از : عبد القاسم رضوی امجدی بنگلور میں تشدد اور بد امنِی کا ذمہ دار کون
بنگلور میں تشدد اور بد امنِی کا ذمہ دار کون
بعض شر پسند عناصر ذہن رکھنے والے آئے دن سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں، کبھی اسلامی قوانین پر بحث کی کرتے ہیں تو کبھی اسلامی شعار کا مذاق بناتےہیں۔
نہایت ہی افسوس ناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو سب و شتم کے ذریعے اپنے باطل خیالیات کا نشانہ بناتے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ہی ٹھیس نہیں پہنچتی بلکہ مسلمانوں کی حرارت ایمانی کی چنگاری مثلِ شعلہ بھڑکنے لگتی ہے۔
پھر اہل دل و ایمان ہر ممکن کوشش کرکے اپنے صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور قانونی طور پر مدر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر قانون کے وہ کچھ ٹھیکیدار جو اپنے تقرر سے پہلے اپنے کام کو ملک کے بھلائی اور امن کے لیے ایمانداری کے ساتھ نبھانے کی قسم کھاتے ہیں۔
وہی ایسے معاملات میں جہاں مسلمانوں کے بلکہ کائناتِ ارض و سماء کے عظیم رہبر و رہنما کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو وہ اُن اہانت کرنے والوں اور گستاخوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے میں لاپرواہی کا اظہار کرتے ہیں
ابھی حال میں یہی ہوا کہ کانگریس کے ایک ایم ایل اے اکھنڈ سرینیواس کا بھتیجا “نوین” کُچھ عرصے سے مسلمانوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین آمیز تصاویر اور مضامین شائع کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہا تھا
جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنا اور اُن کے غم و غُصّہ کا اُبھرنا فطری بات ہے۔ جب مقامی مسلمانوں نے بڑے ہی پُر امنی کے ساتھ پولیس اسٹیشن میں نوین کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور اسکو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تو پولیس افسروں نے نہایت ہی لا پرواہی کا اظہار کیا اور لوگوں کو ۲ گھنٹہ تک انتظار کرنے کے لئے کہا ۔
اِس وجہ سے پہلے ہی مشتعل ہجوم پولیس اسٹیشن پر جمع ہو گیا اور تناؤ کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اگر پولیس افسران نے ذمہ داری سے کام لیا ہوتا تو اس واقعے سے بچاجاسکتا تھا۔اس سے قبل آ صف نامی نوجوان کے اِسی ایم ایل اے اکھنڈ سرینواس کے بارے میں سماجی ویب سائٹ پر تبصرہ کرنے پر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرنے کے صرف 10 منٹ بعد حکام نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔
لیکن یہاں پر مقامی برادری مشتعل ہونے کے باوجود پولیس کے امتیازی سلوک اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ مظاہرین کے سینے پر پولیس کی فائرنگ کے بعد تین قیمتی جانیں قربان ہوگئی ہیں۔ بنگلور میں تشدد کی ذمّہ داری صرف اور صرف پولیس کی لا پرواہی ہے اور پولیس کی لا پرواہی ہی بنگلور میں بد امنی کا سبب ہے۔
با وجود اِس کے جن علماء اور مسلمانوں نے اُس بد امنی کو پُر سکون کرنے کے لئے جد وجہد کی اُنہیں فسادی کہا جا رہا ہے اور فتنہ انگیزی کے اِلزام میں گرفتار کر لیا گیا یہ قابلِ مذمت ہے۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات امن پسندی کی طرف گامزن ہے اور اُسی کی دعوت دیتے ہیں۔
ارشاد ہے ” الفتنة اكبر من القتل” فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے قتل میں ایک آدمی کا قتل ہوتا ہے لیکن فتنہ جو پھیلتا ہے اُس میں کتنی ہی جانیں جاتی ہیں اور کتنے املاک کا نقصان ہوتا ہے اور کب تک یہ آگ بھڑکتی رہتی ہے اُس کا تصوّر اور انداز بعید از خیال ہے اِس لئے دُنیا کے تمام قوموں کے نزدیک بالخصوص آئین شرع اِسلامی میں ” فِتنہ اندوزی اور فِتنہ پروری ” سنگین جُرم سمجھا گیا ہے ۔اور فِتنہ انگیز طبقات کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے۔
بلکہ اُس کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا ہے ۔لیکن آج ہمارے ملک میں فرقہ پرست اور شر پسند جماعتوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے اِس لئے وہ من مانی اور فِتنہ انگیز حرکتیں کر رہی ہیں پولیس کے کچھ ایسے افسران جو لوگوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاتے ہیں، اُنہیں افسران کی وجہ سے ایسی ناگوار صورتحال پیدا ہوئی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔
حکومتِ ریاستِ کرناٹک سے تمام مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ اصل مجرم “نوین” اور اس کی حمایت کرنے والوں پر توہین رسالت، معاشرے میں نفرت انگیز جرائم، فسادات کو بھڑکانے، اور ملک سب سے بڑی اقلیت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے وغیرہ کے دفعات لگائیں جائیں اور لاپرواہی برتنے والے پولیس افسران کو معطل کر کے اُن کی تفتیش کرکے حراست میں لیے جائے اور جن بے گُناہوںکی گرفتاری ہوئی ہے ان کو فوری طور پر رہا کرکیا جاے
از قلم : عبد القاسم رضوی امجدی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت نوری دارالعلوم نور الاسلام قلم نوری مہاراشٹر
رکن تحریک فروغ اسلام شعبہ نشر واشاعت
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع