از قلم: محمد احمد حسن سعدی امجدی بھارتی گورنمنٹ اور بھارتی میڈیا دونوں فرانس کی حمایت میں
بھارتی گورنمنٹ اور بھارتی میڈیا دونوں فرانس کی حمایت میں
حالیہ دنوں میں فرانس اپنی گھٹیا اور غیر ذمہ دارانہ حرکات و سکنات سے مطمح نظر بنا ہوا ہے ، پوری دنیا سے اکثر و بیشتر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرنے والے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تحفظ ناموس رسالتﷺ کا علم بلند کر کے سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ، اوراپنی اپنی حکومتوں سے فرانس کی مصنوعات پر مکمل پابندی کی مانگ کر رہے ہیں۔
اس کو بھی پڑھیں: تحفظ ناموس رسالت مسلمانوں کا اولین فریضہ
واضح رہے کہ اس پورے معاملے کا اغاز فرانس کے ایک اسکول ٹیچر سیمول پیتھی سے ہوا، اس نے فرانس کی میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے شائع کردہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کارٹون کو اپنے کلاس میں اسکرین پر دکھا کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا
جس کے نتیجے میں 16 اکتوبر 2020ء کو ایک غیرت مند مسلم اسٹوڈنٹ نے اس ٹیچر کا گلا کاٹ کر اسے واصل جہنم کر دیا، اس کے بعد فرانسیسی صدر میکرون نے اس قتل کی مذمت کی اور حضور ﷺ کی شان میں اس طرح کی گستاخیوں کو حریت اور آزادی کے نام سے تعبیر کیا ۔
فرانسیسی صدر کے مذکورہ بیان سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں انتہائی غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ ضروری بھی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی دولت محبت رسول ہے
ہم اپنی جان و مال عزت و آبرو ہر چیز کے نقصان کو گوارا کر سکتے ہیں، لیکن ناموس رسالت ﷺ پر ایک حرف بھی آۓ، ہمیں یہ قطعا گوارا نہیں ، پھر دنیا ہمیں دہشت گرد کہنے سے قبل اپنی دہشت گردی پر نظر کرے،ہر حال میں گستاخ نبی کی سزا موت ہے ۔
فرانسیسی صدر کے مذکورہ بیان پر اسلامی ممالک اس کے خلاف ہیں تو وہیں اسلام مخالف ممالک میکرون کے شانہ بشانہ نظر آ رہے ہیں،تو پھر ہندوستانی حکومت کیوں پیچھے رہتی، اس نے بھی حال ہی میں کھل کر فرانسیسی صدر کی حمایت میں اپنا بیان نامہ جاری کیا
اسی کے ساتھ بھارتی میڈیا بھی فرانس میں گستاخ رسول اسکول ٹیچر کے قتل کو اسلامی کٹرپنت یعنی اسلامی تشدد بتا کر حسب سابق اسلام کوبدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس وقت اکثر و بیشتر ٹی وی چینل پر صرف اور صرف فرانس کے اسکول ٹیچر کے قتل کا معاملہ موضوع سخن بنا ہوا ہے
جس میں ٹی وی چینل کے اینکر کھل کر اسلام پر تلخ بیانیہ کر کے اپنے اسلام مخالف پروپیگنڈے کی تشہیر کر رہے ہیں۔
خیر،اسلام کے خلاف زہر افشانی کرنا تو ان کا شیوہ ہے لیکن افسوس ان نام نہاد مسلمانوں پر ہوتا ہے جو اسلامی اسکالر کا لبادہ اوڑھ کر ٹی وی اسکرین پر آتے ہیں اور ان کے لا یعنی سوالات کے سامنے خاموش ہو کر اپنی اور پورے مذہب اسلام کی رسوائی کا سامان مہیا کرتے ہیں، ہر شخص جانتا ہے کہ بھارتی صحافت جبین صحافت پر ایک بدنما داغ ہے،
ان کا کام محض حکومت کی چاپلوسی کرنا ہے ،انہیں صحیح اور غلط سے کوئی مطلب نہیں اور نہ ہی صحافت کی ذمہ داری سے کوئی سروکار ، انھیں تو بس گورنمنٹ کے اشاروں پر ناچ کر اس کے تلوے چاٹنے ہیں۔
ایسے میں اگر مسلم حضرات ان کی دعوت پر ٹی وی ڈبیٹ میں جانا ہی بند کر دیں تو ایک طرح سے ان کی زبانوں پر خود بخود تالا لگ جائے گا۔
اور رہی بات بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کے فرانس کی حمایت میں آنے کی ، تو مسلمانوں کو اس سے گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ،
ہمیں سوشل میڈیا پر اور ہر طرح کے اپنے احتجاجات کے ذریعے اپنی زندہ دلی اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر سب کچھ قربان کر دینے کا ثبوت پیش کرتے رہنا ہے ،اپنی گورنمنٹوں سے فرانسیسی پروڈیکٹ پر بین کی مانگ کو جاری رکھنا ہے جب تک فرانسیسی صدر اپنی باتوں سے رجوع نہ کرلے اور اپنی غلطی تسلیم نہ کر لے۔
سکے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
خاص طور پر جو تنظیمیں فرانس کے خلاف برسرپیکار ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا ہے ، ان کی حمایت کرنی ہے اور ان تمام تدابیر کو بروئے کار لانا ہے جس سے نبی ﷺ کی شان میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہے گستاخی کے اس سلسلہ پر نکیل کسی جا سکے، اور ایسی نازیبا حرکت کرنے والوں کو ان کی اوقات دکھائی جا
تحریر: محمد احمد حسن سعدی امجدی
(ترجمان ۔ تنظیم جماعت رضاۓ مصطفی گورکھپور )
ریسرچ اسکالر۔ جامعة البركات على گڑھ۔
8840061391
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع