تحریر محمد مجیب احمد فیضی, بلرام پوری کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
دنیا جانتی ہے کہ وطن عزیز , مادر وطن ہندوستان میں ایک چینی وبا کے باعث جب سے لاک ڈاؤن کا سخت نفاذ ہوا تب سے لے کر اب تک بھارت کا تقریبا ہر فرد باالخصوص(مزدور طبقہ) بھوک مری مفلسی ,بے بسی و بے کسی اور فاقہ کشی جیسی چیزوں سے جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔
اور یہ کسی بھی ذی فہم سے پوشیدہ نہیں,جس کی وجہ سے ملک کی معیشت دن بہ دن ابتر سے بدتر ہو تی چلی جا رہی ہے۔جس کو لے کر تقریبا ملک کا ہر شہری کافی بے چین اور پریشان ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر اس تناظر میں مزدور طبقہ کے احوال کا جائزہ لیا جائے تو کف افسوس ملتے ہوئے آپ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ بھارت کے مزدوروں کی حالت نہ گفتہ بہ ہونے کے ساتھ ناقابل بیان ہے۔
ہندوستان کا مزدور ایک ایک دانہ کے لیے ترسا ہے, اورترس رہا ہے۔قریب قریب ہر آدمی معیشت کو لےکر پریشان ہے۔لیکن اس لاک۔۔۔میں کون کس سے اپنی روداد غم سنانے جائے۔ کس کے سامنے اپنی اور اپنی معاشی پر یشانیوں بے روزگاریوں کی راز سر بستہ فاش کرے۔
سنایا اس کو جاتا ہے جو ایک طرح سے آپ کی پریشانی کے ٹالنے کا قوی سبب بنے اس کو ٹالنے کی بھر پور کوشش کرے۔ ورنہ پھر سنانے سے فائدہ ہی کیا ? اپنے ہی ملک کا مزدور طبقہ ,کرونا وائرس جیسی مہلک وبا سے کم اور بھوک مری سے کہیں زیادہ خوف وہراس میں مبتلا ہونے کے ساتھ ڈرا اور سہما ہوا ہے۔
اوپر سے زعفرانی حکومت کی بے حسی و بے توجہی اپنے عروج پر ہے جنھیں دیکھ کر رونا آتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ لوگ دیس واسیوں کو جیسی اصول پر پولیس کے ذریعہ ہر آنے جانے والے شہری کے لیے دردسر بن کر عمل کروانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور جب کہ خود زعفرانی حکومت کے کار کنندگان بعض مقام پر اس اصول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
زعفرانی حکومت کے کار کنندگان کی اٹانگ پٹانگ اور غیر درست حرکتوں کو دیکھ کر ہر ذی فہم ملکی ناگرک جناب “غالب” کا یہ شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کرونا کے نام پر کچھ لوگ سیاست کے توے پر اپنی حرام کمائی کی روٹی سینکتے ہیں۔ کسی بھی ہندوستانی کو کرونا سے انکار تو نہیں البتہ اب اتنا یقین بھی نہیں رہا جتنا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی نصرت و حمایت کرنے والی گودی میڈیا نے مشہور کر رکھا۔
یقین مانیں روزانہ کرونا بڑھوتری کو لے کر اکثر دل میں خیال آتا ہے کہ اگر چین وسکون کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو نیوز ہی سننا بند کردیں۔ جب کہ بھارتی میڈیا کو لوکتنتر کا چوتھا ستون قرار ریا دیا گیا ہے جس کا کام دیس کی صحیح صحیح باتوں کو ملکی شہریوں تک پہونچانا ہے نہ کہ وضع کے خلاف کام کرنا ہے۔
اس مفاد پرست, احسان فراموش اور خود پرست حکومت کی حرکتیں دیکھ کر ایسا لگتا ہےکہ اس کا ٹارگیٹ فقط مسلم سماج کے لوگ ہیں۔یہ مسلمانوں کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی اس کے سارے مصنوعی اختراعی قوانین فقط مسلمانوں کے ہی لئے ہوتے ہیں۔کرونا کے نام پر نہ جانے کیسی کیسی سیاست کی جارہی ہے جس کا خمیازہ بھارت کے مزدوروں کو بھوگنا پڑتا ہے۔طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کرونا, کرونا کرونا, ہندوستان کے وزیر اعظم جناب “نریندر مودی “سے کہیں زیادہ کرونا مشہور ہوگیا۔
دوستو!!! غور کرنے کا مقام ہے کہ جس دیس میں وباء کو مہرہ بنا کر حکومت کے کار کننند گان استعمال کریں تو سوچئے ملک کا کیا حال ہوگا۔ ان میں رہنے دیس واسی کن حالات سے دو چار ہو رہے ہوں گے۔اور تو اور ہے ملک کی معیشت بد حالی وبے حالی کن مراحلوں سے گزر رہی ہوگی ,کمزور لوگ کن مصائب وآلام سے گزر رہے ہوں گے یہ کسی بھی ذی فہم پر مخفی نہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ “کرونا “نامی چینی مہلک وبااگر کسی مشہور فیلمی ایکٹرز کو ہو جاتا ہے یا بی جے پی نیتاؤں کو ہوجاتا ہے تو “گودی میڈیا” الفاظ کا چناؤ اور اس طرح کی خبروں کی ترتیب میں بڑی محنت کرتی ہے باربار چڑھاؤ اتار کر کے اسی کو خوب خوب دکھا کر واہ واہی کے مزے لوٹتی ہے۔
اور پھر کچھ ہی ایام گزرنے کے بعد شوشل میڈیا پر ان کی صحتیابی کی خبر موصول ہوتی ہے مگر اس ملک کا جب کوئی مسلمان یا دلت اس مہلک میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے صحت یابی کی خبر موصول نہیں ہوتی ہے بلکہ کرونا کو ذمہ دار ٹہرا کر اس کے موت کی خبر وائرل کی جاتی ہے۔
آخر مادر وطن ہندوستان کے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی مسلمانوں,دلتوں کے تئیں اس طرح کی بے رخی اور غیر ذمہ دارانہ حرکت کب تک چلے گی۔ہندوستان کے مسلمانوں کو موجودہ حکومت سے اپنے حقوق مانگنی چاہئیے اور جب تک آپ کا اپنا حق مل نہ جائے حقوق کے لیے انتھک کوشش کرنی چاہئیے۔اور موجودہ بی جے پی حکومت کو بھی چاہئیے کہ ہمیں ہمارا ہر طرح کا حق دے
کیوں کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہر مذہب کے ماننے والے کو اس کے مذہب کے مطابق رہنے سہنے اور جینے کا مکمل حق اور آزادی حاصل ہے اس لئے ہمارا یہ دیس آزاد ہے۔اورحکومت کو کوئی ایسا قدم ہر گز نہیں اٹھانا چاہئیے کہ جس سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے دلوں کو ٹھیس پہونچے یا پھر انہیں تکلیف ہو۔
مولی کی بارگاہ بے کس پناہ میں عرض گزار ہوں کہ اے خالق کائنات پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ باالخصوص ہند کے مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت کر موجودہ ظالم وجابر حکومت کے ظلم واستبداد سے نجات دے۔
آمین یارب العلمین۔بحق
ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال و کمال از قلم طارق انور مصباحی
تحریر: محمد مجیب احمد فیضی, بلرام پوری
سابق استاذ/دارالعلوم فیض الرسول براؤں براؤں شریف
رابطہ نمبر: 8115675932
ای میل : faizimujeeb46@gmail.com
اس کتاب کو خریدنا چاہتے تو کلک کریں
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع