از طارق انور مصباحی اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم معاشرہ
اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم معاشرہ
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
مذہب اسلام نے انتہائی دلکش تہذیب ومعاشرت اور تمدن وثقافت دنیا کو عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام حضوراقدس سیدنا محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اخلاق وکردار کا اعلیٰ نمونہ بنا کر کائنات انسانی میں مبعوث فرمایا اور ارشاد فرمایا:
(انک لعلی خلق عظیم) (سورہ قلم:آیت4)
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کواعلیٰ اخلاق وکردار سے مزین فرمایاہے، اور آں حضرت علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دین ومذہب کے ساتھ اخلاق حسنہ کی تعلیم کے لیے بھی مبعوث فرمایا گیا،تاکہ ساری دنیا میں ایک صالح ثقافتی معاشرہ جلوہ گر ہوسکے۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔
اسلامی تہذیب وثقافت کا مفصل بیان فقہ کی کتابوں میں ”کتاب الحظروالاباحہ“میں مرقوم ہوتا ہے۔
صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃوالرضوان نے بہارشریعت کے سولہویں حصے میں اسلامی آداب واحکام اور اخلاق وثقافت کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیا ہے۔یہ حصہ ”اسلامی اخلاق وآداب“کے نام سے ہندو پاک میں کئی بارشائع ہوچکا ہے۔
اگراسلامی تہذیب واخلاق کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کر لیا جائے تو ایک صالح معاشرہ پلک جھپکتے وجود میں آسکتا ہے۔
اب قوم مسلم اسلامی اخلاق عالیہ اور اسلامی تہذیب وثقافت سے کنارہ کش ہوتی جارہی ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب خود علما وائمہ اسلامی تہذیب وثقافت سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں تو پھر عوام کا کیا حال ہوگا۔
دراصل یہ ایک بڑی غلط فہمی اورایک تباہ کن فکری عیب ہے۔
مسلمان اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کا پڑھتے ہیں اور جب عمل کی بات آتی ہے تو علما وائمہ کی مثال پیش کرتے ہیں۔ہر مومن کو اللہ ورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا ہے۔اگر بالفرض کسی عالم یا کسی امام نے کسی حکم پر عمل نہیں کیا تو یہ اس کا عمل ہے۔اس بارے میں خوداسی سے سوال ہوگا،نہ کہ آپ سے سوال ہوگا۔
یہ شیطانی فریب ہے۔ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔شیطان مومن بندوں کو صحیح راہ سے بھٹکانے کے واسطے طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔ مرنے کے بعد ہرشخص سے اس کے ایمان وعمل کے بارے میں سوال ہوگا،نہ کہ دوسروں کے ایمان وعمل کاسوال ہوگا۔
ہرایک کواپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے۔دوسروں پر انگشت نمائی کرکے کوئی عذاب آخرت سے بچ نہیں سکتا،بلکہ خود اس کی غیبت اور چغل خوری کے گناہ میں مبتلا ہوگا اور یہ نقصان پر نقصان اور دوہری مصیبت ہے۔
اچھائیوں اورنیکیوں میں کسی کی پیروی کی جاتی ہے،نہ کہ برائیوں میں۔سماج اور معاشرے میں چور،جیب کترے، غنڈے اور مختلف برائیوں میں مبتلا لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔
اگر سماج کے لوگ ایسوں کی پیروی کرتے تو برے لوگو ں کی تعداد سماج میں زیادہ ہوتی،حالاں کہ ایسا نہیں۔
معاشرہ کے لوگ ایسے غلط لوگوں سے بھی بچتے ہیں اور ان کے غلط عادات واطوار سے بھی نفرت کرتے ہیں۔
ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام جہاں انسانوں کو دین خداوندی کی تعلیم فرمانے کے واسطے مبعوث ہوئے تھے،وہیں اعلیٰ اخلاق وکردار کی تعلیم دینے کے واسطے بھی دنیا میں جلوہ گرہوئے تھے۔حدیث شریف میں ہے۔
(عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:بعثت لاتمم مکارم الاخلاق)(المستدرک علی الصحیحین:کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جلددوم ص۰۷۶-مکتبہ شاملہ)۔
ترجمہ:آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اخلاقی خوبیوں کی تکمیل کے واسطے مبعوث ہوا۔
قرون اولیٰ میں مسلمانوں نے جس آبادی، جس شہر اور جس ملک میں قدم رکھا، وہاں کے لوگ مومنین کے اعلیٰ اخلاق وکردار اور انسانیت نوازی دیکھ کر اپنے دین ومذہب کوچھوڑکر دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام دنیا میں تلوارکے زور سے نہیں پھیلا،بلکہ اخلاق کے سبب پھیلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام ایک عالم گیرمذہب بن گیا۔
طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
آو اپنی اصلاح کریں قسط مضون ضرور پڑھیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع