از قلم: ضیاء ضیاء المصطفی نظامی موت العالم موت العالم حامدا ومصلیاومسلما
موت العالم موت العالم
مجھے یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ خلیفۂ حضور مفتی اعظم عالم اشرف الفقہاء حضرت علامہ الحاج مفتی محمد مجیب اشرف برکاتی رضوی اعظمی صاحب قبلہ نوراللہ مرقدہ آج بروز جمعرات 15 ذوالحجہ 1441ھ 6 اگست 2020ء کو صبح 10 بج کر 40 منٹ کو بعمر 85 سال اپنی میعاد زندگی مکمل کرکے رخصت ہوگیے ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔اِنَّ لِلّٰہِ مَاأَخَذَ وَلَہ مَاأَعْطٰی، وَکُلُّ شَیْیٍٔ عِنْدَہ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی۔
اس خبر سے مجھے سخت تکلیف پہونچی حضرت اشرف الفقہاءکی رحلت پوری دنیائے سنیت کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے
حضرت اشرف الفقہاء کی ذاتِ بابرکات اعلیٰ اخلاق و کردار اور اوصاف و محامد سے متصف تھی۔آپ ایک انتہائی مخلص اور فیض بخش عالمِ ربانی تھے۔آپ کے اندر بزرگوں کا ادب و احترام کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اور چھوٹوں پر نہایت شفیق و مہربان تھے جو معاصر علما کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آپ ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے یہی وجہ ہے کہ آپ سے ملاقات کرنے والا آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔آپ کی ہر مجلس علمی، ادبی، اصلاحی اور رشد و ہدایت کی باتوں سے لبریز ہوتی تھی۔آپ احکام شرعیہ کی پاسدار ی و پابندی کو دیگر امور پر مقدم رکھتے تھے۔ دوراندیشی، صبر و تحمل میں اپنی مثال آپ تھے۔رب تعالی نے آپ کو سراپا منکسر المزاج، خلیق اور ملنسار بنایا تھا۔
اشرف الفقہاء کی ولادتِ باسعادت ’’مدینہ العلما‘‘، محلہ کریم الدین پور قصبہ گھوسی، مئو (قدیم ضلع اعظم گڑھ) یوپی کے ایک خوش حال علم دوست گھرانے میں مورخہ ۲؍رمضان المبارک۱۳۵۶ھ/۶؍نومبر۱۹۳۷ء بروز سنیچر کو ہوئی۔آپ کے آبا و اجداد میں بہت سارے علما و حفاظ گذرے ہیں۔
آپ نے ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم خدا رسیدہ بزرگ حضرت میاں جی محمد تقی صاحب علیہ الرحمۃ سے اور اردو، فارسی اور عربی متوسطات کی تعلیم مدرسۂ اہلِ سنت شمس العلوم، گھوسی میں حاصل کی۔
پرائمری درجہ چہارم کام یاب کرنے کے بعد اسی مدرسہ میں فارسی کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا سمیع اللہ صاحب علیہ الرحمۃ(امجد نگر، گھوسی) سے پڑھیں۔اس کے بعد کی فارسی کتابیں تین سال تک حضرت مولانا محمد سعید خاں اعظمی علیہ الرحمہ(فتح پور، گھوسی) سے پڑھیں۔
علاوہ ازیں عربی کی چند ابتدائی کتابیں اپنے عمِ محترم حضرت مولانا شمس الدین صاحب سے اور باقی کتابیں کافیہ تک حضور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ سے پڑھیں۔
۔۱۹۵۱ء میں حضور حافظِ ملّت علیہ الرحمۃ کے حکم و ایما پر حضرت شارح بخاری علیہ الرحمۃ دارالعلوم فضلِ رحمانیہ، پچیڑوا، گونڈہ، یوپی تشریف لے گیے۔اپنے استاذِ محترم و مکرم کے ساتھ حضرت اشرف الفقہاصاحب بھی دارالعلوم فضلِ رحمانیہ چلے گیے۔جہاں دوسال رہ کر شرحِ جامی تک کی کتابوں کا درس شارح بخاری علیہ الرحمۃ سے حاصل کیا۔
اس وقت مذکورہ دارالعلوم میں شہزادۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ رضا ء المصطفیٰ امجدی صاحب قبلہ بھی درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے چناں چہ ان سے بھی چند کتابیں پڑھیں۔
۔۱۹۵۳ء میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتیِ اعظم علیہ الرحمۃ کے حکم پر حضرت شارح بخاری علیہ الرحمۃ بریلی شریف تشریف لے گئے۔حضرت مفتی محمد مجیب اشرف صاحب بھی آپ کے ہمراہ بریلی شریف حاضر ہوئے۔یہاں مرکزی ادارہ دارالعلوم مظہرِ اسلام میں درسِ نظامیہ کی تکمیل کے بعد ۱۹۵۷ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔
۔۱۹۵۸ء میں حضرت مفتی صاحب قبلہ پہلی بار ناگ پور حضرت صدر العلما علامہ تحسین رضا خاں صاحب بریلوی علیہ الرحمہ کے ہمرا ہ تشریف لے گیے۔اس وقت حضور صدرالعلما رعلیہ الرحمہ جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور کے مہتمم تھے۔
حضرت مفتی عبدالرشید فتح پوری علیہ الرحمہ نے آپکی کم عمری کی بنا پر آپ کو بجائے جامعہ میں رکھنے کے جامعہ عربیہ اسلامیہ کی شاخ ’’کامٹی‘‘ میں منصبِ صدارت پر مقرر فرمایا۔ یہاں آپ نے عہدۂ صدارت پر فائز رہتے ہوئے تشنگانِ علومِ دینیہ کی سیرابی کرتے رہے۔
چوں کہ کامٹی کے مدرسہ میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہیں تھا اس لیے آپ نے وہاں دوسال تک تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۶۰ء میں استعفیٰ دے دیا اور حضور سیدی مفتیِ اعظم قدس سرہ کی اجازت سے ناگ پور کی کچھی میمن مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے پر مامور ہو گیے۔ابھی چند ماہ بھی نہ گزر ے تھے کہ حضرت مفتی عبدالرشید فتح پوری علیہ الرحمہ کو آپ کی اعلیٰ تدریسی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا
اور آپ نے حضرت مفتی صاحب قبلہ کو جامعہ عربیہ اسلامیہ، ناگ پور سٹی میں نائب شیخ الحدیث کے منصب پر متمکن فرما دیا۔
جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگ پور میں حضرت مفتی صاحب قبلہ نے ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۵ء تک باقاعدہ پوری لگن، محنت اور ذمہ داری کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔تمام طلبہ پر آپ کا علمی رعب اور دبدبہ تھا۔آپ ایک اچھے مدرس اور بہترین منتظم کی حیثیت سے طلبہ، اساتذہ، انتظامیہ کے درمیان بے پناہ مقبول تھے۔
آپ کا عظیم کارنامہ
دارالعلوم امجدیہ کا قیام حضرت مفتی صاحب قبلہ کے اندر قوم و ملت کی فوز و فلاح کی سچی تڑپ اور لگن موجزن تھی ۔آپ کی شخصیت خلوص و للہیت کی آئینہ دار تھی۔جب آپ نے بعض وجوہات کے سبب جامعہ عربیہ اسلامیہ سےعلاحدگی اختیار کرلی تو اسی جذبہ کے پیشِ نظر ۱۹۶۶ء میں ناگ پور کی سرزمین پر حضور مفتیِ اعظم علامہ شاہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اور حضور برہانِ ملت علامہ برہان الحق جبل پوری علیہم الرحمۃ والرضوان کی سرپرستی میں ’’دارالعلوم امجدیہ ‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا۔
اور انتہائی محنت اور جاں فشانی سے اس ادارہ کو پروان چڑھایا۔تعمیری کام کی تکمیل کے بعد آپ اسی دارالعلوم میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ تبلیغی اسفار اور زیادتیِ کار کے سبب آپ کا تدریسی سلسلہ ادھر مستقل جاری نہ رہا۔ اس ادارہ میں مہاراشٹر، ایم۔پی، آندھرا پردیش، کرناٹک، گجرات، یو۔پی، کشمیر، بہار کے سیکڑوں طلبہ اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔
امجدی مسجد کا قیام ناگ پور کے محلہ شانتی نگر میں آپ نے ۱۹۸۵ء میں ’’امجدی مسجد ‘‘ کی بنیا د رکھی یہ مسجد ناگ پور کی خوب صورت اور بڑی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے۔
دارالعلوم انوارِ رضا نوساری کا قیام
نوساری، گجرات جہاں سنیت کا نام لینا بھی جرم تھا وہاں حضرت مفتی صاحب نے ۱۹۸۸ء میں ’’دارالعلوم انوارِ رضا ‘‘ کی بنیاد رکھی جو ریاستِ گجرات کی ایک اچھی اور معیاری درس گاہ ہے۔جس کی خدمات سے پورا علاقہ مستفیض ہو رہا ہے۔
حضرت اشرف الفقہاء فصیح اللسان خطیب،مایۂ ناز ادیب،معیاری منصف اور بلند پایہ انشاء پرداز شاعربھی تھے۔
آپ کی تصانیف حسبِ ذیل ہیں
۔(1)تحسین العیادۃ(بیمارپُرسی کی خوبیاں ) (2)حضور مفتیِ اعظم پیکرِ استقامت و کرامت(3)خطباتِ کولمبو: سری لنکا کے تبلیغی دورے میں ہوئے خطبات کامجموعہ۔ (4)ارشادالمرشد یعنی بیعت کی حقیقت۔ (5)مسائلِ سجدۂ سہو:مطبوعہ۔ (6)سجدۂ سہو کے مختلف اہم اور ضروری مسائل پر مبنی معلومات افزا رسالہ۔ (7)المرویات الرضویہ فی الاحادیث النبویہ: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی تصانیفِ مبارکہ میں روایت فرمودہ احادیثِ طیبہ کا عطر مجموعہ جو کہ تقریباً۹۰۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔
۔(8) تنویر العین: انگوٹھا بوسی کا شرعی ثبوت۔ (9)تابشِ انوارِ مفتیِ اعظم (10) تنویر التوقیر ترجمہ الصلاۃ علی البشیر النذیر۔
ان کے علاوہ ہزاروں فتاوے ہیں جو دارالعلوم امجدیہ، ناگپور کے رجسٹر میں محفوظ ہیں۔
اللہ تبارک وتعالٰی حضرت کے درجات کو بلندسے بلند تر فرمائے. ان کی تربت پر رحمت وانوار کی بارش فرمائے اور پس ماندگان کوصبر جمیل اور اجر جزیل عطافرمائے
ربِّ کریم حضرت اشرف الفقہاءصاحب کی وجہ سے جو جماعتی نقصان ہوا اس کی تلافی فرمادے۔ بظاہر ایساہی ہے کہ جو لوگ جارہے ہیں ان کے پیچھے ان کی کمی کو دورکرنے والے لوگ پیدا نہیں ہورہے ہیں, اورقیامت کے آثار ظاہر سے ظاہر تر ہوتے جارہے ہیں مگررب تعالی کے لیے یہ کوئی بعید نہیں کی اس کمی کی تلافی فرمادے – آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
ضیاء المصطفی نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
وچیف ایڈیٹر سہ ماہی پیام نظامی
لہرولی بازارضلع سنت کبیرنگر(بستی)۔
یوپی انڈیا
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
اس کو بھی پڑھیں آہ! موت اس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع