از قلم محمد مجیب احمد مجیبی اصلاح معاشرہ اور رواداری کی اہمیت
اصلاح معاشرہ اور رواداری کی اہمیت
ویسے تو اس نیل گگن کے نیچے اور اس پرتھوی کے اوپر( یعنی اس فانی اور ہمیشہ نہ رہنے والی دنیا) میں بہت سی قومیں آباد ہیں۔مختلف اقوام ہیں ,مختلف لوگ ہیں۔الگ الگ ان کی فکریں ہے۔ہر کوئی اپنے اپنے مذہب کی تہذیب وتمدن اور ثقافت کی روسے اپنے اپنے معاشرہ میں عدل وانصاف اور مساوات کے قائل اور ایک طرح سے دعویدار نظر آتے ہیں۔
لیکن یہ خصوصی امتیاز اسلام جیسی پوتر مذہب کو حاصل ہے کہ, یہ اس کی اولیں تعلیمات میں سے ہیں کہ, معاشرے میں میزان عدل وانصاف کا قیام اور جور وجبر اور ظلم جیسی ناپاک عناصر کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلامی تعلیمات کا سب س اہم اور نمایاں تعلیم ہے۔
جو غالبا ہر مذہب وملت میں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتا۔جن مذاہب میں معاشرہ میں عدل وانصاف جیسی عمدہ ترین اصول کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ان میں بد امنی پیدا ہوتی ہے۔اس کے بر خلاف جہاں عدل وانصاف کا قیام ہوتا ہے وہاں انصاف,محبت اور اخوت (بھائ چارگی )میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ظلم کا خاتمہ ہوتا ہے اور آپسی محبتوں کو بڑھاوا ملتا ہے۔
چناں چہ اس تناظر میں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان موجود ہے” بے شک میں اخلاق کی خوبیوں کو تمام کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں“اب مذکورہ بالا حدیث مصطفی کی ضوبار کرن میں ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق کا ایک مصداق معاشرے میں عدل قائم کرنا بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈائرکٹ روشنی پانے والے خلفائے راشدین رضی اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عدل وانصاف کے میزان کو برقرار اور قائم کئے رکھا جس کی بنیاد پر ان پاک ادوار میں آج بھی کتب سیر میں جابجا امن وامان دیکھنے کو ملتے ہیں۔آج انہیں پاک نفوس قدسیاں کا عدل وانصاف عالم انسانیت کے لئے ایک ایسا نمونہ ہے جسے فرزندان توحید فراموش نہیں کر سکتے۔
خود میں بہتری پیدا کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز خود کو اچھا اور بہتر بنانا ہے۔نفرتوں کی دیواروں کو منہدم کرنا ہوگا۔چھوٹوں پر شفقت کرنی ہوگی اور بڑوں کا عزت واحترام کے ساتھ ادب کرنا ہوگا۔خود کو مضر اثرات سے دوربھگانا ہوگا۔اس لیے یہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ جب تک آپ خود بہتر نہیں ہوں گے دسروں کو بہتر بنا ہی نہیں سکتے۔
آج اگر ہم میں کا ہر فرد اپنے تئیں خود کو بہتر بنانے میں لگ جائے تو ہمارا برباد اور بگڑا ہوا معاشرہ سدھر جائے گا۔اور خود کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلا زینہ تعلیم ہے بغیر تعلیم کے بہتیروں کوششوں کے باوجود بھی انسان بہت بہتر نہی بن سکتا ۔
کیوں کہ بڑے بڑوں نے علم کو نور اور جہل کو تاریکی سے تشبیہ دی ہے۔پتہ چلا جب علم روشنی ہے اور جہل تاریکہ ہے تو بنی آدم علم کے بغیر صحیح غلط میں باہم امتیاز کیسے کرے گا۔ اگر ہم وطن عزیز ہندوستان کے بچوں کے تعلیم کی بات کریں تو منظر عام پر کچھ تو ایسا آئیں گے, جو بیرون ملک اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے لئے روانہ تو کرتے ہیں۔
لیکن وہ بچے وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔اور کچھ تو ایسے ہیں جن کی سوچ وہی پرانی ہے باپ داداؤں والی ہے۔ دقیاسی نوسی ذہنیت کے مالک ہیں۔ جنہیں تعلیم سے نہ کوئی دل چسپی ہے اور نہ کوئی سروکار۔اور کچھ ایسے تعلیم پسند افراد بھی ہیں جنہیں تعلیم سے بڑی دل چسپی ہے وہ پڑھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں لیکن فقر کی دیوار بیچ میں آجاتی ہے۔ان مجبوروں کے پاس وہ اسباب نہیں ہو تے جس سے وہ اس مقام تک پہونچ سکیں۔
آج ضرورت ہے اپنے قوم کے اپنے معاشرے اپنے سماج کے نوجوانوں کو بیدار کرنے کی ,انہیں جگانے کی, ان کو تعلیم سے جوڑنے کی, ان کے واسطے اسباب مہیا کر نے کی۔کیوں کہ تجربہ شاہد ہے کہ جس معاشرے میں عدل وانصاف, مساوات ,اخوت ومحبت مہنگی ہوجائے اس معاشرہ میں جرائم بد امنی اور بے ایمانی عام بات ہے۔
اور ان سب چیزوں کےلئے فی زماننا تعلیم بہت ضروری امر ہے۔آج ہمارے معاشرے میں شدید اخلاقی گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔کثیر تعداد میں لوگ ادھر ادھر بے راہ روی کے شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔
صدق وکذب کی صحیح تمیز بھول بیٹھے ہیں۔نہ جانے کتنے تو ایسے ملیں گے کہ نیکی ,بدی, حلت, وحرمت سب کچھ بھول بیٹھے ہیں۔آخر اس معاشرتی بگاڑ وفساد کی صحیح وجہ کیا ہے ؟ ہمیں اس کی سدھار کے لئے کئی کئی پہلوؤں پر غور وخوض کرنا ہوگا۔
حیات اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو خریدنے کے لیے کلک کریں
اعلیٰ حضرت قدس سرہ اور اسلامی اخلاق و مساوات اس مضمون کو بھی ضرور پڑھیں
کیا ہم بحیثیت مسلمان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزار رہے ہیں؟ کیاہم صراط مستقیم پر ہیں؟ کیا ہم دوسروں کے لئے ذریعۂ اصلاح بن رہے ہیں؟ کیا ہم گناہوں کے ارتکاب ودیگر فواحشات سے باالکلیہ اجتناب کر رہے ہیں؟کیا ہم محاسبۂ نفس کر رہے ہیں؟
یہ ایسے سوال ہیں جسے ہر مسلمان کو سوچنے اور غور وفکر کرنے پرمجبور ہو جانا چاہئیے۔کیوں کہ اب ہمارا معاشرے کو ظلم وستم, جبر وتشدد, نفرتوں اور تعصبات کے بجائے رواداری, اخوت, محبت, عفودرگزر, صلہ رحمی ,نرم مزاجی, نرم گفتاری, جیسی چیزوں کی اشد ضرورت ہے جو کہ اسلام کی بہترین تعلیمات میں سے ہیں۔
اور یہ سب کرنے کے لیے ہمیں الفت ومحبت کے پاک دامن سے بندھ کر لوگوں کو جوڑنا ہوگا۔بلاشبہ وباالاتفاق اتحاد ویکجہتی وہ انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے جسے ہم زندگی کے اکثر موڑ پر دیکھتے ہیں۔دوسروں کے دکھوں کو ہم کم تو نہیں کر سکتے لیکن بانٹ تو سکتے ہیں۔نفرتوں کی پرانی دیواروں کو ڈھا کر ہم کم ازکم دوسروں کے معاون ومددگار تو بن سکتے ہیں۔دوسروں کے حق میں ہم بہترین جج اور خود کے حق میں ہم بہترین وکیل ہیں۔
ہم دوسروں پر جھٹ سے خود غرضی شر پسندی اور فسادی کا الزام لگاتے ہوئے پھرتے ہیں اور خود کی غلطی پر درجنوں تاویلیں پیش کرکے نکل جاتے ہیں۔اے کاش اتنی ہی کوشش معاشرہ کی فلاح وبہبود میں کرتے تو آج ہمارامعاشرہ اپنے عروج وارتقاء کے مقام سے مستفیض ومستنیر ہوتا۔معاشرے کی اصلاح اور اس کی فلاح کے لئے واحد کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہے دوسروں کو اچھی باتوں اچھے کاموں کی نصیحت اور پھر نصیحت کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا جبکہ ہم عمل کرنا بھول ہی جاتے ہیں کہ عمل قول سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔
رواداری
روادای یہ بھی مکمل ایک عنوان کی حیثیت رکھتا ہے اسلام جیسے پاک اور ستھرا مذہب میں اس کی بڑی اہمیت ہے جو اسلام کے ماننے والوں پر مخفی نہیں۔اس کا مادہ روا “کے ساتھ مربوط ہے۔جس کا مطلب کوئی بھی رویہ, اقدام, کام ,انداز کا قابل قبول, اور قابل تحمل ہونے کے ساتھ قابل برداشت ہونا ہے۔
رواداری ایک انسانی رویہ, انسانی مزاج, اور انسانی لازمہ, انسانی ضرورت, اورانسانی معاشرے میں پائی جانی والی شعوراور اظہار کی شناخت ہے۔حلم اور عفو بھی رواداری کے متصل اور متعلق ہیں۔دوسروں کے لئے اپنے قلوب میں نرم گوشے کا ایک پہلو رکھنا یہ بھی رواداری میں داخل ہے۔
ایسے ہی ناقابل حالات میں قابل قبول رویہ اختیار کرنا یہ بھی رواداری سے الگ نہیں۔اہل اسلام کے لیے رواداری کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا حکم اللہ کی کتاب “سورۂ شوری” “سورہ نحل” “سورہ حجرات “و دیگر آیات میں رہنمائ موجود ہے,جس میں اللہ جل مجدہ الکریم نے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں کے ساتھ نرمی ,حکمت , اور رواداری کی ہدایت فرمائ ہے۔
اس طرح مسلمانوں کے لیے رواداری دین کا حصہ ہے۔جسے ہمیں حکم شرعی ذمہ داری اور دینی ضرورت کے طور پر دیکھنا چاہئیے اور اس پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئیے۔اسلام نے سبھی کو رواداری جیسی عمدہ ےترین اصول کے تحت آزادی دیا ہےاور دیگر مذاہب میں مداخلت یا ان کے ساتھ جبر واکراہ پر مبنی رویے کا حکم نہیں دیتا۔اسی رواداری کو مدنظر رکھتے ہوئے خالق کائنات نے امت مسلمہ کے لیے قدم قدم پر حکمت اور موعظہ کے بہترین اصول کے ذریعہ رہنمائ فرمائ۔
از قلم: محمد مجیب احمد فیضی
سابق استاذ/ دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف
رابطہ نمبر:8115775932
faizimujeeb46@gmail.com
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع