فضائل و مناقب مصطفویہ اور تالیفات و تصنیفات : تحریر، طارق انور مصباحی
فضائل و مناقب مصطفویہ اور تالیفات و تصنیفات
مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما
حضور اقدس تاج دار دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے اپنی تخلیق کا ایک کامل نمونہ بنایا۔ان کا ظاہر و باطن,ان کے اعمال و اخلاق,محامد ومحاسن,فضائل و مناقب,اوصاف وکمالات سب کچھ بے نظیر ہیں۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صحیح توصیف بیانی وہی کر سکتا ہے جس کو اپ کے فضائل وکمالات کا مکمل علم ہو۔
جب کہ مخلوقات میں کوئی ایسا نہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (یا ابا بکر! لم یعرفنی حقیقۃ سوا ربی)۔ ( مطالع المسرات للعلامۃ الفاسی)۔
ترجمہ: اے ابوبکر! درحقیقت مجھے میرے رب کے علاوہ کسی نے پہچانا نہیں۔
فارسی زبان کا ایک شعر بہت مشہور ہے
ہمہ پیغمبراں در جستجو اند
خدا داند کہ تو در چہ مقامی
ترجمہ:تمام انبیاے کرام تلاش و جستجو میں مشغول ہیں۔
آپ کا رب ہی جانے کہ اپ کس مقام پر فائز المرام ہیں
(علیہ وعلی اخوانہ الصلوۃ والسلام)
ما و شما اگر اپنی جانکاری کے مطابق مدح نبوی میں کچھ رقم کریں یا زبان سے ادا کریں تو مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے اس عمل صالح کو قبول فرما لے اور اپنے حبیب علیہ التحیۃ والثنا کے تصدق ہمیں بھی کچھ نعمتیں میسر آ جائیں۔
الحاصل اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان پاک کی تفصیل کا ہمیں علم وادراک نہیں اور اجمال وہی ہے جو دربار اعظم کے عاشق صادق اور غلام مقبول حضرت علامہ جامی قدس سرہ العزیز نے عرض کر چکے:۔
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ تر توئی قصہ مختصر
ترجمہ:۔ اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شایان شان توصیف بیانی (مخلوقات سے)ممکن نہیں۔
اجمال و خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے بعد سب سے عظیم ترین اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہی ہیں۔
یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب وہابیہ اور دیابنہ نے شان مصطفوی پر انگشت نمائی شروع کی تو علماے اہل سنت و جماعت نے حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی شان اقدس میں اس قدر کثیر تصانیف و تالیفات اور دواوین و دفاتر سپرد قوم کئے کہ جس کثرت کی مثال عہد ماضی میں نہیں ملتی۔
گرچہ متاخرین نے متقدمین کی تصانیف سے ہی خوشہ چینی کی ہے,لیکن علماے متاخرین نے وہابیہ کے مجنونانہ لاف و گزاف کا منہ توڑ اور کمر شکن جواب دیا تا آں کہ وہابیہ بھی عوام کو دکھانے کے واسطے حضور اقدس علیہ التحیۃ والثنا کے فضائل و مناقب بیان کرنے پر مجبور ہوئے۔
اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ چند باہمت نوجوان اٹھیں اور وہابیت کے افسوس ناک سوالوں کے رد وابطال میں علماے حق نے محاسن نبویہ و فضائل مصطفویہ پر جو دفاتر حالیہ دو صدیوں میں رقم فرمائے ہیں,ان کی فہرست سازی کریں اور ان مجموعات کا تعارف بھی قلم بند کریں۔
بھارت میں حسام الحرمین کی جلوہ گری سے قبل شیاطین دیوبند اور دیگر وہابیہ کا مشغلہ یہی تھا کہ یہ متبعین اسماعیل دہلوی و مریدان عزازیل آتشی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان اقدس میں نقص وعیب تلاش کرتے رہتے۔
زبانیں بے لگام اور قلوب سیاہ فام ہو چکے تھے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ اپنے کفر سے آشنا ہو کر بھی توبہ و رجوع کی توفیق سے سرفراز نہ ہو سکے۔
ہم تو نسلا بعد نسل غلامان دربار اعظم ہیں۔
جب کوئی معترض نہ تھا تو بھی شان رسالت میں قصیدہ خوانی کرنا ہمارا موروثی وظیفہ اور آبائی پیشہ تھا۔ جب ابن عبد الوہاب نجدی(1115-1206) نے سال ہجری 1143 سے وہابیت کی تبلیغ شروع کی اور شان مصطفوی میں ادب فراموش الفاظ بکنے لگا۔
تو ہم میں سے کچھ لوگ کشتیوں کے چپو سنبھالے اور علم وعرفان کے سمندر میں چل پڑے۔ عمیق گہرائیوں میں خوشنما صدف پائے۔ان میں سے مدح مصطفوی اور منقبت محمدی کے جواہر اور موتیاں نکال لائے۔
وہ دیکھو! خیرآباد کے فضل حق کدال و پھاوڑا لے کر علم وفضل کے پہاڑوں کی طرف نکل پڑے۔
نہ جانے کتنے چٹانوں کے ٹکڑے کئے اور محاسن مصطفویہ ومناقب محمدیہ کے نادر و نایاب جگمگاتے ہیرے لے کر ائے۔قوم کے ہاتھوں میں امتناع النظیر دے گئے۔قیامت تک اس کی نظیر مشکل نظر اتی ہے۔
آو نوجوانو! ہم ان کی محبتوں اور محنتوں کو سلامی دیں اور محبت ناموں کی فہرست سازی کریں۔کیا کوئی ہے جو لبیک کہتا ہوا میرے ساتھ آئے؟؟؟
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع