حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور اعلان توحید
تحریر: محمد دانش رضا منظری پیلی بھیت، یوپی
کیا نمرود نے بابل میں جب دعویٰ خدائی کا
جہاں میں عام شیوہ ہو گیا جب خود ستائی کا
اندھیرا ہی اندھیرا کفرنےہر سمت پھیلایا
تو ابراہیم کو اللہ نے معبوث فرمایا۔
مٹا ڈالے بتوں کو توڑ کر اوہام مرسل نے
دیا بندوں کو پھر اللہ کا پیغام مرسل نے۔
کیاشیطان کورسوا عدوئےجان و دیں کہہ کر
کیا سینوں کوروشن لَااُ حِبُ الٰافِلِین کہہ کر
مگر نمرود کو بھائیں نہ یہ باتیں بھلائی کی۔
کہ مسند چھوڑنی پڑتی تھی کافر کو خدائی کی
ہوا یہ بندہ شیطاں خلیل اللہ کا دشمن
چراغ حق بجھانے کو کیا آتشکدہ روشن۔
خلیل اللہ کو اس نے بھڑکتی نار میں ڈالا
مگر اللہ نے نمرود کا منہ کر دیا کالا
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسے نبی ہےکہ تمام ادیان اور مذاہب کے پیروکار اپ کی فضیلت کا اعتراف کرتے تھے،اور مشرکین مکہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ اپ کی اولاد سے ہیں اور خدام حرم ہیں۔یہود و نصار بھی اپ کی فضیلت کا اعتراف کرتے تھے اور اپ کی اولاد سے ہونے کا شرف ظاہر کرتےتھے (تبیان القرآن ج 1 ص520)۔
ولادت و سعادت
حضرت ابراہیم علیہِ السلام تارخ ابن ناخور کے فرزند ہیں۔اپ کا نام ابراہیم اور لقب ابوالضیفان ہے،اپ کی پیدائش طوفان نوح سے سترہ سو نو سال بعد اور حضرت عیسی علیہِ السلام سے تقریبا دو ہزار تین سو سال پیشتر شہر بابل کے قریب قصبہ کوفی میں ہوئی یا امواز کے علاقہ مقام سوس میں ہوئی۔( تفسیر نعیمی:ج 1،ص 620)۔
مفسرین کا بیان ہے کہ نمردو بن کنعان بڑا جابر بادشاہ تھا سب سے پہلے اسی نے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا ۔ اس سے پہلے کسی بادشاہ نے تاج نہیں پہنا تھا، یہ لوگوں سے جبرا اپنی پرستش کراتا تھا کاہن اور نجومی اس کے دربار میں بکثرت اس کے مقرب تھے۔نمرود نے ایک رات یہ خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اور اس کی روشنی میں چاند و سورج اور سارے ستارے بے نور ہوکر رہ گئے۔
کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ ایک فرزند ایسا ہوگا جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہوگا، یہ سن کر نمرود بے حد پریشان اور متفکر رہنے لگا اور اس نے یہ حکم دے دیا کہ میرے شہر میں جو بچہ پیدا ہو وہ قتل کردیا جائے،اور مرد عورتوں سے علاحدہ رہیں۔
چناں چہ ہزاروں بچے قتل کردئیے گئے مگر تقدیرات الہیہ کو کون ٹال سکتا ہے۔اسی دوران حضرت ابراہیم علیہِ السلام پیدا ہوگئے۔ بادشاہ کے خوف سے آپ کی والدہ نے شہر سے دور ایک غار میں آپ کو چھپا دیا اسی غار میں چھپ کر آپ کی والدہ ہر روز دودھ پلا دیا کرتیں تھیں۔
بعض مفسرین کا قول ہے کہ سات برس کی عمر تک اور بعضوں نے تحریر فرمایا کہ سترہ برس تک آپ اسی غار میں پرورش پاتے رہے(عجائب القرآن: ص95، بحوالہ روح البیان: ج3،ص59۔)۔
اعلان توحید
اس زمانے میں عام طور پر لوگ ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ایک رات آپ علیہ السلام نے زہرہ یا مشتری ستارہ کو دیکھا تو قوم کو توحید کی دعوت دینے کے لیے اپ نے نہایت نفیس اور دل نشین انداز میں لوگوں کے سامنے اس طرح تقریر کہ اے لوگوں! کیا ستارہ میرا رب ہے ؟ پھر جب وہ ستارہ ڈوب گیا تو آپ نے فرمایا میں ڈوب نے والوں سے محبت نہیں کرتا (رب نہیں مانتا) پھر اس کے بعد جب چمکتا چاند نکلا تو آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے؟
پھرجب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں سے ہوتا۔پھر جب چمکتے دمکتے سورج کو دیکھا تو آپ نے فرمایا یہ تو ان سب سے بڑا ہے، کیا یہ میرا رب ہے؟۔
پھر جب یہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اے میری قوم میں ان تمام چیزوں سے بیزار ہوں جن کو تم خدا کا شریک ٹھراتے ہوں۔ میں نے اپنی ہستی کو اس ذات کی طرف متوجہ کرلیاہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، میں صرف اسی ذات واحد کا عابد و پجاری ہوں اور شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔پھر ان کی قوم ان سے جھگڑا کرنے لگی تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے خدا کے بارے میں جھگڑتے ہو اس خدا نے تو مجھے ہدایت دی ہے اور میں تمھارے جھوٹے ان
معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ سن لو ! بغیر میرے رب کے حکم کے تم لوگ اور تمہارے دیوتا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے میرا رب ہر چیز کو جانتا ہے کیا تم لوگ میری نصیحت نہیں مانوگے؟ اس واقعہ کو مختصر مگر بہت جامع الفاظ میں قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا (مفہوم)پھر جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا تو ایک تارا دیکھا، فرمایا : کیا اسے میرا رب ٹھہراتے ہو؟۔
پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوتا۔ پھر جب سورج کو چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: ۔
اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔ ہو۔(پ 7، الانعام:76,77,78,)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن ہی سے بہت عقلمند اور ہونہار تھے اپنی قوم سے توحید الٰہی پر مناظرہ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک بار آپ نے بتوں کو بھی توڑ دیا نمرود نے آپ کو آگ میں ڈالا مگر رب نے آپ کو صحیح و سالم رکھا تب آپ بحکم الٰہی اپنا وطن ترک کرکے حراں وہاں سے شام اور فلسطین میں ہجرت کر گئے اور فلسطین ہی کو اپنا قیام بنایا آپ نے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں جانی اور مالی بہت سی قربانیاں پیش کیں۔
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں
حضرت حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے سامنے حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر دلیل پیش کی تھی،اس کا نام نمرود بن کنعان تھا۔یہ زمین پر پہلا بادشاہ تھا،اس نے بابل میں قلعہ بنایا تھا اور یہ پہلا بادشاہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر دلیل قائم ہونے کے بعد زمین پر لاجواب اور حیران ہوا تھا (تبیان القرآن ج 2 ص 939تا940)۔
خلیل کے معنی اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کے خلیل اللہ ہونے کی وجوہات
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 لکھتے ہیں لفظ خلیل خلی سے بناہے،خلی کا معنی ہے کسی چیز کو دو چیزوں میں درمیان رکھنا خلہ بالکسر کے معنی ہیں تلوار کی میان یا غلاف کیونکہ تلوار اس کے وسط میں ہوتی ہے، خلہ بالفتح کا معنی اختلال اور پریشانی ہے اور اس کی تفسیر احتیاج کے ساتھ کی گئی ہے، خلہ بالضم کے معنی ہیں محبت کیوں کہ محبت نفس میں سرایت کرجاتی ہے اور اس کے وسط میں ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم کو اپنا خلیل بنایا ہے کیوں کہ وہ ہر حال میں صرف اللہ تعالیٰ کے محتاج تھے، یا اس لیے خلیل فرمایا کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام اللّٰہ تبارک و تعالی سے شدت کے ساتھ محبت کرتے تھے یا اللّٰہ آپ سے بہت محبت کرتا تھا۔
حضرت ابرہیم کی اللّٰہ تعالیٰ سے محبت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر کام ہر بات کرنا اور ہر حال میں اس راضی رہنا اور اللّٰہ تعالیٰ کی آپ سے محبت کا معنی ہے، آپ پر اکرام و احسان کرنا اور دنیا و آخرت میں آپ کی ثنا و جمیل کرنا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے ان کی والدہ ہاجرہ قبطیہ تھیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو شیر خوارگی میں مکہ لے آئے یہ اپنے بھائی اسحاق علیہ السلام سے چودہ سال بڑے تھے
جس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وفات ہوئی تو ان کی عمر ایک سو سینتیس سال تھی، حضرت ابراہیم کی وفات کے وقت ان کی عمرڈ نواسی سال تھی،حضرت اسماعیل ہی ذبیح اللہ ہیں(تبیان القرآن: ج1 ص552 تا553) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ ہم مسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے جو مسلمانوں کو ایثار و قربانی توکل علی اللّٰہ، مصائب و تکالیف میں صبر و استقامت کا عظیم جذبہ وافر مقدار میں فراہم کرتی ہے
تحریر:۔۔۔ محمد دانش رضا منظری
استاذ: جامعہ احسن البرکات للولی،فتح پور، یوپی الہند
رابطہ نمبر 9410610814