تحریر: سید اکرام الحق قادری مصباحی کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط دوم
کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط دوم
صحابیِ رسولﷺ کَون : امام خطیب بغدادی اور امام ابنِ جماعہ نے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم سے ’’صحابی کی تعریف‘‘ اِن الفاظ میں نقل کی ہے: کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ ﷺ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةِ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ۔
ترجمہ: ہر وہ شخص جس نے نبیِّ اکرم ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے [فقط حالتِ ایمان میں]حضورﷺ کو دیکھا ہو وہ ’’صحابی‘‘ ہے۔ اُسے اُسی قدر فیضِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے آپ ﷺ کی صحبت اختیار کی۔[خطیب بغدادی، الکفایة في علم الروایة،ج۱:،ص۵۱۔مطبوعہ، مدینه منوره ، المکتبة العلمیة۔ابن جماعة، المنهل الروی، ج۱:،ص۱۱۱:۔ مطبوعہ، دمشق شام: دار الفکر]۔
صحابۂ کرام کی تعداد : صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تعداد کے حوالے سے ہم اہلِ سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورﷺ کی بے مثال تعلیم و تربیت اور بے نظیر دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں کثیر تعداد میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوکر’’شَرَفِ صحابیت‘‘ سے سرفراز ہوئے۔ حضور ﷺ کی ظاہری حیات میں صحابۂ کرام کی کثیر تعداد نے دین کی سر بلندی کے لیے جہاد کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا
جب کہ کئی صحابۂ کرام نے فطری طور پر وصال بھی فرمایا؛ مگر اُن نفوسِ قدسیہ کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی ،یہاں تک کہ جب حضور سرور ِعالمﷺ نے مقصدِ بعثت کی تکمیل کے بعد،حیات ِظاہری سے پردہ فرمایا تو صحابۂ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوُز کر چکی تھی ۔ بعض رِوایتوں سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی ؛ جب کہ اکثر روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔
بہر حال اُن کی حقیقی تعداد جو بھی ہو؛ مگر اتنا تو طے ہے کہ وصالِ اقدس کے وقت وہ حضرات ایک لاکھ سے زائد تھے۔ اپنے آقا و مولا ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی صحابۂ کرام کی یہ مقدس جماعت دین و ایمان میں اُسی طرح مخلص رہی جیسا کہ اپنے آقاﷺ کی ظاہری زندگی میں مخلص تھی چناں چہ اُنھوں نے دینِ اسلام کی نشر و اشاعت اور اِعلائے کلمۃ الحق کی خاطر بیش بہا قربانیاں بھی پیش کیں ۔اِس حقیقت پر ایسے مضبوط نقلی ،عقلی اور تاریخی دلائل موجود ہیں کہ کوئی بھی صاحبِ عقل و دانش اُن کا انکار نہیں کر سکتا ۔
اہلِ تشیُّع کے نزدیک صحابۂ کرام کی تعداد: اَصحابِ رسول ﷺ کی تعداد کے حوالے سے رافضیوں کا عقیدۂ باطلہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں اگرچہ صحابۂ کرام بہت بڑی تعداد میں موجود تھے؛مگر جیسے ہی آپ ﷺ کا وصال ہواتو اہلِ بیتِ اطہار اور دیگر تین صحابۂ کرام کے علاوہ باقی تمام صحابہ،حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو ’’خلیفۂ بلا فصل‘‘ نہ ماننے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ رسول تسلیم کرلینے کے سبب کافر و مرتد ہو کرزمانۂ جاہلیت کی جانب پلٹ گئے تھے ۔ معاذ اللہ رب العالمین ۔
مرتد و بے دین ہونے والوں میں خلفاے ثلاثہ[حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی ] اہلِ بیعتِ رضوان ، شرکاے بدر و اُحُد وغیرہ سبھی شامل ہیں ۔ایمان پر قائم رکھنے والے وہ تین خوش نصیب یہ ہیں[۱]حضرتِ سلمان فارسی [۲] حضرت ابو ذر غفاری [۳] حضرت مِقْدادبن اَسود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔ اہلِ سنت کے نزدیک ایسا عقیدہ رکھنا ’’کفر‘‘ ہے ۔ اہلِ تشیع پریہ کوئی الزام و اِتَّہام نہیں ہے ؛ بلکہ اِس حوالے سےخود اُنھی کی کتابوں میں روایتیں موجود ہیں،جنھیں اُن کے علما نے بڑے چاؤ[شوق] سے بیان کیا ہے ۔ قارئینِ کرام نمونہ کے طور پر صرف دو حوالے ملاحظہ فرمائیں!۔
حوالہ نمبر:[۱]حدثنا محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى. عن الحسين بن سعيد عن علي بن النعمان، عن عبد الله بن مسكان، عن عبد الرحيم القصير قال: قُلْتُ لِأبِيْ جَعْفَرٍ [عَلَيْهِ السَّلَامُ] إنَّ النَّاسَ يَفْزَعُوْنَ إذَا قُلْنَا: إنَّ النَّاسَ اِرْتَدُّوْا۔ فَقَال: يَا عَبْدَ الرَّحِيْم! إنَّ النَّاسَ عَادُوْا بَعْدَ مَا قُبِضَ رَسُوْلُ اللهِﷺأهْلَ جَاهِلِيَّةٍ۔ إنَّ الْأنْصَارَ اِعْتَزَلَتْ فَلَمْ تَعْتَزِلْ بِخَيْرٍ ۔ جَعَلُوْا يُبَايِعُوْنَ سَعْدًا وَهُمْ يَرْتَجِزُوْنَ اِرْتِجَازَ الْجَاهِلِيَّةِ۔ يَا سَعْدُ أنْتَ الْمُرَجَّاء وَشَعْرُكَ الْمُرَجَّلُ وَفَحْلُكَ الْمُرَجَّم.[الروضۃ من الکافی ج ۸:، ص ۲۹۶:، رقم الحدیث ۴۵۵:،المکتبۃ الشیعیۃ،شیعہ آن لائن لائیبریری]۔
ترجمہ:رافضی محقق کلینی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے کہ عبد الرحیم قصیر نے کہا: میں نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام مرتد ہو گئے تھے تو لوگ گھبرانے لگتے ہیں ۔ انھوں نے کہا:اے عبد الرحیم !واقعہ یہی ہے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد لوگ [صحابہ] جاہلیت کی جانب پلٹ گئے تھے ۔
انصار [ابو بکر کی بیعت سے] الگ تو ہوئے ؛ مگر وہ بھی خیر کے لیے الگ نہ ہوئے [بلکہ ایک باطل کو ترک کرکے دوسرے باطل کو اختیار کیا ، یعنی ابو بکر کی بیعت ترک کرکے]وہ سعد کے ہاتھوں پر بیعت کرنے لگے ، وہ زمانۂ جاہلیت کی طرح رجز پڑھتے ہوئے کہہ رہے تھے:اے سعد! تمہیں امید گاہ ہو ، اے سعد۱ تم آزاد ہو اور تمھارا دشمن نا قابلِ قبول ہے۔( قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں)۔
جاری
تحریر: سید اکرام الحق قادری مصباحی
پرنسپل : دارالعلوم محبوب سبحانی ،کرلا،ممبیٔ
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع