عوام اہل سنت کے لیے نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کا نورانی تحفہ کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط سوم :تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی
کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے
حوالہ نمبر :۲ عَلِیُّ بْنُ الْحَکَمِ عَنْ سَیْفِ بْنِ عُمَیْرَۃَ عَنْ اَبِیْ بَکْرِ الْحَضْرَمِیْ قَالَ:قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ عَلَیْہ ِالسَّلَامُ:اَرْتَدَّ النَّاسُ اِلَّا ثَلَاثَۃُ نَفْرٍ سَلْمَانُ وَ اَبُوْ ذَرٍّ وَالْمِقْدَادُ ۔[اخبار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی ،للشیخ محمد بن عمربن عبد العزیز الکشی،ج۱:،ص۵۱:، رقم الحدیث ۲۴:۔
المکتبۃ الشیعیۃ ، شیعہ آن لائن لائبریری]ترجمہ:علی بن حکم سیف بن عمیرہ سےاوروہ ابو بکر حضرمی سے روایت کرتے ہیں کہ ابو جعفر علیہ السلام نے کہا:[حضور ﷺ کے وصال کے بعد ] تین کے علاوہ سبھی صحابہ مرتد ہو گئے تھے۔وہ تین یہ ہیں [۱] سلمانِ فارسی[۲]ابو ذر غفاری [۳] مقداد بن اسود۔
رجالِ کشی میں اِس من گھڑت روایت کے بعد یہ بھی مذکور ہے کہ اِن تین صحابہ کے علاوہ چار حضرات اور بھی ہیں جنھیں بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت قبول کر لینے کے بعد رجوع کیا اور حضرت علی مولاے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقِّ خلافت کو پہچانا ۔
وہ چار صحابہ یہ ہیں ۔[۱]عثمان[۲]ابو سنان انصاری[۳]ابو عمرہ[۴]شتیرہ۔
اِن چاروں کا نام لکھنے کے بعد رجالِ کشی کا مصنف کہتا ہے فَلَمْ یَکُنْ یَعْرِفُ حَقَّ اَمِیْرِ الْمُؤمِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلَا مُ اِلَّا ھٰٓؤلَاءِ السَّبْعَۃُ ۔[مصدرِ سابق]۔
ترجمہ:اِن سات خوش نصیبوں کے علاوہ کوئی بھی صحابی حضرتِ امیر المومنین علیہ السلام کے حق کو نہ پہچان سکا ۔[ سب کے سب ابو بکر کے ہاتھوں پر بیعت کرکے زمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹ گئے، معاذ اللہ رب العالمین ] ۔
اِن دونوں حوالوں سے ثابت ہوا کہ اہلِ تشیع کا عقیدہ یہی ہے کہ حضور ﷺ کے وصال فرماتے ہی،سواے تین صحابہ کے تمام صحابہ مرتد ہو گئے تھے ،پھر اللہ عز وجل نے مزیدچار کو حق کی جانب رجوع کرنے کی توفیق بخشی؛ لہذا اہلِ تشیع کے نزدیک صحابۂ کرام کی کل تعداد سات ہے ۔یہ لوگ اہلِ بیتِ کرام کے علاوہ صرف اِنھی سات حضرات کو ’’نیک ، عادل ، مخلص اور دین کا بے لوث خادم‘‘ مانتے ہیں۔
اِسی لیے اُن کی کتابوں میں مذکورہ سات صحابۂ کرام کے علاوہ نہ کسی صحابی کا بحیثیتِ صحابی ذکر ملتا ہے اور نہ کسی کی فضیلت کا بیان ؛ بلکہ اُن کی کتابیں ’’لعن طعن، سب و شتم اور تبرا بازی‘‘ سے بھری پڑی ہیں ، جن کا بیان آگے آئے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
جب اِن سےکہا جاتا ہے کہ ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور ﷺ کے تربیت یافتہ اپنے آقا و مولا کے وصال کے فوراً بعد بے دین ہو جائیں ‘‘؟تو یہ بکواس کرتے ہیں کہ در حقیقت وہ لوگ حضور ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں ہی بے دین و منافق تھے ؛ لیکن اپنا نفاق چھپائے ہوئے تھے ۔
جیسے ہی حضور ﷺ کا وصال ہوا ، انھوں نے حضرت علی مولاے کائنات کو خلیفۂ بلا فصل نہ مان کر اپنا نفاق ظاہر کر دیا اور اپنی گردنوں سے دینِ اسلام کا ظاہری پٹہ بھی اُتار کر پھینک دیا ۔العیاذ باللہ تعالیٰ منہ ۔
اہلِ تشیع کے اِس عقیدے کا باطل و مردود ہونا ،دینی شعور و آگہی رکھنے والے ہر شخص پر آفتابِ نصف النہار سے بھی زیادہ روشن و واضح ہے ۔
اِن کے اِس عقیدے کے بطلان پر دلائل نقلیہ بھی شاہد ہیں اوردلائلِ عقلیہ بھی۔پہلے چند نقلی دلائل ملاحظہ فرمائیں،پھر ان شاء اللہ عز وجل عقلی دلائل پیش کیے جائیں گے۔
دلائلِ نقلیہ
۔[۱]اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰ مَنَ النَّاسُ قَالُوْا أنُؤمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ ۔[سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۱۳:]۔
ترجمہ: اور جب اُن[منافقوں] سے کہا جاتا ہے کہ[سچے دل سے] ایمان لاؤ ! جس طرح لوگ[صحابۂ کرام] ایمان لائے ۔تو کہتے ہیں کہ کیا ہم اُس طرح ایمان لائیں جس طرح یہ بے وقوف ایمان لائے؟سنو! بے شک وہی لوگ بےوقوف ہیں ؛لیکن جانتے نہیں ۔
اِس آیتِ کریمہ میں مدینۂ منورہ کے منافقوں سے کہا گیا ہے کہ ’’ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں‘‘ ۔’’اَلنَّاسُ‘‘ سے کَون لوگ مراد ہیں ، اِس کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
اَلنَّاسُ کے ’’لام‘‘ میں دو احتمال ہیں
۔[۱] یہ عہد کے لیے ہو ۔اِس صورت میں معنیٰ ہوگا ’’اُس طرح ایمان لاؤ جس طرح رسول اللہﷺ اور اُن کے صحابہ ایمان لائے‘‘ ،یا ’’جس طرح عبد اللہ بن سلام اور اُن کی جماعت کے لوگ ایمان لائے‘‘ ۔
۔[۲]یا جنس کے لیے ہو ۔اِس صورت میں معنیٰ ہوگا :اے منافقو! اُس طرح ایمان لاؤ جس طرح ’’قبیلۂ اَوس و خزرج‘‘ کے لوگ ایمان لائے ؛ کیوں کہ اُس وقت تک اِ ن دونوں قبیلوں کے اکثر لوگ ایمان لا چکے تھے اور ایمان نہ لانے والے منافق بہت کم تھے ۔[ملخصاً از تفسیرِ کبیر ، ج۱:،ص۷۵:] ۔
بہر حال اِس آیتِ کریمہ میں منافقوں کو صحابۂ کرام کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا ہے جو کہ ایمان میں کامل ، مخلص اور نفاق سے بالکل دور تھے ۔پتہ چلا کہ اللہ ربُّ العزت کے نزدیک صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا ایمان ’’معیار اور آئیڈیل‘‘ ہے ۔
کسی کا ایمان اگر صحابۂ کرام کے ایمان کی طرح ہوگا تو مقبول ہوگا ورنہ مردود۔ جن حضرات کے ایمان کو معیار اور آئیڈیل قرار دیا گیا ہو ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ،حضور ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں منافق رہے ہوں اور آپ ﷺ وصال کے فوراً بعد مرتد و بے دین ہو گئے ہوں
تحریر: احقر سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے ؟۔
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع