از: محمد غلام اشرف قربانی کے سماجی اور معاشرتی فوائد
قربانی کے سماجی اور معاشرتی فوائد
دین اسلام ایک عالمگیر دین ہے ، دین اسلام ہمیشہ رفاہی اور فلاحی کاموں کی دعوت دیتاہے ، اسلام میں جتنی بھی عبادات ہیں ، خواں وہ جسمانی عبادات ہوں یا مالی عبادات ہر ایک دینی و دنیاوی فوائد سے بھر پور ہے . ہم زکوٰۃ کی بات کریں یا صدقہ فطر کی ہر ایک عبادت میں فلاح انسانی کے عنصر موجود ہیں۔ قربانی بھی دین اسلام کی عبادات مالیہ میں سے ایک اہم عبادت ہے ، جو ہر مالک نصاب پر واجب اور ضروری ہے ۔
قربانی کا سادہ سا مفہوم ہے کہ مخصوص جانور کو مخصوص دنوں میں اللہ کے نام پر قربان کردینا ، قربانی کرنا ہمارے اجداد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سنت ہے ، جس کو شریعت محمدی میں بھی رواں رکھا گیا ہے ، اللہ کا احسان عظیم ہے کہ ہم مخصوص جانور کو اپنی جان کے بدلے قربان کرتے ہیں ، ورنہ اگر حضرت اسماعیل کے گردن پر چھری چل جاتی تو آج ہر ایک مسلمان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی قربانی پیش کرے۔ اسی مفہوم کو ادا کرتے ہوئے رب العزت نے قران مجید میں ارشاد فرمایا ” اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقے میں دے کر اسے بچا لیا ۔ اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھے ۔ (۔ الصافات : 27 ، آیت 106,107)۔
قربانی کرنے کا حکم قرآن پاک میں بھی آیا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ” تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ ( الکوثر : 108, آیت ، 2) ۔
قربانی حقیقت میں گوشت کھانے اور جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے کیوں کہ دن میں ہزاروں جانور ذبح ہوتے ہیں قصائی باڑوں میں اور دیگر جگہوں میں لیکن ہم اسے قربانی نہیں کہہ سکتے ، قربانی نام ہے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنے کا ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نا ہی ہمارے جانور کا خون ، اگر اللہ کے بارگاہ میں
پہنچتا ہے تو تقوی پہنچتا ہے، دل کی نیت پہنچتی ہے۔ اللہ تعالی قران مجید میں
ارشاد فرماتا ہے ” اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے ” ( حج : 22، آیت ، 27) ۔
قربانی کے فضائل و مناقب میں بے شمار احادیث کریمہ موجود ہیں، جس سے قربانی کی اہمیت و فضیلت ظاہر ہوتی ہے ، یہاں دو چند احادیث پیش خدمت ہے ۔
حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے ” ( ترمذی شریف: ح ١٤٩٨)۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا ” انسان قربانی کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو ، یہ قربانی قیامت میں اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور قربانی کا خون زمیں پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو جاتا ہے ۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کرو ۔ ( ترمذی شریف: ح ، ١٤٩٨) ۔
قربانی کے دینی فوائد تو بے شمار ہیں،یہ دینی فوائد کے ساتھ ساتھ دنیاوی فوائد سے بھی خالی نہیں ، کیوں کہ اسلام کا کوئی بھی فعل یا عمل دینی و دنیاوی فوائد سے خالی نہیں ہے ۔
قربانی میں اخوت اور بھائی چارگی
قربانی ہمیں بھائی چارگی اور اخوت کا پیغام دیتی ہے ، قربانی ایک دوست کو دوسرے دوست سے ، ایک رشتے دار کو دوسرے رشتے دار سے ، ایک امیر کو ایک غریب سے ملانے کا سبب ہے ، کیوں بعض دفعہ مصروفیات کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے
لیکن جونہی قربانی کا وقت ہوتا ہے ، اور اپنے اپنے جانوروں کو راہ خدا میں ذبح کر دیتے ہیں ، تو وہی دوست اپنے دوست کے یہاں گوشت لے کر پہنچ جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کے اندر اخوت اور بھائی چارگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور رشتے داروں سے بھی صلہ رحمی کرنے کا موقع ملتا ہے ۔
فضائی ماحول کو خوش گوار بنانا
قربانی کرنے کے جہاں کئی فائدے نظر آتے ہیں وہی ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قربانی کے ذریعے فضائی آلودگی اور پلوشن میں کمی واقع ہوتی ہے ، اگر قربانی میں جانور ذبح نہ ہو اور تمام جانور موجود ہو تو ظاہر سی بات گوبر اور لیڈ میں اضافہ ہوگا جس سے فضائی ماحول بھی متاثر ہوگا اور سانس لینے میں بھی دقت آئے گی ۔
معیشت کی بحالی : قربانی جہاں قرب خدا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ، قربانی جہاں بھوکوں کا پیٹ بھرنے کا سبب ہے ، قربانی سے جہاں اخروی سعادت نصیب ہوتا ہے ، وہی قربانی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ معاشی بحران سے نکالنے کا ایک سبب بھی ہے ، قربانی سے ہزاروں کارو بار میں ترقی ہوتی ہے ، قربانی کے جانور کے چمڑے سے ہزاروں چیزیں بنائی جاتی ہے ، جس سے معیشت کو تقویت ملتی ہے ، مارکیٹ میں خرید و فروخت میں اضافہ ہوتا ہے جو معیشت کی بحالی کا سبب ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی کئی فوائد ہیں ، اسلام کا کوئی فعل عبث اور بے کار نہیں صرف سمجھنے کی ضرورت ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی اہمیت و افادیت سے آگاہ فرمایۓ، اور خوش دلی کے ساتھ قربانی کرنے کا شوق و جذبہ پیدا فرمائے ۔
محمد غلام اشرف
ریسرچ اسکالر، البرکات علی گڑھ۔