تحریر طارق انور مصباحی آو! اپنی اصلاح کریں قسط ہشتم
آو! اپنی اصلاح کریں قسط ہشتم
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
بھارتی مسلمانوں کا سیاست وحکومت سے منقطع اوربے تعلق ہوجانا ملت اسلامیہ کے لیے ہر قدم پر نقصان وہزیمت کا سبب بنا۔چوں کہ علمائے کرام قومی رہنما شمار کیے جاتے ہیں،اس لیے علمائے کرام کوچاہئے کہ دستور ہند اور بھارت کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں،تاکہ وہ اس باب میں قوم کی صالح رہنمائی کرسکیں۔
تاریخی حقائق سے ناآشنا رہ کر آپ کوئی صحیح راہ متعین نہیں کرسکتے۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ایک ناتجربہ کار اور ناآشنا انسان جب بھی کوئی نظریہ بیان کرے گا تو اس کا انجام اور نتیجہ امیدوں کے برخلاف ہوگا۔
بھارتی سیاست کا سب سے مشکل ترین مرحلہ یہ ہے کہ یہاں کی سیاست پر برہمنوں کا قبضہ ہے۔یہ لوگ یہودیوں کی طرح عیار اور مکر وفریب کے ماہر ہیں۔ 1500:قبل مسیح میں یہ لوگ وسط ایشیاسے بھارت آئے اوریہاں کی مقامی حکومتوں کا تختہ پلٹ کر بھارت کے سیاہ وسپید کے مالک بن بیٹھے۔
حکومت کے ساتھ مقامی لوگوں کی مذہبی قیادت پر بھی آرین قوم قابض ہوگئی اور انہیں جس طرح حکومت سے بے دخل کیا تھا،اسی طرح دھرم سے بھی نکال باہر کیا،پھر ان کو شودر قراردے کرانہیں حیوانوں سے بھی بدتر درجہ دیا۔
پہلے آرین قوم موحد تھی۔ محض بھارت پر قبضہ جمانے کے لیے انہوں نے اہل بھارت کے مذہب اور ان کے رسوم ورواج کو اپنالیا،پھر خود سے مذہبی کتابیں یعنی وید اور اپنشد کو ترتیب دی اور قانون کی کتابیں لکھیں،جن کو ”اسمرتی“کہاجاتا ہے۔
قانون کی کتابوں میں ”منوسمرتی“بہت مشہور ہے۔
”منوواد“کا لفظ بھی اسی کی مناست سے بولا جاتا ہے۔اس میں شودروں کے لیے یہ قانون ہے کہ شودر لوگ برہمنوں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئے۔یہ حکومت نہیں کرسکتے۔
اس طرح آریوں نے بھارت کے مقامی باشندوں کو ہمیشہ کے لیے اپناغلام بنالیا۔ویدک دھرم (سناتن دھرم / ہندودھرم) کی بنیاد ہی اس نظریہ پر ہے کہ شودروں کو حکومت سے محروم اور غلام بناکر رکھا جائے،اور آریوں کی حکومت کو مضبوطی اورقوت دی جائے۔وہ عام انسانوں کی فلاح وبہبود کا مذہب نہیں۔یہ خاص کر آریوں کی فلاح وصلاح اوران کی حکومت کوبرقرار رکھنے کے واسطے برہمنوں کے ذریعہ بنایا گیاایک دھرم ہے۔
1909میں بھارت میں انگریزی حکومت نے مارلے منٹو ایکٹ لایا۔اس میں بتایا گیا کہ سیاسی انتخابات میں بھارت کے ہر ایک فرد کو ایک ووٹ کا حق ہوگا۔اب برہمنوں نے اپنی اکثریت ثابت کرنے کے واسطے شودروں کوبھی ہندوبنالیا،اور ہندودھرم(ویدک دھرم) کو عوامی مذہب بنا کر پیش کیا،لیکن آج بھی شودروں کو مندرمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔چندسال قبل صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کو اڑیسہ میں مندر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔اس کا مطلب ہے کہ شودرقومیں محض سیاسی ہندوہیں،دھرم میں ہندو نہیں۔
برہمن ایسی قوم ہے جو قریباً ساڑھے تین ہزار سالوں سے سیاست میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کا مقابلہ ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں۔وہ سیاسی نشیب وفراز سے خوب واقف ہے۔وہ اپنی قلت تعداد کے باوجود بھارت کے حکمراں اور حکومتی شعبوں پر قابض ہے۔
تعجب تو یہ ہے کہ یہی قوم مسلمانوں اور شودروں پرظلم کرتی ہے۔ آپس میں لڑاتی ہے،پھر انہیں کے ووٹوں سے انتخابات میں جیت کرحکومت پر قابض ہوجاتی ہے۔
آزادی کے بعدشودروں میں جب تعلیم آئی تو ان میں کچھ شعور بھی آیا اور وہ سیاسی اتھل پتھل کو سمجھنے لگے۔ مسلم تعلیم یافتگان سیاسی پارٹیوں کی غلامی میں لگے رہے۔کبھی اِس کے ساتھ،کبھی اُس کے ساتھ۔
ماضی قریب کے بعض علما اور دانشوروں نے سیاسی محاذکے صحیح نقوش بتائے تھے۔ان علما ودانشوران میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری اور ان کے شاگرد وخلیفہ صدرالافاضل مرادآبادی کے نام سرفہرست ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ہرکافر ہمارا دشمن ہی ہے، لیکن ہمیں بوقت حاجت سیاسی محاذ پر اس کافرگروہ کے ساتھ رہنا چاہئے،جوہمیں کم نقصان پہنچائے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر بعض مشرک قبائل کو حضور اقدس تاج دارکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا حلیف بنایا تھا۔اس طرح سیرت نبوی سے بھی ہمیں ایک روشنی ملتی ہے۔
امام احمد رضا قادری اورصدرالافاضل نے برہمن ازم کو قوم مسلم کے لیے سخت خطر ناک بتایا۔ اس وقت برہمنوں نے برہمن ازم کو ہندوازم کا نام دیا تھا۔اب اسی صنم خانے سے ”مول نواسی اقوام“ (شودر اقوام/ بھارت کے اصل باشندگان)کی جدائی اور قوم مسلم کے لیے ان کے ہمدردانہ جذبات امید کی روشنی دکھاتی ہے۔
جب مول نواسی اقوام کوسیاسی کامیابی نصیب ہوگی تو امید ہے کہ قوم مسلم کو بھی کچھ بھلائیاں نصیب ہوں۔
ہماری امیدوں کا سبب مول نواسی اقوام کی تحریکیں ہیں جومسلسل بیداری لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
علماے کرام کوچاہئے کہ عہد ماضی میں برہمنوں کی سیاسی ریشہ دوانیوں کی تاریخ پڑھیں اور خاص کر عہدمغلیہ کے زوال1857 سے آزادی ہند تک برہمنوں کے سیاسی افکارونظریات کا غائرانہ مطالعہ کریں۔
آزادی سے قبل برہمنوں نے بھارت کا جو نقشہ تیار کیا تھا،وہ اسی انداز پر ملک کوچلا رہے ہیں۔خواہ مرکز میں کانگریسی حکومت ہو، یا بی جے پی کی حکومت۔ دونوں پارٹیاں متعصب برہمنوں کی ہے۔ایک کا تعصب ظاہر ہے،ایک کا پوشیدہ۔
مسلمانوں اور شودروں کوباہمی نزاع میں مبتلاکرکے وہ لوگ ملک پرقابض ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات میں یہی دونوں قومیں (مسلم اورشودر) مرتی اورکٹتی ہیں۔ انہیں کو جیل جانا پڑتا ہے۔ برہمن قوم صرف سازش کرتی ہے،اور شودروں کو مسلمانو ں کے خلاف ورغلاتی ہے۔ یہ لوگ فسادات میں عملی حصہ نہیں لیتے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارا اصلی دشمن وہی ہے جوہمیں لڑاتا ہے اورہمارے درمیان پھوٹ ڈالتا ہے۔
شودروں کونہ صرف ورغلایا جاتا ہے،بلکہ ہتھیار چلانے،اور توڑپھوڑ کرنے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ سالہا سال شودروں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔تب وہ فسادات کے موقع پرخون خوار درندہ بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔مسلمانوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ان کی دوکان ومکان اورجائیدادوں کوتباہ کرتے ہیں۔ان کی عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں۔یہ ایسے درندہ ہوجاتے ہیں کہ دودھ پیتے بچوں کوبھی ہلاک کردیتے ہیں۔
ایسی صورت میں لازم ہے کہ دونوں قومیں سیاسی محاذپر متحد ہوجائیں اور ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر فتنہ پر وروں کو حکومت وسیاست سے بے دخل کردیں،تاکہ باہمی قتل وقتال اورہلاکت خیزیوں پر قابوپایا جا سکے۔ان دونوں قوموں کا اتحادبہت مشکل نہیں،بلکہ موقع بہ موقع اتحاد ہوتا رہا ہے۔
مول نواسی اقوام کی تحریکیں باہمی اتحادکے لیے بھی کو شش کررہی ہیں اور دیگر اقلیتی طبقات مثلاً مسلم، سکھ،بودھ جین،وغیرہ سے بھی اتحاد کی عملی کوشش ہورہی ہے۔
ماحول میں بہت حدتک تبدیلی آ چکی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چارپانچ سالوں میں مزید بیدار ی آئے اور بھارت کے ماحول میں نمایاں تبدیلی رونما ہو۔
دیوبندی جمعیۃ العلما کانگریس اوربرہمنوں کی وفادار ہے تو ان سے کوئی امید نہیں۔ہمیں یہ کوشش کرنی ہوگی کہ اس جمعیت کے اثرات بد پوری قوم مسلم کومحیط نہ ہوسکے۔
ہم اپنی محدود اور کمزورآواز پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کرسکتے،لیکن رحمت الٰہی پر ضرور اعتماد ہے۔اللہ تعالیٰ مقلب القلوب ہے۔اس کی مشیت کے بغیر ایک پتہ نہیں ہلتا،اورجب حکم”کن“جاری فرمائے توچشم زدن میں ساری کائنات زیروزبر ہوجائے۔
ع/ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
کسی جمہوری ملک میں اکثریت کا سیاست وحکومت سے جدا ہوجانا اس کے لیے سخت نقصان دہ ہے، پھر ایسی اقلیت کا سیاست وحکومت سے دستبردار ہوجانا کس قدر ضرررساں ہوگا،جس کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہو۔
۔ 1930سے 1940کے عشرہ میں برہمنوں کے قافلے اسپین گھوم کر آئے ہیں، تاکہ وہاں جس طرح اسلام کے نام لیواؤں کا نام ونشان مٹا یا گیا،وہ عمل بھارت میں بھی دہرایا جا سکے۔
بھارت کے مسلم عوام اور علما دونوں سخت غفلت میں مبتلا ہیں اور مسلم لیڈر جس پارٹی کا ہوگا،لامحالہ وہ اپنی پارٹی کے اصول وضوابط کی پابندی کرے گا۔ایسی صورت میں مسلم لیڈروں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا بھی ہماری تاریخی غلطی ہوگی۔
اگر مسلم علما بھی مسلمانوں کے وجود کے تحفظ کی خاطر اپنی فکری قوتوں کو بروئے کارنہیں لاتے ہیں تو رفتہ رفتہ حالات ایسے ہوجائیں گے کہ ہمیں غور وفکر کا بھی موقع میسر نہیں ہوگا۔
بھارت کی سیاسی تاریخ اور دستور ہند پڑھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ بلا علم مجتہدانہ گفتگوسے کیا حاصل؟
جوجہل مرکب میں مبتلا ہو، وہ قوم کی صحیح رہنمائی کیسے کرسکتا ہے۔پڑھیں اورآگے بڑھیں۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
آو اپنی اصلاح کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع