از: علامہ محمد احمد مصباحی اشرف الفقہا مفتی مجیب اشرف رضوی کچھ یادیں
اشرف الفقہا مفتی مجیب اشرف رضوی کچھ یادیں
مفتی مجیب اشرف رضوی اعظمی اپنے دور کے علما، فقہا، خطبا اور مشایخ میں نمایا ں شان کے حامل تھے۔
تعلیم و تدریس سے تا عمر ان کا رشتہ استوار رہا۔ فِقہی مجالس میں شرکت کرتے تو بحثوں کو بہت غور سے سنتے اور اپنی مناسب راے پیش کرتے۔ خَطابت،علمی اور عام فہم ہوتی،زبان کی شیرینی اور حسن تفہیم کی چاشنی دلوں پر گہرا اثر چھوڑتی۔ ان کا حلقۂ بیعت و ارشاد بھی بڑا وسیع تھا، مہاراشٹر، گجرات، کرناٹک وغیرہ صوبوں کے دور دراز خِطّوں تک ان کے مریدین پھیلے ہوئے ہیں، یہ مقامات ان کی خطابت اور اور ارشاد دونوں سے معمور ہیں۔
تقریباً نصف حیات کے بعد ہر سال حج و زیارت کو اپنا معمول بنا رکھا تھا۔ اپنی زندگی میں انھوں نے تیس سے زیادہ حج کیے۔
ان کی انتظامی ہمت اور مہارت یہ ہے کہ انھوں نے ناگپور شہر کے قلب میں دارالعلوم امجدیہ قائم کیا، پروان چڑھایا اور عروج تک پہنچایا۔ جامعہ عربیہ ناگ پور کے زوال کے بعد یہی ادارہ ناگ پور اور کئی صوبوں کی دینی، علمی، ملی ضروریات کا کفیل ہوا، اس کا دینی و علمی فیضان آج بھی جاری ہے۔
اس کی توسیع کرتے ہوئے شہر سے باہر ایک عظیم ادارہ ”الجامعۃ الرضویہ“ کا منصوبہ تیار ہوا تو مفتی مجیب اشرف صاحب اس میں بھی پیش پیش تھے۔ 1996ء میں الجامعۃ الرضویہ کے افتتاح کے موقع پر ناظم ادارہ مفتی غلام محمد رضوی ناگ پوری اور مفتی مجیب اشرف اعظمی نے مجھے دعوت دی تو میں بڑی خوشی سے حاضر ہوا، جشنِ افتتاح میں مختصر خطاب بھی کیا۔ اس وقت تقریباً دو دن میرا قیام مفتی مجیب اشرف صاحب کے مکان ہی پر رہا، انہی کی توسط سے اپنے کچھ پرانے رشتہ داروں سے ملاقات کی، جو محلہ سیفی نگر کے باشندے تھے۔ اور اب بھی وہی رہتے ہیں۔
مفتی صاحب اگرچہ ناگ پور کے باضابطہ شہری ہوگئے تھےمگر وطن اور اہل وطن سے تعلق ہمیشہ برقرار رکھا، سال میں کم و بیش چار پانچ بار گھوسی ضرور آتے۔اور ہمارے دیار میں ناگ پور کی بجاے گھوسی کی نسبت سے مشہور تھے۔ یہاں ان کی خدمات بھی ہیں۔
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی سے انھیں ابتدا تا فراغت خصوصی تلمذ حاصل تھا، اس لیے جب آتے ان سے ملاقات ضرور کرتے، اگر گھوسی میں ملاقات نہ ہوتی تو جامعہ اشرفیہ مبارک پور آکر ملتے، اس طرح میری بھی ان سے ملاقات ہوجاتی۔
ممبئی میں جشن تکمیل شرح بخاری سے قبل، مبارک پور میں ایک مختصر ”جشن شارح بخاری “ حافظ ملت قدس سرہ کے عرس سے پہلے منعقد ہوا تھا، اس میں بھی مفتی مجیب اشرف صاحب نے شرکت کی اور شارح بخاری سے متعلق اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار فرمایا، شارح بخاری کے وصال کے بعد ایک تعزیتی اجلاس غوثیہ مسجد کے پاس مبارک پور میں منعقد ہوا تو اس میں بھی شرکت کی اور ایک آیت قرآنیہ کی روشنی میں مختصر تقریر بھی کی۔
عرس حافظ ملت کے ایام میں اگراِس دیار میں ہوتے تو عرس اور جلسۂ دستار بندی میں ضرور شرکت کرتے۔
مہاپولی، بھیونڈی میں مجلس شرعی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا سیمینار ہواتو اس میں بھی شرکت فرمائی۔ ایک نشست کی صدارت بھی ان کے سپرد تھی، اس وقت باضابطہ اپنا تحریری خطبۂ صدارت پیش کیا جو ماہ نامہ اشرفیہ میں شائع ہوا۔
جامعہ البرکات علی گڑھ میں مجلس شرعی کا سیمینار ہوا تو اس میں بھی شرکت کی، جامعہ البرکات اور جامعہ اشرفیہ سے متعلق اپنے جرأت مندانہ تاثرات بھی پیش کیے۔
اس سیمینار میں جب یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ موجودہ دور میں چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کے بعد اعادہ ضروری ہے یا نہیں؟ تو طویل بحثوں کے بعد طے ہوا کہ اعادہ کی حاجت نہیں۔ مفتی مجیب اشرف صاحب نے بحثوں کو بہت غور سے سنا اور فیصلے سے اتفاق کیا اور اپنے تائیدی دست خط بھی ثبت کیے۔
ہم وطن ہونے کی وجہ سے ان سے میری ملاقاتیں ہر سال ہوتی رہیں، اپنے حج کے دونوں سفر(اپریل 1996ء، ستمبر2014ء) میں بھی ان سے ملاقات رہی، پہلے سفر میں کئی دن طویل ملاقاتیں رہیں، انہی کی معیت میں منیٰ سُرنگ کے راستے سے پیادہ جانا ہوا۔ دوسرے سفر میں ان کے تلمیذ خاص مولانا غلام مصطفیٰ رضوی سورتی کے توسط سے ایک بار ملاقات ہوئی، دوسری بار مدینہ منورہ میں مولانا افتخار احمد قادری کے گھر دعوت میں ہوئی، آخری بار مارہرہ شریف میں عرس قاسمی 2019 ء میں مولانا غلام مصطفیٰ رضوی کے ساتھ ہوئی۔
ان ساری یادوں، ملاقاتوں اور موصوف کے بیش بہا کارناموں اور کمالات و محاسن کو سمیٹنا مجھ جیسے کم زور اور کم فرصت شخص کے لیے بہت مشکل ہے۔ کچھ اشارات پر اکتفا کیا ہے۔ مولا تعالیٰ ان کی یادیں باقی رکھے اور مریدین، معتقدین و متعلقین کو ان کے فیوض و برکات سے ہمیشہ بہرہ ور فرمائے۔ آمین
تحریر: علامہ محمد احمد مصباحی
المجمع الاسلامی
ناظم تعلیمات الجامعۃ الاشرفیہ،مبارک پور اعظم گڑھ، یوپی
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع