از:(علامہ الحاج) سید نور اللہ شاہ بخاری جشن آمد مصطفیٰ ﷺ مرحبا
جشن آمد مصطفیٰ ﷺ مرحبا
اللہ وحدہُ لا شریک اپنے لاریب کتاب قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہےقَدْ جَاءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ (الآیة) تحقیق کہ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب(پارہ/۶،رکوع/۷،آیت/۵) صرف یہی نہیں بلکہ قرآن میں بہت سی جگہوں پر نبی کریم ﷺکی آمد کا تذکرہ فرمایا گیا ،کہیں ارشاد ہوتا ہے وماارسلناک الا رحمۃ للعالمین
”اےمحبوب!ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا “کہیں یہ بتلایا جا رہا ہے کہ ”تحقیق کہ تمہارے پاس روشن اور واضح دلیل آ گئی“کہیں یہ خبر دی جاتی ہے کہ ”تمہارے پاس تم میں ہی ایک رسول تشریف لائے “ تو کہیں یہ احسان جتلایا گیا کہ” اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر ان میں ایک رسول بھیج کر احسان فرمایا“۔
الغرض بےشمار آیتوں اور حدیثوں میں مصطفیٰ جانِ رحمت کی آمد کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ، جس میں یہی فرمایا گیا کہ اے محبوب ہم نے آپ کو بھیجا ،آپ کو مبعوث فرمایا، رسول تشریف لائے،نور و برہان جلوہ گر ہوئے،وغیرہ وغیرہ۔اور غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بھیجا اسے جاتا ہے جو حاضر ہو،تشریف وہ لاتا ہے جو پہلے بھی کہیں موجود ہو۔
لہذا ماننا پڑیے گا کہ ہمارے آقا و مولیٰ ،حبیبِ کبریا،امام الانبیاء،بے کسوں کے کس،بے سہاروں کے سہارا ،غریبوں کے داتا،شفیع المذنبین ،فخر آدم و بنی آدم حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ ہم میں جلوہ افروز ہونے اور تشریف لانے سے پہلے بھی کہیں موجود تھے
فرشتہ تھا نہ آدم تھے،نہ ظاہر تھا ،خدا پہلے
بنے ساری خدائی سے محمد مصطفیٰ پہلے
ہے انہیں کے دم قدم سے باغِ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا،گر وہ نہ ہوں عالم نہ ہو
حضور نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے دنیا کی حالت نہایت ہی خراب اور خستہ تھی ۔چاروں طرف کفروشرک ،ظلم و ستم،شراب نوشی ،سود خوری،جوابازی اور زنا کاری عام تھی۔
بدکاری ،عیّاری و مکّاری،جھوٹ و چغل خوری ،عداوت و دشمنی، بغض وحسد اور کینہ کا بازار گرم تھا،چوری ڈکیتی ،قتل اور غارت گری لوگوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ایک خدا ئے وحدہُ لا شریک کی عبادت کو لوگوں نے چھوڑ دیا تھا ۔
غرض کہ اس دور کا انسان اپنی انسانیت سے بالکل گر چکا تھا۔ایک حقیقی خدا کو چھوڑ کر انگنت خداؤں کی پوجا کی جا رہی تھی ۔کسی کے جان و مال کا تحفظ نہ تھا
یہاں تک کہ اپنی ہی بچیوں کو اپنے ہی ہاتھوں زندہ دفن کر دینا فخر کی بات تھی ،یتیم اور بے سہارا بچوں کو وراثت کے حق سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ایسے میں اسلام کا ابرِ کرم رحمتِ خداوندی بن کر برسا
یعنی اللہ ربّ العزت کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب اور لاڈلے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اس دنیا سے جہالت کا اندھیرا مٹانے کے لیئے ۱۲ربیع الاول بروز دو شنبہ صبح صادق کے وقت دنیا میں بھیجا۔
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
آمد سرکار سے ظلمت ہوئی کافور ہے
کیا زمیں کیا آسماں ہر سمت چھایا نور کا
جب آقاے کائنات ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو عرب کے اجڑے ہوئے دیار میں بہار آ گئی،ساری دنیا بقۂ نور بن گئی،کفر سرنگوں ہو گیا،بت کدے زمین بوس ہو گئے،فارس کا آتش کدہ بجھ گیا،کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے،گرتی ہوئی انسانیت سنبھل گئی۔ہر جگہ خوش حالی پیدا ہو گئی۔
سوکھے ہوئے پیڑ پودے ہرے بھرے ہو گئے ۔ حضور اقدس ﷺ نے دنیا میں تشریف لاتے ہی بارگاہِ خداوندی میں سجدہ کیا اور بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا: ”اے میرے رب میری گنہگار امّت کو بخش دے“۔
ربِّ ھب لی امّتی کہتے ہوئے پیدا ہوئے
حق نے فرمایا کہ بخشا الصلوٰۃ والسلام
حضور نبی بر حق ﷺ کے اس دنیا میں تشریف لانے سے دنیا کے لاکھوں مظلوموں کو ایک نئی زندگی مل گئی ،علماء فرماتے ہیں کہ شبِ ولادت (حضور کے پیدائش کی رات) شبِ قدر سے بھی افضل ہے،کیوں کہ شبِ قدر نزولِ قرآن و ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہے،مگر شبِ ولادت صاحبِ قرآن نبی الملائکہ کے ظہور کی وجہ سے مکرم ہے
شبِ قدر آپ کی امت ہی پر افضل واقع ہے،لیکن شبِ ولادت تمام عالم پر خدا کا فضلِ عظیم ہوا،لھٰذا شب ولادت شب قدر سے افضل ہے، چناں چہ آپ کی آمدآمد پر کائنات کا ذرہ ذرہ جھوم اٹھا اور سبھی مخلوق نے خوشیاں منائیں ۔
الحمد للہ ! سرکار کے غلام آج تک آپ کی آمد کے دن اور ہمیشہ ”عید میلاد النبی ﷺ“مناتے ہیں ،نذرو نیاز ،صدقات و خیرات،جلسہ و جلوس اور چراغوں کے ذریعہ اپنی محبت و غلامی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ، اور کرتے رہیں گے ،جب کہ کچھ لوگ اسے بدعت و فضول خرچی سے تعبیر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں ھدایت کی توفیق کے ساتھ عشقِ نبوی و محبتِ رسول عطا فرمائے ۔آمین
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
آقاے نامدار ﷺ نے پہلے کچھ دن اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا ،پھر ابو لہب کی آزاد کی ہوئی باندی ثویبہ نے آپ کو دودھ پلایا ،پھر یہ دولت حضرت حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آئی ۔
آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ۔ اللہ کی قدرت کہ آپ کے دادا بھی وصال فرما گئے۔پھر آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی پرورش کی ۔آپ نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا ۔
عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ سب سے پہلے ایمان لائیں۔مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق ۔بچوں میں حضرت علی اور غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ آپ پر ایمان لائے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر اسلام قبول کرنے سے پہلے بہت بڑے تاجر تھے۔آپ تجارت کے سلسلے میں ملک شام میں تشریف فرما تھے کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے اتر کر ان کی گود میں آ گئے ہیں
حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے ہاتھ سے چاند اور سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور انہیں اپنی چادر کے اندر کر لیا ۔صبح اٹھ کر سیدھے ایک عیسائی راہب کے پاس گئے اور اپنے اس خواب کی تعبیر دریافت کی ۔راہب نے پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا :مجھے ابو بکر کہتے ہیں ،اور میں مکہ کا رہنے والا ہوں ۔
راہب نے پوچھا : تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ آپ نے فرمایا :قبیلئہ بنی ہاشم سے ۔راہب نے کہا ۔تو غور سے سنو کہ مکہ میں آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے، وہ بھی قبیلۂ بنی ہاشم سے ہوں گے۔اے ابو بکر تم سب سے پہلے ان پر ایمان لاؤگے اور تم ان کے دین میں شامل ہوگے۔ ان کے وزیر بنوگے۔
ان کے بعد ان کے خلیفہ بنوگے ۔یہ ہے تمہارے خواب کی تعبیر۔اور یہ بھی سن لو کہ میں نے اس نبی کی تعریف و توصیف توریت پاک میں بھی پڑھی ہے ،اور میں اس نبی پر ایمان لا چکا ہوں اور مسلمان ہو چکا ہوں
لیکن عیسائیوں کی وجہ سے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے خواب کی تعبیر سنی تو عشق رسول کا جذبہ انکے دل میں پیدا ہوا اور فوراً مکہ معظمہ واپس آئے اور حضور اقدس ﷺ کو تلاش کر کے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور دیدار مصطفیٰ سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا ۔
سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا:ابو بکر ! تم آ گئے :اب جلدی سے ہمارے دین میں شامل ہو جاؤ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا:حضور ! میں ایمان لانے سے پہلے کوئی معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔
سرور کونین نے ارشاد فرمایا: اے ابو بکر وہ خواب جو ملک شام میں دیکھ کر آئے ہو اور اس خواب کی تعبیر جو اس راہب سے سن کر آئے ہو وہ میرا ہی تو معجزہ ہے ۔صدیق اکبر نے یہ سن کر بے ساختہ یہ عرض کیا :اے اللہ کے رسول !آپ نے سچ فرمایا :میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے
رسول ہیں اس کے علاوہ حضور نبی کریم ﷺ نے بے شمار معجزے دکھائے ہیں ۔اس فانی دنیا سے بظاہر پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ نے بہت سارے معجزے ظاہر فرمائے ہیں جیسا کہ ایک بزرگ گزرے ہیں جن کا نام امام بوصیری ہے، یہ بزرگ ملک شام کے رہنے والے تھے
امام بوصیری فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضور نبی کریم ﷺ کے وصال کے پانچ سو سال بعد کا ہے ، امام بوصیری کہتے ہیں کہ مجھے فالج کا اثر ہو گیا ، میں نے بڑے بڑے طبیبوں اور حکیموں سے علاج کرایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔
میں بہت پریشان ہوا ۔میں نے فوراً سرور کونین ﷺ کی شان میں ایک قصیدہ لکھا ،اس قصیدہ کا نام قصیدہ بردہ شریف ہے۔ یہ قصیدہ عربی زبان میں ہے، اس قصیدے میں آپ نے اپنی فریاد رکھی ، جس کا ترجمہ یہ ہے ۔
یا رسول اللہ ﷺ : میں نے بڑے بڑے طبیبوں اور حکیموں سے علاج کرایا مگر مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا ۔اب میں نے آپ کی بارگاہ میں التجا پیش کی ہے یا رسول اللہ ﷺ !مجھے آپ کا سہارا چاہیئے ، یا رسول اللہ ﷺ ! میری عرضی کو قبول فرما لیجیئے اور بارگاہ ایزدی میں میری مکمل صحت یابی کے لیے سفارش فرما دیجیئے ۔
امام بوصیری نے اس طرح کے مضمون پر مشتمل قصیدہ لکھا اور سرہانے رکھ کر سو گئے ،خواب میں کیا دیکھتے ہے کہ سرور کونین ﷺ جلوہ افروز ہیں اور فرما رہے ہیں : اے امام بوصیری ! جو قصیدہ تم نے ہماری شان میں لکھا ہے وہ ہم کو بھی سناؤ
امام بوصیری نے اپنا قصیدہ سنانا شروع کیا اور سرور دو عالم ﷺ امام بوصیری کے فالج زدہ جسم پر اپنا نورانی ہاتھ پھیرتے رہے ۔امام بوصیری کا مرض دور ہوتا گیا ۔جب قصیدہ پورا سنا چکے تو اللہ کے رسول ﷺ نے امام بوصیری کو ایک یمنی چادر تحفہ میں دی ۔
امام بوصیری کی آنکھ کھل گئی ۔ان کا فالج زدہ جسم بالکل ٹھیک ہو چکا تھا اور ایک یمنی چادر ان کے سرہانے رکھی ہوئی تھی۔صبح جب یہ منظر ان کے گھر والوں نے دیکھا تو گھر والوں نے ان سے پوچھا کہ رات کے اندھیرے میں ایسا کون سا طبیب آ یا جو ایک ہی رات میں آپ کو پوری طرح صحت یاب کر گیا۔
امام بوصیری نے فرمایا: آج رات کوئی عام دنیاوی طبیب میرے پاس نہیں آیا ،بلکہ میرے پاس اللہ کے حبیب ،دانائے غیوب ﷺ ازراہ کرم تشریف لائے تھے ،انہوں نے میرے فالج زدہ جسم پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور حضور کی نگاہ عنایت سے پوری طرح صحت یاب ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ حضور نبی رحمت ﷺ نے ایک یمنی چادر بھی بطورِ تحفہ مجھے عطا فرمائی ہے ۔
معزز قارئین کرام : اللہ کے محبوب نبی حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادتِ با سعادت ۱۲،ربیع الاول مطابق ۲۰ ۔اپریل/۵۷۱ء کو مکہ معظمہ میں ہوئی ،آپ نے اپنی امت کی خاطر بہت بڑی بڑی پریشانیاں برداشت کیں ،لھٰذا ہم
امتیوں کو چاہیئے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کریں۔رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی کو پوری طرح مطالعہ کریں اور آپ کی مبارک زندگی کو اپنے لیے نمونۂ عمل بنائیں۔
آپ کے اخلاقِ حسنہ اور اعلیٰ ترین کردار کو بغور مشاہدہ کریں اور انہیں اوصافِ حمیدہ کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی کوشش کریں ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ” جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور سلام و مصافحہ کرتے ہیں تو پرور دگارِ عالم دونوں مسلمانوں کے ہاتھ جدا ہونے سے پہلے پہلے دونوں کی مغفرت فرما دیتا ہے “کس قدر محبت اور پیار سے لبریز پیغام مل رہا ہے ہم مسلمانوں کو کہ اگر ہم آپس میں سلام و مصافحہ کریں گے تو جنّت کے حق دار بن جائیں گے ۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ اپنے پیارے بچوں کو سلام کرنا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سکھائیں۔
محترم قارئین: جب ایک مسلمان کا بچہ علم دین سیکھنے کے لیئے کسی مکتب یا مدرسہ کی جانب اپنے ننھے ننھے قدم بڑھاتا ہے تو فرشتے اپنے پروں کو اس بچے کے راستے میں بچھا دیتے ہیں مگر افسوس صد افسوس!۔آج مسلمانوں نے حضور نبی رحمت ﷺ کی تمام تر تعلیمات کو بالکل ہی بھلا دیا ہے
آج ہم اور ہمارے بچے غیروں کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔آج ہمارا بچہ ،السلام علیکم ،کہنے کے بجائے گڈ مورننگ ،گڈ اوفٹرنون وغیرہ کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔اسی پر بس نہیں بلکہ ان بچوں کے ماں ۔باپ بھی بڑے فخر سے اپنے ملنے جلنے والوں سے کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ اب تو بہت سمجھدار ہو گیا ہے اب تو وہ انگریزی میں سلام کرنا سیکھ گیا ہے ۔
میرے محترم بزرگو اور دوستو اور عزیز قارئین: میرے لکھنے کا ہرگز بھی یہ مقصد نہیں ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو صرف دینی تعلیم ہی دلوائیں اور دنیاوی تعلیم سے اپنے بچوں کو دور رکھیں ۔نہیں ۔ہرگز بھی نہیں ۔
بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم بھی، لیکن سب سے پہلے دینی تعلیم دلائیں اور اگر ہو سکے تو دونوں ساتھ ساتھ ہی دلائیں ۔البتہ اس بات کی پوری کوشش کریں کہ ہمارے بچوں کی سماجی زندگی اسلامی طرز پر ہی قائم و دائم رہے
اے مسلمانو : اللہ کے رسول کا حکم مانو،اور آپ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلو ۔پانچوں وقت کی نماز پانبدی کے ساتھ جماعت کے ساتھ ادا کرو ،روزانہ تلاوتِ کلام ربانی کرو،جب رمضان شریف کا با برکت مہینہ آئے تو رمضان المبارک کے پورے روزے رکھو ۔
الغرض ! جملہ فرائض ،واجبات اور آقا کی سنتوں پر جہاں تک ہو سکے عمل کرنے کی کوشش کرو ۔اور جب حضور نبی کریم ﷺ کے ولادتِ با سعادت کی تاریخ یعنیٰ ۱۲ ربیع الاول کا دن آئے تو لازمی طور پر آمدِ مصطفیٰ ﷺ کا جشن مناؤ ،زیادہ سے زیادہ وقت اپنے آقا کی مدح و ستائش میں وقف کرو ،زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھو ،غریبوں ،مسکینوں اور بیواؤں اور ہر طرح کے ضرورت مندوں کا خاص خیال رکھو
اور اپنے سینہ کو مصطفیٰ جانِ رحمت کی الفت و محبت کا مدینہ بنا لو کیونکہ عشق مصطفیٰ ہی ایک مسلمان کے زندگی کی سب سے انمول پونجی ہے
عظمتِ سرورِ کونین ہے پونجی اپنی جان دے کے بھی بچے تو بھی بچائے رکھیئے
از:۔ (علامہ الحاج) سید نور اللہ شاہ بخاری
۔(مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)۔
سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)۔
اس کو بھی پڑھیں: ولادت محمد ﷺ : خصائص و کمال
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع