مسلمانوں کی کام یابی اتباع رسول میں ہے تحریر:(مولانا) دلاور حسین قادری
مسلمانوں کی کام یابی اتباع رسول میں ہے
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے جیسا کہ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :” جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی(سورۂ نساء:۸۰)۔
اور سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے : “اے ایمان والو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت وفرماں برداری کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو (سورۂ محمّد:۳۳)۔
اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی ظاہری زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کے بظاہر وصال کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے ۔
اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث بڑی اہم ہے ۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’میر ی امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا تو صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: انکار کس نے کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اورجس نے میر ی نافرمانی کی اس نے انکار کیا(صحیح بخاری )۔
ہم میں سے ہرایک کو معلوم ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو آدمی اور انسان کہا جاتاہے‘ لیکن آدمی اور آدمیت میں ‘ اسی طرح انسان اور انسانیت میں بہت فرق ہے۔ ضروری نہیں کہ جو آدمی وانسان ہو‘ اس میں انسانیت وآدمیت کی صفات بھی پائی جائیں۔
دیکھئے جان دار ہونے میں توہر انسان جانور کا ہمسر اور شریک ہے‘ محض جان دار ہونے میں انسان کو جانور پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں‘ بلکہ انسان کو جانور پر فضیلت وفوقیت تب ہوگی جب اس میں انسانیت اور آدمیت بھی ہو۔ یہی وہ انسانیت وآدمیت ہے جو بنی آدم کو جانوروں سے ممتاز وافضل بنا دیتی ہے‘ یہی وہ حوصلہٴ خیر وشر ہے جو انسان کو اٹھاتا اور گراتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ آدمیت وانسانیت کہاں سے ملتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصلی انسانیت کا مکمل نمونہ ہمیں ان مقدس شخصیات سے ہی مل سکتا ہے‘ جنہیں ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے مقدس لقب سے یاد کرتے ہیں۔
آج کے اس دور میں جبکہ سلسلہٴ نبوت و رسالت ختم ہوگیا‘ اور خاتم النبیّین، نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات وہدایات کے سوا کسی نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں ہے تو انسانیت کی کام یابی کا مدار صرف اور صرف محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات میں ہے ‘ ہمیں انسانیت وآدمیت کے اصول اس درس گاہ سے ملیں گے جس نے ”بے شک میں معلّم بنا کر بھیجا گیا“ کا اعلان کرکے بتا دیاکہ میری بعثت کا مقصد ہی گم گشتہ راہ انسانوں کو انسانیت کی راہ دکھاناہے‘ انسانیت سیکھنی ہو تو تعلیمات نبویہ کی درس گاہ میں آؤ، جہاں کی تعلیم میں تمام انسان آپس میں برابر ہیں اور بڑائی کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور دین داری ہے۔
اے انسانیت کے تلاش کرنےوالو! آؤ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرو، جس نے یہ تعلیم دی کہ جو چیز تمہیں پسند ہو‘ وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔ جس نے یہ بتایا کہ یتیموں کی خبر گیری کرنے والا جنت میں میرے اتنے قریب ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں۔ اور جس نے یہ فرمایا کہ وہ شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔
یہاں تک کہ یہ بھی ہدایت دی کہ ہمیں اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے؟ ذرا سوچئے ! کیا انسانیت کے یہ بلند پایہ اصول‘یہ مقدس تعلیم کسی اور درسگاہ میں ممکن ہے؟
بلاشبہ انسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے بغیر ناقص وادھورا ہے‘ بلکہ اس کے بغیر تو انسانیت کا تصور ہی ممکن نہیں‘ آج ہمارا ملک ایسے اندوہناک مسائل کا شکار ہے کہ قائدین کی قیادت‘ رہ نماؤں کی رہ نمائی‘ داناؤں کی دانائی اور مدبروں کی تدبیریں بھی ناکام ونامراد ہیں کہ انہیں ان پریشان کن مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا‘ وجہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا کو اپنا مقصد بنالیا ہے،اور دنیاوی اصولوں کے مطابق ہی ان مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں
حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ دنیاوی اصول وضوابط انسانوں کے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ہیں اور انسانوں کے اصولِ زندگی ‘ زندگی کے ہرمرحلے اور ہرموڑ پر رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتے ،اگر ہمیں وطن سے پیار اور اس کے مسائل اور پریشانیوں کا ادراک ہے تو پھر یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل اسی وقت حل ہوسکتے ہیں جب ہم خود ساختہ قوانین چھوڑ کر سید الاولین والآخرین محمد عربی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات کوسچے دل سے قبول کریں اور اپنے اقوال وافعال اور اپنی حرکات وسکنات کو انہیں تعلیمات کا پابند بنالیں
اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا نے جب بھی اپنے غم کا مداوا، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ڈھونڈا اور تلاش کیا تو وہ کام یابی وکامرانی سے ہم کنار ہوئی۔
انسان کے بنائے ہوئے قوانین غلط ہوسکتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین صحیح۔ انسان کا بتایا ہوا جھوٹ ہوسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا سچ۔ انسان کے طریقے باطل ہوسکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا طریقہ حق۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کونسا طریقہ بتلاتا ہے؟اور کس چیز کی دعوت دیتاہے؟ خالق حقیقی ہمیں کس پروگرام کی طرف بلا رہا ہے؟ کس سوچ کی طرف بلارہاہے؟۔
تو خوب غور سے سن لیجئے ! پڑھ لیجئے! سمجھ لیجئے کہ وہ طریقہ ‘ وہ دعوت‘ وہ سوچ ”اتباع محمد عربی “ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ترجمہ:․․․”آپ فرمادیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا“۔(آل عمران۳۱ ) ۔
چھوٹ جائے اگر دولتِ کونین تو کیا غم
چھوٹے نہ مگر ہاتھ سے دامانِ محمد
ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں؟۔ اس کو مضمون کو پڑھ کر ضرور شئیر کریں
گویا اس آیت کریمہ کے ذریعہ اعلان کردیا گیا کہ اے محبت الٰہی کے دعویدارو! اپنے طریقے چھوڑ دو‘ محمد عربی کے طریقہ پر آجاؤ‘ اپنے پروگرام بندکرو‘ رسول اللہ کے پروگراموں کو اپنا لو‘ اپنی سوچ چھوڑ دو‘ سرکار مدینہ کی سوچ لے لو‘ اپنے خیالات نکالدو‘ سردار دو جہاں کے خیالات سمولو‘ یہی مطلب ہے‘ ”اتباع“ کا ”تاب عداری“اور کہنا ماننا اسی کو کہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی محبت کا حق تب ہی ادا ہوگا جب حضور کی اطاعت ہوگی۔
اے انسانو! تم کوئی بھی ہو‘ محمد عربی کا اتباع کرو ‘ قائدہو تو محمد عربی کا اتباع کرو ‘ سپہ سالار ہو تو بھی محمد عربی کا اتباع کرو‘ قاضی ہو یا جج‘ عابد ہو یا مجاہد‘ تاجر ہو یا مزدور‘ استاذ ہو یا شاگرد‘ ہرایک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرے۔
ہمارا سونا جاگنا‘ اٹھنا بیٹھنا‘ کھانا پینا‘ بھوک وپیاس‘ شکم سیری وشکم پروری‘ رنج ومصیبت‘ خوشی وشادمانی،ہماری ہرحالت سرکار مدینہ کے اتباع اور سنت نبوی کے طریق پر ہونی چاہئے‘ زندگی کے ہر مرحلہ اور ہرگوشہ میں انہیں کا اتباع کرو‘ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں‘ تمہاری حیات مستعار کے لئے فخر کائنات کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے‘ جیساکہ ارشاد ربانی ہے ترجمہ: تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“۔ (الاحزاب ۲۱ )۔
حضور کی محبت‘ اطاعت واتباع ہر مسلمان پر فرض اور حضور کا حق ہے‘ رسول اللہ کے تمام انسانوں پر دو قسم کے حقوق ہیں، ایک وہ حق جو دنیا کے ہرانسان کے ذمہ ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہم سب محمد عربی ﷺ کو اللہ کا نبی ورسول مانیں‘ یہ حق کسی مخصوص ملک یا علاقے یا مخصوص طبقہ پر نہیں ہے‘ بلکہ تمام انسانوں پر ہے‘ جیساکہ ارشاد ربانی ہے(قل یاٰیہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً“۔ (الاعراف ۱۵۸ )۔
ترجمہ آپ فرمادیجئے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں“۔ اس آیت میں مخصوص افراد کو خطاب نہیں ہے ‘ بلکہ صاف طور پر ”یاٰیہا الناس“ کہہ کر عام خطاب کیا گیا ہے۔
دوسری قسم کے حقوق وہ ہیں جو ایمان لانے کے بعد اہل ایمان پر عائد ہوتے ہیں اور وہ ہیں: محبت‘ اطاعت واتباع رسول ۔ حضور کی اطاعت ہرمسلمان پر فرض ہے- اس کے بغیرکوئی کامل مسلمان نہیں ہو سکتا‘ قرآن کریم میں جابجا یہی مضمون بیان کیا گیاہے اور اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے۔
جیساکہ ارشادربّانی ہے اے ایمان والو ! اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو”۔(النساء:۵۹)۔
اس حکم اطاعت میں ”اطیعوا الرسول“ کو الگ مستقل جملہ کی شکل میں قرآن مجید میں جس طرح مختلف مقامات پر ذکر کیا گیا ہے‘اس سے ہر وہ شخص جس کو عربی زبان سے کچھ بھی ذوق ہے‘ وہ یہی سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اہل ایمان پر رسول اللہ کی اطاعت بھی مستقلاً فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو محمد عربی کی اطاعت پر موقوف کردیا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی اطاعت اس وقت تک معتبر نہیں‘جب تک کہ حضور اکرم کی سچی محبت اور اطاعت دل میں نہ ہو‘ بقول شاعر
جب تک نہ کٹ مروں میں شاہِ بطحا کی عزت پر
خدا شاہد ہے کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
آج کا مسلمان اپنی زندگی گزارنے میں اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑ کر غیروں کے طریقے کو اپنا رہا ہے ،جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ “تمہارے لیے اللہ کے رسول کی مبارک زندگی بہترین نمونہ ہے “(الاحزاب /۱۲)۔
دورحاضرمیں مسلمانوں کودیکھنے کے بعد یہ سوال پیداہوتاہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں کس بات کی جانب رہنمائی نہیں ہے ؟ جس کودورکرنے کے لیے ہم نے یورپ کی طرف نگاہ اٹھائی؟جب کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ میں غریب کے لیے بھی زندگی ہے ،اور امیر کے لیے بھی ،ایک کالے انسان کے لیے بھی میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ اسوۂحسنہ ہے اورایک گورے کے لیے بھی
مختصربات یہ کہ اگرکوئی باپ ہے توفاطمہ الزہرا رضي الله عنہا کے باپ کودیکھے، اورکوئی شوہر ہے تو خدیجہ رضي الله عنہا وعائشہ رضي الله عنهاکے شوہر کو دیکھے اگرکوئی ایک کاروباری تاجر ہے تو ملک شام جاکر تجارت کرنے والے کودیکھے،اگرکوئی ایک حاکم ہے تومدینہ کے حاکم کودیکھے،اگرکوئی ایک جج ہے تو مدینہ منورہ کی چھپر والی مسجد میں بیٹھ کرفیصلہ کرنے والے جج کودیکھے،اگرکوئی الیکشن میں جیت چکا ہے تومکہ کے فاتح کو دیکھے، اگر کوئی ایک استاد ہے توسوا لاکھ صحابہ رضي الله عنهم کوپڑھانے والے استاد وٹیچرکو دیکھے
بہرحال زندگی کے قدم قدم پرہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ موجودہے، پھر ہمارے لیے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی گزارنے میں دوسرے کے طریقے کے محتاج ہوں۔
بہرحال حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم خود اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کودیکھ کرہمیں اپنی زندگی کے قدم کو آگے بڑھانا ہوگا،اسی میں ہماری ترقی کارازپوشیدہ ہے،ورنہ ہماری تعدادکتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو
لیکن اگرہم میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ نہیں ہے توہم سیلاب کے تنکوں کی مانندہوں گے،جسے اڑانے کے لیے کسی بڑے طوفان کی ضرورت نہیں، بلکہ انسان کی ایک پھونک ہی کافی ہے۔
اللہ عز و جل ہم سبھی مسلمانوں کو حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے اور آپ کی اتباع کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین
تحریر:(مولانا) دلاور حسین قادری
صدرالمدرّسین:دارالعلوم انوارِمصطفیٰ
سہلاؤشریف،باڑمیر، (راجستھان)۔
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع