دنیا میں تم سے لاکھ سہی تو مگر کہاں (محبوب میناہ شاہ ایک جانباز مسلک اعلیٰ حضرت کے سپاہی تھے)۔
دنیا میں تم سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
{موجِ فکر}
تحریر :۔ آصف جمیل امجدی
رب کریم کا کرم ہے کہ اس نے بہت سی مخلوقات کی تخلیق فرمائی۔ جن انسان کو بھی پیدا فرمایا۔ یہ تخلیق انسانی کرم ربانی تھا، مگر کرم بالاۓ کرم کہ سر انسانی پر تاج کرامت و شرافت رکھ کر اعلان فرمادیا “ولقد کرمنا بنی آدم” پھر بالاۓ کرم کہ ہدایتِ انسانی کی خاطر حزبِ رحمانی بھیج دی
انبیاۓ کرام کی بعثت ہوئی، بہت سے منفعل طبیعت کے مالک لوگوں نے انبیاۓ کرام کی دعوت پر پیغامِ خدا وندی کو بسر و چشم قبول کیا اور “الا الذین اٰمنوا و عملوا الصلحت” کی صف میں جلوہ آرا ہوکر “فلھم اجرٌ غیر ممنون” کی نعمت دوام سے شاد کام ہوۓ
اور بہت سے ہٹ دھرم، سرکش، متکبر، متعنت نفوس نے اپنے ظلم و تشدد اور تکبر و تعنت کے باعث انبیاۓ کرام کے بلاوے پر لبیک نہ کہا بلکہ بجاۓ اطاعت و فرماں برداری کرنے کے ان داعیان خدا وندی کو تکالیف سے دو چار کرنا شروع کردیا
بلکہ بعضوں نے تو حد کردی کہ “یقتلون الانبیاء بغیر حق” کے تعنت ابدی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر غضب قہار و جبار کے باعث اپنے کیفر کردار کو پہنچے اور آخرت میں عذاب الیم ان کی مہمانی کو تیار ہے۔
پھر جب اس نبی رحمت، سراپا رأفت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جلوہ گری سے زمین پست کو علو و بلندی ملی، دعاۓ ابراہیم و بشارت عیسیٰ علیہما السلام کی آمد آمد ہوگئ، صحن آمنہ خاتون میں چادر بنوت اوڑھے اپنے رب اکرم جل و علا کا محبوب اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم جلوہ باری کرچکا
اب دروازۀ نبوت ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہوگیا تو کیا اب اعتاق انسانی سے طقلید کا طوق اتر گیا، کیا اب انسانوں کو ہدایت کی راہ پر لے جانے والا کوئی نہیں؟
نہیں نہیں! ایسا نہیں کرم رحمانی نے گروہ انسانی کو فراموش نہ فرمایا، بلکہ اگرچہ دروازۀ بند ہوچکا مگر اب بھی اللّٰہ کے مقرب بندے زمین پر بستے ہیں اور وہی تبلیغ دین کا کام بطریق احسن ادا فرماتے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی محبوب میناہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ بھی تھے۔
بابا جی کی زندگی ہم اہل سنن کے لیے کھلی ہوئی روشن کتاب کی طرح تھی، آپ فروغ رضویات کے لیے ہمیشہ سر گرم عمل رہتے۔ بلاشبہ آپ کی ذات علماۓ سلف کی خدمات و افکار کی مظہر تھی۔
شریعت مطہرہ و مسلک اعلیٰ حضرت پر استقامت کا یہ عالم تھا کہ حق و صداقت کی تائید و نصرت میں یہ نہیں دیکھا کہ کس کی مخالفت ہو رہی ہے یا مد مقابل ظاہری شوکت و طاقت سے لیس ہے۔ باباجی نے ہمیشہ اسلامی سچائی کے اظہار میں بلاخوف لومہ لائم حق ہی کہا۔
یقینًا وہ اپنے اسلاف کی سچی تصویر تھے۔ ان کی علمی روایت اور تہذیبی شرافت کے وارث کامل تھے۔ گوناگوں کمالات اور خوبیوں کے باعث اگر ایک طرف اپنے ہم عصروں پر بوۓ سبقت لے گیے تو دوسری جانب اکابر علما اور علمی شخصیات کی نگاہ توجہ و التفات کا مرکز بن گیے تھے۔
قدرت کی فیاضی نے آپ کو بہت سے انعامات سے نوازا تھا۔ آپ کے عظیم کارناموں کے ڈنکے چار دانگ عالم میں بج رہے ہیں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ گونڈہ کے اندر وسیع و عریض میدان “جامعہ مینائیہ” کا قیام ہے جو ادارہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ میں اہم کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
آپ نے پرائمری سے لے کر ڈگری کالج تک عصری تعلیم کا ایک فلک بوس مینارہ ہی قائم کردیا ہے۔ باباجی کا وصال ملت اسلامیہ کے لیے ایک اعصاب شکن صدمہ ہے اور امت مسلمہ کے لیے اس صدی کا سب سے بڑا علمی خسارہ ہے۔
پوری ملت اسلامیہ ان کے غم میں سو گوار ہے،کیونکہ یہ محض ایک فرد کا غم نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ اور جماعت کا غم ہے۔ کیوں کہ آپ کے ارتحال سے جو عظیم خلاء پیدا ہوگیا ہے شاید ایک طویل مدت تک پورا نہ ہو سکے
تحریر:۔ آصف جمیل امجدی (انٹیاتھوک، گونڈہ)۔
ریسرچ اسکالر یس ین لکھنؤ
6306397662
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع