از قلم محمد معراج عالم مرکزی بہار کا حالیہ سیلاب اور بی جے پی گورنمنٹ
بہار کا حالیہ سیلاب اور بی جے پی گورنمنٹ
یوں تو صوبہ بہار علمی اعتبار سے بڑا ہی زرخیز اور پھولتا پھلتا علاقہ ہے لیکن دانشوروں کے مطابق مالی اعتبار سے اس کی پسماندگی اور زبوں حالی کی ایک وجہ ہر سال شدید آندھی،طوفان،بارش اور سیلاب کے قہر سے جھوجھنا بھی ہے۔ وہیں سیکنڑوں بستیوں کا طوفان مارتی ندیوں کی چپیٹ میں آکر تباہ و برباد ہونا ہے۔
کیوں کہ یہاں کا سیلاب کوئی نیا مسئلہ نہیں۔یہ تو ہمارے آباء واجداد کے زمانے سے ہی بڑے بڑے زمینداروں کو بے گھر کرتا رہتا ہے، رئیسوں کی شاہانہ زندگی کو جھوپڑ پٹی میں تبدیل کیا ہے اور آج بھی اس کے قہر سے ہزاروں افراد بے گھر ہوتے رہتے ہیں
بستیاں اجڑ جاتی ہیں، بڑے بڑے محلات منہدم ہوتے ہیں، سینکڑوں شاہراہوں میں آمد ورفت موقوف ہوجاتی ہے، فصلیں برباد ہوجاتی ہیں، صنعت وحرفت براۓ نام رہ جاتی ہے، کسی کسی گھر میں مہینوں چولہے روشن نہیں ہوتے، شادی بیاہ کی کئی تقاریب ملتوی ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ تیراکی نہ آنے والے بچوں کا ندی، تالاب وغیرہ میں ڈوب جانے کی وجہ سے سینکڑوں ماؤں کی گود خالی ہوجاتی ہیں۔ لیکن پندرہ سال سے حکومت کی کرسی پر بیٹھی سرکار اس کا دائمی حل نکالنے سے عاجز ہے۔
آئیے پہلے بہار کے حالیہ سیلاب کا جائزہ لیں
راشٹریہ سہارا ممبئی 9 اگست کے مطابق گوپال گنج، چھپڑہ، سیوان اور ہمارا سیمانچل علاقہ حالیہ سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ این ایچ 28 کو چھوڑ کر پوروانچل کے سبھی اسٹیٹ ہائی وے اور لنک روڈ پر گزشتہ ایک ہفتہ سے پانی کی اسٹریم بہ رہی ہے۔ اب تک ڈیڑھ درجن سے زائد سڑکیں پانی کے سیلاب سے برباد ہوچکی ہیں۔
سیوان اسٹیٹ ہائی وے سلیم پور، چھپڑہ اسٹیٹ ہائی وے محمد پور، لکھنپور اسٹیٹ ہائی وے پر پانی کی اسٹریم بہہ رہی ہے ایک درجن سے زائد لنک روڈ منہدم ہوچکے ہیں اور پانی کی وجہ سے آمد ورفت پوری طرح سے ٹھپ ہو چکی ہے۔ جانکاروں کے مطابق نومبر سے قبل ٹوٹی سڑکوں کی مرمت ممکن نہیں ہے۔
مرکزی واٹر کمیشن کی جانب سے ہفتہ کو ندیوں کی یومیہ آبی سطح اور سیلاب کی پیش گوئی کی جاری اعداد وشمار کے مطابق بہار میں بوڑھی، گنڈک اور باغمتی ندی کی آبی سطح چار چار مقام پر گھاگھرا، ادھورا، سموہ، کملہ، بلان اور کوسی دو دو مقام پر خطرے کے نشان سے اوپر ریکارڈ کی گئی ہے۔ نیز محکمہ موسمیات نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 12 اگست تک بہار کے سبھی آبی علاقوں میں بجلی اور گرج کے ساتھ بارش ہونے کی توقع ہے۔
نیوز 24 کے مطابق بہار کے حالیہ سیلاب سے 7.50 ہیکٹیئر زمین کی فصلیں اب تک برباد ہوچکی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اب تک سیلاب کے پانی میں غرق ہونے کی وجہ سے 45 سے 55 اموات ہوچکیں ہیں جبکہ 100 سو سے زائد مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
آخر ان ساری پریشانیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہاں کی سرکار ذمہ دار نہیں؟ کیا سیلاب سے بچنے کے لیے مضبوط بند باندھنا سرکار کا کام نہیں؟ کیا سیلاب کے پانی کو کنٹرول کرنے لیے بڑے سے بڑا ڈیم بنانا گورنمنٹ کا فرض نہیں؟ ۔
جی ہاں!! فرض صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک کے لئے ہمارے سیاسی لیڈران سیلاب کے زمانے میں صرف ایک یادو ہوائی دورے کر لیتے ہیں یا ایک دو بیٹھک ہوجاتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے وزیر اعلی نتیش کمار جی 7 اگست کو مغربی چمپارن ضلع کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا ہوائی سروے کیا ہے نیز ہمارے سیمانچل کے پورنیہ ڈیویزن کے کچھ انومنڈل کا بھی دورہ کیا جس میں سیلاب سے متاثر علاقوں کے لوگوں کو چھ چھ ہزار روپے مالی امداد کرنے کی بات کہی۔
مگر ابھی تک کسی کے کھاتے میں کوئی رقم نہیں آئی ہے۔ لیکن کیا اس کا یہی حل ہے کہ صرف سیلاب کے زمانے میں ایک یا دو ہوائی دورے کر لیے جائیں یا عوام کے کھاتے میں دو چار ہزار روپے بھیج دئے جائیں۔ جی نہیں!! بلکہ گورنمنٹ کو اس کا دائمی حل نکالنا چاہیے تاکہ بہار کی زندگی سال کے بارہ مہینے خوشحالی کے ساتھ گزرسکے اور یہاں کی پسماندگی و زبوں حالی حتی الامکان دور ہو۔ فقط
از قلم : محمد معراج عالم مرکزی (بائسی پورنیہ بہار)۔
ریسرچ اسکالر جامعۃ الرضا
رکن تحریک فروغ اسلام (شعبۂ نشر واشاعت)۔
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع