض ہیں اور سبب ترجیح موجود نہیں تو جس اعتبارسے ثبوت مانا گیا تھا،اس اعتبارسے دونوں کو ساقط الاعتبار ماننا ہوگا، اور پھر صدور حقیقی کے اعتبار سے کلام ہوگا کہ جس نے حقیقت میں ایمان لایا،وہ مومن ہے اورجس سے حقیقی طورپر کفر صادر ہوا،وہ کافر ہے۔
واضح رہے کہ یہ محض ایک بحث ہے،ورنہ متکلم نے نہ تمام غیرمعصومین کا ذکر کیا ہے،نہ ہی غیرمعصومین کے ایمان وکفر کی بات کی ہے۔فریق دوم نے بھی اقرارکیا کہ متکلم نے یہ سب کہا نہیں ہے،لیکن اس کے قول سے ایسا لازم آتا ہے، اوریہ حوالہ دیا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے بھی دیابنہ کے امکان کذب کے قول اوراللہ تعالیٰ کے ہرشئ پر قادر ہونے کے قول پر بحث کرتے ہوئے لازم آنے والے بہت سے امور کا ذکر کیا ہے،تاکہ قول کی شدت کو واضح کیا جاسکے۔
لیکن فریق دوم نے یہ نہیں دیکھا کہ دیابنہ نے جوکچھ کہا تھا،صرف اسی پراعلیٰ حضرت نے حکم شرعی بیان فرمایا،گرچہ بہت سے لازم آنے والے مفاسد کا ذکر فرمایا،جب کہ یہاں فریق دوم نے ان امور پر حکم شرعی کی بنیادرکھی،اورمتکلم پر کفرلزومی کا حکم عائد کر دیا، جن کو متکلم نے بیان ہی نہ کیا تھا، نہ صراحتاً،نہ کنایۃً۔گرچہ فریق دوم کی فہم ثاقب کے مطابق وہ امورثابت ہورہے ہوں۔
جب کسی کلام سے کسی ضروری دینی کا التزامی انکار ثابت ہوتا ہے تو اس کے قائل پرکفرکلامی کا حکم عائدہوتا ہے،اور کسی کلام سے ضروری دینی کا لزومی انکار ثابت ہوتا ہے تواس کے قائل پرکفر فقہی کا حکم ہوتا ہے۔
متکلم کے کلام میں نہ کسی ضروری دینی کا انکار ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے کسی امر کا انکار ہے،پھر متکلم پرحکم کفر کیسے؟
نہ متکلم کے کلام سے التزامی طورپرمومنین کا کافرہونا ثابت ہوتا ہے،نہ لزومی طورپر،پھر متکلم پر حکم کفرکیسے؟
فریق دوم نے لزوم کفر کی جوتوضیح کی،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متکلم نے ایک قول کیا،جس سے ایک دوسراقول لازم آیا، اب اس دوسرے قول کے اعتبارسے متکلم پر کفر لزومی کا حکم عائد ہوا۔متکلم نے کہا کہ عہد ماضی میں جس امر کاامکان ذاتی ہو، اس کا امکان وقوعی ثابت ہوتا ہے۔
اس پرفریق دوم کے نقدوجرح کا خلاصہ یہ ہے کہ: عہد ماضی میں تمام غیر معصومین سے کفر وشرک کا صدور ممکن تھا اور جب صدور ممکن تھا تو بقول متکلم اس کفر وشرک کا صدورثابت ہوا،جب سب کا کفروشرک ثابت ہوا،تو اس سے عہد ماضی کے مومنین کا کافر ہونا ثابت ہوا،اور جس قول سے مومنین کا کافرہونا لازم آئے،وہ قول خود کفریہ ہوگا اور قائل پر لزومی کفر کا حکم ہو گا۔
فریق دوم کویہ یاد رکھنا چاہئے کہ متکلم نے جو کلام کہا ہے۔خوداس کلام سے لزومی یا التزامی کفر ثابت ہوگا،تب متکلم کوئی حکم شرعی وارد ہو گا۔متکلم کے قول سے کوئی دوسرا قول لازم آئے،پھر اس قول لازم سے کفر لازم آئے تو قول لازم سے یہ کفر لازم آیا۔متکلم کے قول سے کفرلازم نہ آیا۔جب متکلم کے کلام سے کفر لازم نہ آیا تو اس پر حکم کفر کیوں کرہوگا؟
کیا امکان ذاتی امکان وقوعی کو مستلزم ہے؟
متکلم کا قول کہ عہد ماضی میں امکان ذاتی کے ثبوت سے امکان وقوعی کا ثبوت ہوجاتا ہے۔
یہ اسی وقت ہوگا،جب استحالہ بالغیر معدوم ہو،ورنہ ممکن بالذات کے لیے جس عہدمیں بھی امتناع بالغیر ثابت ہوگا، اس عہدمیں امکان وقوعی ثابت نہیں ہوگا۔
حاشیہ کلنبوی کی عبارت:}فالامکان الوقوعی انما یستلزم وقوع الطرف الممکن بالفعل بالقیاس الی الزمان الماضی اوالحال،لا الاستقبال{ (حاشیۃ الکلنبوی علیٰ شرح الدوانی علی العضدیہ)
منقولہ بالا عبارت میں طرف ممکن سے طرف وجود مراد لینا محل نظر ہے۔طرف عدم بھی مراد ہوسکتی ہے۔
ممکن بالذات میں طرف وجود اور طرف عدم دونوں طرف ممکن بالذات ہوتی ہے۔اب اگر طرف عدم ممکن الوقوع ہو،اور طرف وجود ممکن بالذات اورمحال بالغیر ہو،تو یہاں طرف عدم ممکن الوقوع بالفعل ہوگی، کیوں کہ طرف وجود محال بالغیر ہونے کے سبب معدوم ہے تو اگر طرف عدم بھی معدوم ہوتو وجود وعدم دونوں کا معدوم ہونا لازم آئے گا،اور ارتفاع نقیضین لازم آئے گا،پس جب اس ممکن کا وجود نہیں تو عدم ثابت ہوگا، پھریہاں طرف ممکن الوقوع سے طرف وجود مراد لیناکیوں کر صحیح ہوگا؟
ہاں،جب ممکن کی جانب وجود وجانب عدم میں سے کسی جانب استحالہ بالغیر نہ ہوتودونوں جانب ممکن الوقوع ہوں گی،لیکن محض ممکن الوقوع ہونے کے سبب کسی ایک جانب کا بالفعل ہونا ثابت نہ ہوگا،گرچہ کوئی ایک جانب وہاں بالفعل ثابت ہوگی،ورنہ ارتفاع نقیضین لازم آئے گا، مگر جانب ثابت کے ساتھ جانب غیر ثابت کا امکان وقوعی ثابت ہوگا،کیوں کہ جانب غیر ثابت میں استحالہ بالغیر نہیں ہے۔ہاں،دونوں جانب،یعنی جانب وجو د وجانب عدم دونوں بیک وقت موجود بالفعل یعنی بالفعل ممکن الوقوع نہیں ہوگی۔
سوال: جب کسی کے لیے جانب ایمان ثابت ہے تو جانب ایمان کے ثبوت کے وقت جانب کفر کا ثبوت محال ہے،ورنہ اجتماع نقیضین لازم آئے گا،تو ثبوت ایمان کے وقت ثبوت کفر ممتنع بالغیر ہونا چاہئے۔
جواب: جانب ایمان کے ثبوت کے وقت جانب کفر کا ممکن الوقوع ہونا ثابت ہے،ممکن الوقوع بالفعل ہونا ثابت نہیں۔ممکن الوقوع بالفعل ہونا اسی وقت ثابت ہوگا،جب ایمان کا زوال ہوجائے،نیز ایمان ممکن الزوال ہے۔ جب ایک طرف ممکن الزوال ہوگی تو طرف ثانی ممکن الوجود اور ممکن الوقوع ہوگی،گرچہ ممکن الوجود بالفعل یعنی بالفعل موجود نہ ہو۔ارباب منطق توجہ فرمائیں اور متکلم بھی نظر ثانی فرمائے۔
رب تعالیٰ کے وعدۂ عصمت کے سبب معصوم کے لیے گناہ محال بالغیر ہوگا،ورنہ کذب کلام الٰہی لازم آئے گا،اوریہ محال بالذات ہے۔ محفوظ عن الخطا کے لیے حفاظت ثابت ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوگاکہ گناہ کا صدور نہیں ہو گا،یعنی گناہ ممکن بالذات اورممکن الوقوع ہوگا، لیکن ممکن الوقوع بالفعل نہیں ہوگا،کیوں کہ وہ حفاظت الٰہی میں ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ عصمت وحفاظت کے مفہوم شرعی پر غور وفکر کے بعد حسب ضرورت مزید تفصیل رقم کی جا سکتی ہے۔یہاں محض منطقی الفاظ واصطلاحات کے اعتبارسے کلام ہے:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
مناظر ہ اور افتا کے احکام
متکلم کا بیان اول جس میں لفظ خطا کا ذکر ہے۔وہ ایک رافضیہ عورت کی بدگوئی کے جواب میں تھا،اس لیے اس کا شمار مناظرانہ مباحث میں ہوگا،اور ارباب فقہ وافتا پر واضح ہے کہ مناظرانہ مباحث کے وہ احکام نہیں جو عام مباحث اورعام کلمات کے احکام ہیں۔بحث ومناظرہ میں بیان کردہ الزامی جوابات کو اعتقادپر محمول نہیں کیا جاتا۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے رسالہ ”القمع المبین فی آمال المکذبین“(فتاویٰ رضویہ جلد 15ص 470تا472-ص511-جامعہ نظامیہ لاہور)کے اخیر میں مناظرانہ مباحث کے احکام مرقوم ہیں۔ اسی طرح فتاویٰ رضویہ جلد15ص 514 تا519میں بحث ومناظرہ کے احکام مرقوم ہیں۔مناظرہ اور افتا کے احکام جداگانہ ہیں۔مسئلہ حاضرہ میں اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا گیا۔
ہاں، جب مناظر سے ان کا اعتقاد دریافت کیاجائے تو اعتقاد صحیح کوبیان کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح مناظرا تی مباحث میں از روئے شرع قابل گرفت جملوں کا علم وادراک ہونے پر اس سے توبہ ورجوع لازم ہے۔ خواہ خودسے اس جانب متوجہ ہو،یاکسی کے توجہ دلانے پر اپنی خطا کا علم ہو۔چوں کہ مسئلہ حاضرہ میں متکلم کے جملوں میں تاویل صحیح کی گنجائش موجود ہے،اس لیے نہ فقہا کے اصول کے اعتبارسے کوئی حکم عائد ہوتاہے،نہ ہی متکلمین کے اصول کے اعتبار سے۔ لفظ خطاکے معانی اور امکان وقوعی کا مفہوم ماقبل میں مرقوم ہوا۔
متکلم کا حکم شرعی
متکلم لزوم کفر یا بے ادبی کے جرم سے بری ہے۔بے ادبی کا جرم اس لیے ثابت نہیں کہ متکلم نے بیان اول میں خطا سے اجتہادی خطا مراد لی ہے اور ارباب فضل وکمال کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت بے ادبی نہیں۔
لزوم کفر اس لیے ثابت نہیں کہ متکلم کے کلام سے مومنین کا کافر ہونا لازم نہیں آتا،بلکہ کسی ایسے قول سے مومنین کا کفر لازم آتا ہے جو متکلم نے کہا نہیں ہے:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
مندرجہ ذیل سوالات کوحل فرمائیں،تاکہ مستقبل میں انتشارواختلاف ختم ہوسکے:۔
۔(1)غیرمعصومین کے لیے بوجہ ضرورت لفظ خطا کے مطلق استعمال کا حکم شرعی کیا ہے؟
۔(2)غیرمعصومین کی طرف بوجہ ضرورت صدور گناہ کی نسبت کا کیا حکم ہے؟
۔(3)آداب وتوقیر کے باب میں ”مومن بہ“اور غیر مومن بہ کا حکم یکساں ہے یا مختلف؟
۔”مومن بہ“وہ ہے جس پر ایمان لاکر آدمی مومن ہوتا ہے۔ان میں ذات وصفات الٰہی،کتب خداوندی، حضرات انبیاوملائکہ علیہم الصلوٰۃوالسلام، فرائض اربعہ،قیامت وامورآخرت وجملہ ضروریات دین شامل ہیں۔
۔(4)کیا حضرات صحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی ”مومن بہ“ہیں؟
ارشادالٰہی ہے:}اٰمنت باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ{(سورہ بقرہ)
۔(5)”مومن بہ“کی بے ادبی کفر ہے،کیوں کہ وہ تصدیق وایمان کے منافی ہے۔
غیر مومن بہ یعنی مومنین کی توہین وبے ادبی حرام وناجائزہے یا کفر ہے؟
واضح رہے کہ مومنین کی بے ادبی ایمان یا خداورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی نسبت سے کی جائے تو اس کا حکم بدل جائے گا،مثلاً زید کو کسی ذاتی دشمنی کے سبب قتل کرنا حرام ہوگا،لیکن زید کو اس لیے قتل کیا کہ وہ مسلمان ہے تو محض ایمان واسلام کے سبب زیدکوقتل کرنا کفر ہوگا۔کسی دوسرے سبب سے قتل مومن کفر نہیں۔
مومن کے حکم میں دوحیثیت کا لحاظ ہوسکتا ہے،یعنی ایک اس کی ذاتی حیثیت کے لحاظ سے حکم شرعی،اور ایک نسبتی حیثیت یعنی ایمان واسلام کی نسبت سے خاص شرعی حکم۔ نسبت کے سبب وارد ہونے والا حکم سخت ہوگا۔
کسی صحابی کی ذاتی حیثیت کے اعتبار سے حکم شرعی اورپھر صحبت نبوی کے سبب خاص حکم شرعی، مثلاً کسی صحابی کی توہین کرنے کا حکم الگ ہوگا،اور صحابی رسول ہونے کی حیثیت سے ان کی توہین کا حکم الگ ہوگا۔
”مومن بہ“کے حکم میں دوحیثیت ملحوظ نہیں ہوگی،مثلاً ایک حکم نبی ہونے کے اعتبارسے ہو،اورایک حکم محض انسان ہونے کے اعتبارسے ہو۔وہاں ان کی حیثیت خاصہ ہی کا لحاظ ہوگا،اور حکم میں سختی ہوگی۔ان کی بے ادبی،ایذا،بدگوئی،ان پرظلم،ان کا قتل وغیرہ تمام امورمیں ان کو نبی کی حیثیت سے ملحوظ کرکے مجرم پرحکم عائدہوگا۔
(6)حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعدتمام بنی آدم میں سب سے افضل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ان کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ان کے بعد سب سے افضل حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ توہین وبے ادبی سے بڑا جرم قتل ہے۔سوال یہ ہے کہ قاتلین خلیفہ سوم، مومن ہیں یاکافر؟ اہل سنت وجماعت سے خارج ہیں یا داخل ہیں اور محض گنہ گار ومرتکب حرام؟
(7)بعض قول کے مطابق خواص بشر خواص ملائکہ وعوام ملائکہ سے افضل ہیں اور عوام بشر عوام ملائکہ سے افضل ہیں،یعنی حضرات انبیاومرسلین علیہم الصلوٰۃوالسلام،مرسلین ملائکہ علیہم السلام ودیگر ملائکہ سے افضل ہیں، اور غیر نبی بشر،غیرمرسل ملائکہ سے افضل ہیں،اس اعتبارسے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم عام ملائکہ (غیرمرسل ملائکہ)سے افضل ہوئے۔اس افضلیت کے باوجودکسی صحابی یا صدیق وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی توہین کفر نہیں اور فرشتہ کی توہین کفر ہو گی، کیوں کہ وہ ”مومن بہ“ہیں۔مومن بہ اور مومن کے احکام میں فرق ہے۔
مذکورہ بالا سوالات اس لیے مرقوم ہوئے کہ فکر روافض اہل سنت وجماعت میں داخل ہوتی جارہی ہے،اور فکر رافضیت کی بنیاد محبت میں غلواور اتباع نفس پر ہے۔اسی غلو و نفس پرستی کے سبب وہ کفر وگمرہی میں مبتلا ہوئے۔
یہ لوگ حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے بعض نفوس قدسیہ کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام پر فضیلت دینے لگے۔نفس پرستی ایسی عام کہ شرعی احکام کابھی کچھ پاس ولحاظ ہی نہیں۔
مذکورہ بالا سوالوں کے جواب میں ارباب فضل وکمال کے جو مراتب مذہب اسلام میں مقررہیں،ان سے آشنائی ہوگی،اور اتباع نفس سے نجات کی راہیں معلوم ہوں گی۔ ہم محکوم ہیں۔اپنی مرضی اور اپنی پسند کے اعتبار سے کوئی حکم کسی کے لیے متعین نہیں کرسکتے۔ جو حکم اسلام نے دیا ہے،اسی پر کاربند رہنا ہمارے لیے لازم ہے۔
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::وآلہ العظیم
طارق انور مصباحی
ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)۔