تحریر: غلام وارث الشاہدي العبیدي سلطان صلاح الدین ایوبی عالم اسلام کا عظیم مجاہد
سلطان صلاح الدین ایوبی عالم اسلام کا عظیم مجاہد
عالم اسلام میں کئی معرکے ہوئے ،عاشقان رسول ناموس اسلام کی خاطر پھانسی کے پھندوں کو بہشت کا ہار یقین کرکے چوم لیے،محبت رسول میں غوطہ زن ہو کر تلوارو کے سائے میں رقص کرنے لگے۔
جاں نثاروں کی فہرست میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام نمایاں ہے،جن سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی،عیسائی دنیا لرز اٹھی،اسلامی و غیر اسلامی بھائیوں،بہنوں کی عزت و آبرو دوبارہ لوٹ آئی
گیارہویں صدی عیسوی کے آخر (1091ء)سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا،یہ سلسلہ تیرہویں صدی عیسوی کے آخر(1091ء سے 1291ء)تک جاری رہا،دو صدی سے زائد اس معرکہ آرائی میں جرمنی،فرانس،برطانیہ،اور یورپ کے تمام عیسائی حکم رانوں نے حصہ لیا۔ان صلیبیوں کا مقابلہ والئ موصل عماد الدین زنگی،سلطان نور الدین زنگی،ارطغرل غازی،عثمان غازی،سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدوں نے کیا۔
صلاح الدین ایوبی 19 ستمبر 1138ء 532ھ کو مقام تکریت میں پیدا ہوئے۔ 27 صفرالمظفر 589ھ 57 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اسم گرامی یوسف رکھا گیا
صلاح الدین ایوبی نے نور الدین زنگی کے زیر سایہ تعلیم و تربیت پائی 1160ء 555ھ میں جب صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کا مصر سے اخراج کیا تو خلیفہ العاضد الدین نے ملک الناصر صلاح الدین ایوبی کا نام عطا کیا اس وقت آپ کی عمر شریف 22 برس تھی
سلطان نور الدین زنگی کی طرح صلاح الدین ایوبی کو بھی بیت المقدس سے والہانا عشق تھا،یہودیوں،عیسائیوں،اور مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل شہر ہے،یہودی اسے یوں مقدس سمجھتے ہیں کہ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے عظیم الشان عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) بنائی تھی
عیسائی اہم اس لیے جانتے ہیں کہ یہاں حضرت عیسی علیہ السلام نے تعلیم و تبلیغ کا سلسلہ جاری فرمایا تھا،اور مسلمانوں کے لیے یہ شہر اس لیے مقدس ہے کہ اس قبلہ اول سے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج فرمایا تھا۔
۔638 ء میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس (یروشلم) فتح فرمایا،اس فتح کے نتیجے میں مسلمان اور عیسائی یہاں پر امن رہنے لگے۔
یہودی،عیسائی،اور مسلمان دیگر علاقوں سے یہاں زیارت کے لیے آتے رہے۔ پھر 1099ء میں عیسائی فوج نے بیت المقدس(یروشلم) پر قبضہ کرلیا،وہاں کے باشندوں کا بے دردی سے قتل عام کیا،بیت المقدس کی آزادی کے لیے جب صلاح الدین ایوبی نے اپنی بے نیام تلوار فضا میں لہرائی تو تمام عیسائی دنیا صلاح الدین ایوبی کے خلاف صف آرا ہوگئی۔
صلیبی فوج کی تعداد دس لاکھ سے زائد تھیں جب کہ صلاح الدین ایوبی کا لشکر چالیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا،صلیبیوں کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا،باعمل اہل اسلام کے پاس صرف برہنہ تلواریں اور اللہ کی ذات پر غیر متزلزل یقین۔یہ وہ ہتھیار تھے جس کے ذریعے صلاح الدین ایوبی نے تیسری صلیبی جنگ 1187ء میں وہ عظیم الشان فتح حاصل کی جس کی سوزش سے آج بھی عیسائی دنیا کے سینے جلتے ہیں۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے،وہ شیر بھی آشکار ہوگا
پہلی صلیبی جنگ اور سقوط بیت المقدس
پانچویں صدی ہجری کے آخر جب خلافت عباسیہ زوال پذیر تھی اورامت مسلمہ مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کمزور ہوچکی تھی مسیحی اقوام کو اپنی ناپاک آرزؤوں کی تکمیل کا موقع مل گیا، پطرس راہب نے مسلمانوں کے مظالم کی فرضی داستانیں سنا کر پورے یورپ میں اشتعال پیدا کردیا،مسیحی دنیا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ لگادی۔
مکمل تیاریوں کے بعد فرانس،انگلینڈ،اٹلی،جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی افواج پر مشتمل تیرہ لاکھ افراد کا سیلاب عالم اسلام کی سرحدوں پر ٹوٹ پڑا۔شام اور فلسطین کے ساحلی شہروں پر قبضہ کرنے اور وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد کا قتل عام کرنے کے بعد شعبان 492 ھ جولائی 1099ء میں صلیبی افواج نے بیالیس دن کے محاصرے کے بعد بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور وہاں خون کی ندیاں بہا دیں۔
صلیبیوں نے ایسے تعصب کا ثبوت دیا جس کی مثال نہیں ملتی،مسلمانوں کو اونچے اونچے برجوں اور مکانوں کی چھت سے گرایا گیا،آگ میں زندہ جلایا گیا،گھروں سے نکال کر میدان میں جانوروں کی طرح گھسیٹا گیا، صلیبی جنگجو مسلمانوں کو مقتول مسلمانوں کی لاشوں پر لے جاکر قتل کرتے،کئی ہفتوں تک قتل عام کا یہ سلسلہ جاری رہا،ستر ہزار سے زائد مسلمان(صرف اقصی میں)تہ تیغ کیے گیے۔
عالم اسلام پر نصرانی حکمرانوں کی یہ وحشیانہ یلغار تاریخ میں پہلی صلیبی جنگ کے نام سے مشہور ہوئی
عیسائی کمانڈروں نے فتح کے بعد یورپ کو خوش خبری بھیجوایا اور اس میں لکھا:اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ ہمارا سلوک معلوم کرنا چاہیں تو مختصرا اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ جب ہمارے سپاہی حضرت سلیمان علیہ السلام کے معبد(مسجد اقصی)میں داخل ہوئے تو ان کے گھٹنوں تک مسلمانوں کا خون تھا۔
سقوط بیت المقدس کے بعد مسیحی اقوام نے مقبوضہ شام و فلسطین کو تقسیم کر کے القدس،طرابلس،انطاکیہ،اور یافاکی چار مستقل ریاستیں قائم کرلیں،حالات نہایت ہی پر خطر تھے،عالم اسلام کے اکثر حکمراں خانہ جنگیوں میں مست تھے،بعض صلیبیوں کے حلیف بن گئے تھے،ان میں سے کوئی بھی نصرانیوں سے ٹکرانے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا۔
اس صورت حال میں صلیبیوں کا مسلمانوں کے ملکوں میں داخلہ آسان تر بنتا گیا،یہاں تک کہ صرف ایک سال اور چند ماہ کے مختصر عرصے میں اس حساس اسلامی خطے میں تیں صلیبی حکومتیں معرض وجود میں آگئیں۔
۔(1) ،،رھا،، کی حکومت جو 10 مارچ 1098ء کو قائم کی گئی
۔(2) ،،انطاکیہ،، کی حکومت :اسی سال ہی،،حزیران،،میں قائم ہوئی جس نے،،القدس،،شہر پر قبضہ کیا پھر 1099ء میں،،القدس،، شہر میں اس حکومت کو منتقل کردیا گیا۔۔۔۔۔۔پھر یہ شہر صلیبیوں کی ہاتھوں ہی چلتا رہا،یہاں تک کہ (88 برس بعد)صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے 1187ء میں ان سے واپس لیا۔
۔(3) ،،طرابلس،، کی حکومت:1109ء میں بنائی گئی۔
اس کرب ناک حالات میں اللہ پاک نے ایک ترکی نوجوان،،عماد الدین زنگی کو اس کام کے لیے حوصلہ بخشا،یہاں تک کہ 521 ھ میں انہوں نے ایک چھوٹی سی ریاست بنائی،پھر بتوفیق الہی اپنی شان عبقری،ہمت و جرأت،جذبہ ایمانی اور غیرت اسلامی سے سرشار ہو کر،مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں پر لبیک کہتے ہوئے حلب،حماة،حمص، کو اپنی ریاست کا حصہ بنالیا
دیکھتے ہی دیکھتے اس جہاد کی برکت سے ،،رھا،، کا علاقہ صلیبیوں کے ہاتھوں سے آزاد کروالیا اور 539 ھ بمطابق 1144 ءمیں عیسائی کی اس حکومت کو ختم کردیا،پھر کچھ ہی عرصے میں بعل بک کو بھی اپنی ریاست کا حصہ بنا لیا۔
پھر نور الدین زنگی علیہ الرحمتہ کے بعد انہیں کے شاگرد رشید ناصر یوسف صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمتہ نے بیت المقدس اور فلسطین کو آزاد کروانے کے لیے پھر سے علم جہاد کو بلند فرمایا،صلاح الدین ایوبی کی شخصیت تقریبا تمام اسلامی محاسن و خصائص سے مزین تھی،ان میں بردباری و پرہیزگاری،ارادے کی پختگی و پیش قدمی،دنیا سے بے رغبتی اور سخاوت،مہارت سیاسی و تدبیر عملی،ہمہ وقت جہاد کے لیے کمر بستہ،علم سے دوستی اور علما کی قدر دانی جیسی اعلی صفات قابل رشک تھیں۔
حطین میں صلیبیوں پر قہر و غضب
حطین بحیرہ طبریہ کے مغربی جانب واقع ہے،جو اب مقبوضہ فلسطین میں ہے۔یہ ایک سر سبز شاداب بستی ہے جس میں پانی کی فراوانی بھی ہے۔اس میں جیسا کہ زبان زد عام ہےکہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قبر انور بھی موجود ہے۔اس بستی کے قریب ہی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ کا صلیبیوں سے ایک خون ریز معرکہ ہوا تھا یہ معرکہ 583ھ 24 ماہ ربیع الاول بروز ہفتہ کو رونما ہوا۔
صلیبیوں پر مجاہدین کا قہر وغضب
انہیں یہ خبر ملی تھی کہ،،صفوریتہ،،کی چراگاہ مین صلیب کے پجاری اپنے لاؤ لشکر سمیت اکھٹے ہورہے ہیں۔سلطان اپنے لشکر سمیت حطین کے علاقے بحیرہ طبریہ کے غربی پہاڑ پر ان کے قریب ہی خیمہ زن ہوئے۔انہوں نے صلیبیوں کو ابھارا اور انہیں وہاں سے نکال کر ایسے علاقے کی طرف لانے میں کامیاب ہوگئے جہاں پانی نہ تھا۔راستوں میں جو چند چشمے اور تالاب تھے ان کو بھی مسلمان مجاہدین نے ناقابل استعمال بنادیا تھا۔
جب مسلمان اور صلیبی ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو شدت پیاس سے صلیبی تڑپ نے لگے۔اس کے باوجود فریقین لڑتے رہے،مسلمان بہادری اور صبر سے داد شجاعت دیتے رہے،مسلمانوں کے مقدمةالجیش یعنی سپاہ کے اگلے دستے بلندی پر چڑھنے میں کام یاب ہوگئے۔جس کے بعد انہوں نے دشمن اسلام پر تیروں کی بارش برسائی اس سے دشمن کے ان گنت گھوڑ سوار واصل جہنم ہوئے۔
اس دوران صلیبیوں نے پانی کے چشمے کی طرف بڑھنے کی کوشش کیں کیوں کہ وہ سمجھ چکے تھے کہ بوجہ شدت پیاس کثیر تعداد میں واصل جہنم ہو رہے ہیں،اس بیدار مغز قائد و سپہ سالار نے ان کے مقاصد کو بھانپ لیا تو ان کے اور ان کے مطلوبہ چیز کے درمیان حائل رہا اور ان کی شدت پیاس برقرار رکھا
جذبہ شہادت میں آگ لگا دینے والا شعلہ بار خطاب بعد فتح عسقلان سلطان نے تمام لشکروں کو جو اطراف و اکناف میں منتشر ہوئے تھے،بیت المقدس کی طرف کوچ کرنے کے لیے جمع فرمایا،
علما،فضلا،اور اہل علم کو جو سلطان کی کامیابی سن کر مختلف ممالک و دیار سے جمع ہوئے تھے،ساتھ لیا اور اللہ پاک سے فتح و نصرت کی دعا مانگتے ہوئے اس مقدس گھر کی طرف راہی ہوئے۔بیت المقدس کے قریب پہنچنے پر جب عیسائیوں کی فوج اور مسلمانوں کے مقدمة الجیش کے درمیان مڈ بھیڑ ہوگئی
تو سلطان نے تمام ارکان دولت،اہل شجاعت،شہزادگان مرتبت،برادران عالی ہمت اور تمام امرا،صلحا،مصاحبین اور اہل لشکر کا ایک دربار مرتب فرمایا اور ان سب سے صلاح و مشورہ فرمایا اور خاتمہ پر ان سب کو خطاب کرکے ایک پر اثر تقریر کی اور کہاں کہ:۔
اگر اللہ پاک کی مدد سے ہم نے دشمنوں کو بیت المقدس سے نکال دیا تو ہم کیسے سعادت مند ہوں گے اور جب وہ ہمیں توفیق بخشے گا تو ہم کتنی بڑی بھاری نعمت کے مالک ہوجائیں گے۔بیت المقدس 91 برس سے کفار کے قبضے میں ہے اور اس تمام عرصے میں اس مقدس مقام پر کفر و شرک ہوتا رہا ہے
ایک دن بلکہ ایک لمحہ بھی حضرت احد کی عبادت نہیں ہوئی۔اتنی مدت تک مسلمان بادشاہوں کی ہمتیں اس کی فتح سے قاصر رہیں،اتنا زمانہ اس پر فرنگیوں کے قبضہ کا گذر گیا،بس اللہ پاک نے اس فتح کی فضیلت آل ایوب کے واسطے رکھی تھی کہ مسلمانوں کو ان کے ساتھ جمع کرے اور ان کے دلوں کو ہماری فتح سے رضا مند کرے
بیت المقدس کی فتح کے لیے ہمیں دل و جان سے کوشش کرنی چاہیئے،بے حد سعی اور سر گرمی دکھانی چاہیئے۔بیت المقدس اور مسجد اقصی جس کی بنا تقوی پر ہے جو انبیاء علیھم السلام اور اولیاء عظام کا مقام اور پرہیزگاروں،نیکوں کاروں کا معبد اور آسمان کے فرشتوں کی زیارت گاہ ہے۔صد افسوس وہاں کفاروں کا قبضہ ہے۔کافروں نے اس کو اپنا تیرتھ بنا رکھا ہے۔
افسوس،افسوس! اللہ کے پیارے بندے جوق در جوق اس کی زیارت کو آتے ہیں۔اس میں وہ بزرگ پتھر ہے جس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جانے کا منہاج بطور یادگار بنا ہوا ہے جس پر ایک بلند قبہ تاج کے مانند تیار کیا ہوا ہے،جہاں سے بجلی جیسی تیزی کے ساتھ براق برق رفتار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوکر آسمان پر تشریف لے گئے
اور اس رات حضرت احد سے وہ روشنی حاصل کی جس سے سارا جہاں منور ہوگیا۔اس میں سلیمان علی نبینا علیہ السلام کا تخت اور سیدنا داؤد علیہ السلام کی محراب ہے،اس میں چشمہ سلوان ہے جس کے دیکھنے والوں کو حوض کوثر یاد آجاتا ہے،یہ بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے،اور مبارک گھروں میں شامل ہے،اور ان تین مسجدوں میں سے ایک مسجد ہے جس کے بارے میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف سفر کیا جائے اور لوگ ارادت مندی سے وہاں جائیں،،کچھ عجیب نہیں کہ اللہ عزوجل وہ پاک مقام مسلمانوں کے حوالے کردے۔
غرض سلطان نے ایک ایسی مؤثر اور دل کش تقریر سامعین کی سماعت کے حوالے کیے کہ مخاطبین خوش و پرجوش ہوگئے،سلطان نے اللہ پاک کی قسم اٹھائی کہ جب تک بیت المقدس پر اسلام کے جھنڈے نصب نہ کروں اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کروں اور صخرہ مبارک پر قابض نہ ہوجاؤں اپنی کوشش کے پاؤں کو نہ ہٹاؤں گا
اس قسم کے پورے کرنے تک لڑوں گا مسلمان اور عیسائی مؤرخ اس امر پر متفق ہیں کہ پروشلم میں اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ متنفس موجود تھے جن میں بقول ایک مسلمان مؤرخ ساٹھ ہزار عیسائی جنگ کرنے کے قابل تھے شکست حطین کے بعد تمام عیسائیوں کے قلوب میں سلطان کا رعب و دبدبہ بیٹھ چکا تھا۔
فتح بیت المقدس
حطین میں کامیاب و کامران ہونے کے بعد القدس کی جانب راستہ بالکل ہموار ہوچکا تھا،اب یہ بات ممکن تھی کہ صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمتہ اس کی طرف قصد فرماتے اور قدرے کوشش کرکے اس کو اپنے فتح فرما لیتے،لیکن انہوں نے اس کو عسکری نقطہ نظر سے ملاحظہ فرمایا اور یہی بات ان کی اعلی شخصیت اور شان عبقریت کو نمایاں کررہی ہے۔
انہوں نے یہ سوچا کہ القدس تو کئی شہروں کے درمیان واقع ہے اور ساحل سمندر پر صلیبیوں کے کئ مراکز قائم ہو چکے ہیں،جہاں سے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات بڑی آسانی سے قائم کر سکتے ہیں۔تو سلطان نے اولا ساحل سمندر کے تمام مراکز کو کمزرو کرکے القدس کو فتح کرنے کے لئے روانہ ہوگئے،سلطان نے فتح حطین کے بعد درجہ ذیل شہروں اور قلعوں کو فتح فرمایا
عکا،قیساریہ،حیفا،صفوریہ،معلیا،شقیف،الغولہ،الطور،سبطیہ،نابلس،مجدلیانہ،یافا،تبنین،صیدا،جبیل،بیروت،حرفند،عسقلان،الرملہ،بیت لحم،بیت جبرائیل، ان کے علاوہ ہر وہ چیز جو صلیبی افواج کے قبضے میں تھیں۔
القدس کو فتح کرنے کے لئے سلطان نے مصر سے اسلامی بحری بیڑے بھی منگوا لئے،جو حسام الدین لؤلؤ الحاجب کی زیر قیادت پہنچے۔جو اپنی جرأت و بسالت اور عظیم،مشکل ترین کاموں میں بلاخوف و خطر کود جانے میں مشہور زمانہ تھے انہوں نے بحر متوسط میں چکر لگانے شروع کردیئے،خصوصا اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ کہیں یورپ کے فرنگی ساحل فلسطین تک پہنچنے میں کایاب نہ ہونے پائیں
۔583 ھ15 رجب المرجب بروز اتوار کو القدس کے قریب اترے،بیت المقدس میں محصور عیسائیوں سے کہا کہ بغیر خون ریزی کے القدس ہمارے حوالے کردو لیکن محصورین نے متکبرانہ انکار پیش کیا،سلطان نے حملہ کرنے کا حکم فرمایا،صلیبیوں نے دیکھا کہ مجاہدین القدس کو چھڑوانے کی خاطر،موت کو گلے لگا رہے ہیں اور انہیں اپنی ہلاکت و بربادی کا یقین ہوگیا تو سوائے امن طلب کرنے کے کوئی چارہ نہ دیکھا تو وہ مذکرات کی طرف مائل ہوئے،صلیبیوں نے اس شرط پر امان کے طلب گار ہوئے کہ بیت المقدس سلطان کے حوالے کیے دیتے ہیں تو آخر سلطان نے ان کی طلب کو مان لیے، بیت المقدس لے کر انہیں امان نامہ دینے پر راضی ہوگیے
تحریر: غلام وارث الشاہدي العبیدي
پورنیہ بہار
ان مضامین کو بھی پڑھیں
دوسرا صلاح الدین ایوبی کیوں نہیں ہوتا ؟۔
بحرین اور اسرائیل معاہدہ قابل مذمت
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع