از قلم: محمد رضوان عالم مرکزی اعلی حضرت ہم سنیوں کی رفعت کا نام ہے
اعلی حضرت ہم سنیوں کی رفعت کا نام ہے
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت دریاے رحمت آقاے نعمت مجدد دین و ملت قاطع کفر و ضلالت مردددیوبندیت ونجدیت حامئ سنت ماحئ بدعت آیۃ من آیات اللہ معجزۃ من معجزات رسول اللہ عاشق رسول باغ طیبہ کےمہکتے پھول شیخ الاسلام والمسلمین الحاج الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کی شخصیت اور آپ کی ذات محتاج تعارف نہیں سرزمین بریلی سے لے کر پوری دنیا آپ کو جانتی اور پہچانتی ہے۔
آپ کی ذات تو وہ ذات ہے کہ جس پر فقہا ہی نہیں بلکہ فقاہت ناز کرتی ہے ، علما ہی نہیں بلکہ علم ناز کرتا ہے، فصحا ہی نہیں بلکہ فصاحت ناز کرتی ہے، ادبا ہی نہیں بلکہ ادب ناز کرتا ہے، بلغاء ہی نہیں بلکہ بلاغت ناز کرتی ہے، عشاق ہی نہیں بلکہ عشق ناز کرتا ہےحد تو یہ ہے کہ اِس شخصیت کی بارگاہ میں سارے علوم و فنون سر خم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آپ کی ذات کو قادریت سے نسبت تھی، آپ کی ذات کو نقشبندیت سے لگاؤ تھا ،آپ کی ذات کو سہروردیت سے دل چسپی تھی اور آپ کی ذات کو چشتیت سے بھی حد درجہ محبت تھی۔
تبھی تو امام النحو علامہ غلام جیلانی میرٹھی نے کہا ہے: نقشبندی قادری چشتی سہروردی کے تم ہو امیر کارواں مقبول ربِ ذوالمِنن
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہٗ نے اپنے آغازحیات(10/شوال المکرم1272ھ 14/جون1856ء)سے لے کراختتام حیات(25/ صفر المظفر 1340ھ 28 /اکتوبر 1921ء) تک اپنی پوری زندگی شب و روز لیل ونہار رات ودن اور ہرہرلمحہ کو خدمت خلق میں گزاراتھا۔
بلاشبہ امام احمد رضا خان اپنے دور میں پوری دنیا کے لیے مرجع خلائق تھے اور آپ نے تقریبا 54/ سال مسند افتا کو رونق بخشی، علوم و معارف کے سمندروں کی غواصی کر کے علم و حکمت اور فضل وعرفان کے آبدارموتیوں سے اہل اسلام کے ایمان و ایقان کو جلا بخشی اور عقائد و اعمال کو مزین ومرصع فرمایا۔
حقیقت و معرفت کے بحر بیکراں کو کھنگالا ،معارف لدنیہ کے دریا بہائے، جہالت و گمراہی کے خلاف علم جہاد بلند کیا، الحاد و بے دینی کے پنجے مروڑے، جگہ جگہ چپہ چپہ قریہ قریہ علم و آگہی کی شمعیں فروزاں کیں اورعشق وعرفان کے چراغ جلائے
لوگوں کو محبت رسول کا جام پلایا، باطل کے خلاف علماے ربانیین کی جماعتیں تیار کیں اور ہندو پاک میں نگر نگر ڈگر ڈگررشدوہدایت کے مراکز قائم کیے اور رہتی دنیا تک بریلی شریف کو علم وعرفان شریعت و طریقت حقیقت ومعرفت حق وصداقت حق گوئی و بے باکی اور علم رسالت وعشق مصطفی کا عظیم مرکز بنا دیا ۔ یہی تو وجہ ہے کہ آج تک سنی اپنا مرکز بریلی شریف کو ہی مانتا ہے
میں نے جو موضوع منتخب کیا ہے “اعلی حضرت ہم سنیوں کی رفعت کا نام ہے” اس لیے کہ اعلٰی حضرت نے ہمارے عقائد و اعمال کی حفاظت کی ہے، ہم سنیوں کو رفعت بخشی ہے، ہم اہل سنت وجماعت کے عقائدونظریات کوقرآن وحدیث اوراقوال ائمہ وفقہا کی روشنی میں اِس طرح اجاگر کیا ہے اِس طرح رفعت بخشی ہےکہ رہتی دنیا تک ہمارے عقائد ونظریے پرکرئی حرف نہیں اٹھا سکتا۔
دیکھیے: جب سرزمین پنجاب سے مسیلمہ کذاب ثانی مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کا دعوی کر رہا تھا اپنے آپ کو مسیح اور مثل مسیح کہلاتا تھا اور طرح طرح کے واہیات بک رہا تھا ۔
کبھی تو یہ کہتا:”میں احمد ہوں جو آیت” مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد”میں مراد ہے”.
( ایک غلطی کاازالہ صفحہ673 جو مرزا کا ایک رسالہ ہے)
کبھی یہ کہتا: “میں محدث ہوں اورمحدث بھی ایک معنی سے نبی ہوتا ہے”۔(توضیح المرام صفحہ 9)۔
کبھی یہ کہتا:”سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا “۔(دافع البلا صفحہ 9)۔
اور کبھی یہ کہتا: “میں بعض نبیوں سے بھی افضل ہوں”۔(اشتہارمعیارالحق)۔
اِن کے علاوہ اور بھی اِس کے اقوال کفریہ وخبیثہ ہیں جنہیں میں خوفِ طوالت سے چھوڑ رہا ہوں، اِس طرح یہ شیطان لوگوں کو گمراہ کر رہا تھا فتنہ پھیلا رہا تھا خود بھی کافر اور دوسرے کو کافر بناتا تھا اُس دورکےعلما نےجب اِن واہیات وخرافات کو دیکھا تو سبھی نے اِس مرزا غلام قادیانی شیطانی کا ردبلیغ کیا
اور خاص کر ماحئ فتن سرداراہل سنن حضوراعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ نےدلائل عقلیہ و نقلیہ اوربراہین مبینہ سے اس طرح اِس کافر شیطان کا ردبلیغ کیا اور اِس کے گمراہ اور کفری خیالات کو اس طرح چکنا چور کیا کہ جس سے کئی رسائل معرض وجود میں آگئے
جن کے اسمائے قدسیہ یہ ہیں:السوء والعقاب علی المسیح الکذاب، قھرالدیان علی المرتد القادیان، الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی۔اورعقائداہل سنت کو ثابت کرکےسنیوں کو رفعت وبلندی کی دولت سے نواز دیا۔
اوردیکھئے: جب ختم نبوت کا انکار کیا جا رہا تھا ،ہمارے نبی کے بعد نبی آنے کو تسلیم کیا جا رہا تھا، ہمارے نبی کے علم کو شیطان کے علم سے کم بتایا جا رہا تھا ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پاک کو زید بکر چوپائے وغیرہ کے علم کے مشابہ قرار دیا جا رہا تھا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ “حضور کو دیوار کے پیچھے کی خبر نہیں ،نبی کی تعظیم بڑے بھائی جیسی کرو، نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنے سے نماز نہیں ہوگی یعنی کھلم کھلا اپنی اپنی کتابوں میں نبی کی شان میں گستاخیاں لکھی جارہی تھیں اور وہ خدا جو جمیع عیوب سے پاک ہے جھوٹ سے پاک ہے اس ذات کی طرف جھوٹ کی نسبت کی جارہی تھی اور بھی اقوال بدتر ازبول بکے جا رہے تھے۔
جب مجددمأة ماضیہ وحاضرہ، مؤید ملت طیبہ وطاہرہ کی بارگاہ میں اِن اقوال باطلہ وعقائد کفریہ کو پیش کیا گیا اور آپ نے سنا تو آپ کے رُخ انورکا رنگ متغیر ہو گیا
اور قلم ذوالفقار سے ان شیاطین کا (اسماعیل دہلوی ،قاسم نانوتوی، اشرفعلی تھانوی، خلیل انبیٹھوی اور رشید احمد گنگوہی )۔
ایساردفرمایا کہ باطل کا قلع قمع کر دیا اور دنیا والوں کو بتا دیا کہ جو نبی کی شان میں گستاخی و بے ادبی کرتا ہے اللہ رب العزت کی عیب جوئی کرتا ہے اس کا جینا مرنےسے بدتر ہےکیونکہ وہ کافر و مرتد ہے، اس کی گواہی آپ کے یہ رسائل دے رہےہیں:المبین ختم النبیین، الکوکبۃ الشھابیۃ فی کفریات ابی الوھابیۃ، سل السیوف الھندیۃعلی کفریات باباالنجدیۃ، سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح، القمع المبین لِآمال المکذبین، جزاءاللہ عدوہ بإبائہ ختم النبوۃ۔
امام احمد رضا نے اِن عقائد باطلہ کو رد کر کے ہم سنیوں کو وہ رفعت بخشی ،وہ عروج بخشاکہ کبھی بھی کوئی عقائد اہل سنت کےخلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
اسی طرح جب سائنس دانوں کے اِس نظریے کو کہ “زمین و آسمان گردش کرتے ہیں “اعلی حضرت کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو حضور اعلی حضرت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اِس شہرہ آفاق اور معرکۃ الآراء مسئلہ پر اپنی مشہور زمانہ کتاب مستطاب “فوز مبین در رد حرکت زمین “میں ایک سو پانچ(105) دلائل و براہین سے رد بلیغ اورتحقیق وتنقیح فرما کرثابت کیا ہے کہ زمین وآسمان دونوں ساکن ہیں حرکت میں نہیں ہیں ہاں کواکب گردش کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اعلی حضرت نے اِس نظریے کے رد میں اور بھی دو(2)رسالے”نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان، معین مبین بہر دور شمس وسکون زمین “سپرد قرطاس کیے ہیں اور زیر نظر مسئلہ کو اسلامی نظریہ کے مطابق اجاگر کرکے رکھ دیا ہے۔
ایک اوربات: کہ جب کوئی غلام نبی اذان میں کلمئہ “اشھد ان محمدارسول اللہ” سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے مس کرتا تو کچھ لوگ ناجائز بتاتے انکار کرتے منع کرتے روکتے جب یہ مسئلہ امام کی بارگاہ میں پیش ہوا تو پیارے امام نے احادیث کریمہ اور اقوال علما کی روشنی میں اپنی مایہ ناز کتاب” منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین“میں منکرین کا رد فرمایا اور جواب یوں تحریر فرمایا کہ” حضور پُرنورشفیع یوم النشورصاحب لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نام پاک اذان میں سنتے وقت انگوٹھے یا انگشتان شہادت چوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز، جس کے جواز پر مقام شرع میں دلائل کثیرہ قائم۔
اور خود اگر کوئی دلیل خاص نہ ہوتی تو منع پرشرع سےدلیل نہ ہونا ہی جواز کے لیے دلیل کافی تھا، جو ناجائز بتائے ثبوت دینا اس کے ذمہ ہے کہ قائل جوازمتمسک باصل ہےاور متمسک باصل محتاج دلیل نہیں پھر یہاں تو حدیث وفقہ وارشاد علما وعمل قدیم سلف صلحاسب کچھ موجود۔
علماے محدثین نے اِس باب میں حضرت خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبروحضرت ریحانئہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیدنا امام حسن و حسین و حضرت نقیب اولیاے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سیدنا ابوالعباس خضرعلی الحبیب الکریم وعلیہم جمیعاً الصلوۃ والتسلیم وغیرھم اکابرین دین سے حدیثیں روایت فرمائیں جس کی قدرتفصیل امام علامہ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتاب مستطاب”مقاصد حسنہ” میں ذکر فرمائی
اورجامع الرموز شرح نقایہ مختصر الوقایہ وفتاوی صوفیہ وکنزالعباد وردالمحتار حاشیہ در مختار وغیرھاکتب فقہ میں اِس فعل کے استحباب واستحسان کے صاف تصریح آئ ان میں اکثر کتابیں خود مانعین اور ان کے اکابروعمائد مثل متکلم قنوجی وغیرہ کے مستندات سے ہیں”۔
بالجملہ حضور اعلی حضرت کی بارگاہ میں جو بھی خلاف شرع مسئلہ پیش کیا گیا آپ نے اس کا پُرزور دفاع کیا اور خلاف شرع عقیدہ رکھنے والے کا منہ کالا کیا، یہ اعلی حضرت کا ہم سنیوں پر احسان عظیم ہے کہ اس ذات نے ہمارے عقائد و اعمال کو دلائل قرآنیہ وحدیثیہ سے مزین ومرصع کرکے اس طرح مستحکم و مضبوط بنا دیا ہے کہ رہتی دنیا تک ہم سنیوں کی رفعت، ہم سنیوں کی شان بڑھتی اور اجاگرہوتی رہے گی اسی وجہ سے میں نے اپنے موضوع کا انتخاب “اعلی حضرت ہم سنیوں کی رفعت کا نام ہے”کیاہے۔
اخیر میں دو شعربارگاہ اعلی حضرت میں
تمہاری شان میں جو کچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو
قسیم جام عرفاں ائےشہ احمد رضا تم ہو
یہاں آکرملیں نہریں شریعت اورطریقت کی
ہےسینہ مجمع البحرین ایسے رہنما تم ہو
ازقلم . محمد رضوان عالم مرکزی غفر له القوي
مسکن: گھیراباڑی، ٹھاکرگنج کشن گنج بہار
-
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع