Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتکیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط نہم

کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط نہم

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط نہم

کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط نہم

اب صحابۂ کرام کی ثابت قدمی اور اُن کے اخلاص پر’’ چند عقلی دلائل ‘‘پیش کیے جا رہے ہیں ۔یہ عقلی دلائل ماضی قریب کے عظیم مفسر و محدث حضرت علامہ غلام رسول صاحب سعیدی علیہ الرحمہ کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’شرح مسلم ،ج۶: ‘‘سے ماخوذ ہیں ۔

راقم عوامِ اہلِ سنت کے لیے اُنھیں نہایت آسان لب و لہجے میں پیش کر نے کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔

پہلی دلیل

یہ نا قابلِ انکار حقیقت ہے کہ جب رسولِ خدا ﷺ نے نبوت و رسالت کا اعلان فرمایا تو تمام رشتے دار اور مکہ مکرمہ کے تمام باشندے آپ کے سخت مخالف ہو گئے ۔

چھ سال کی انتھک کوشش کے باوجود چالیس سے بھی کم لوگ مسلمان ہوئے ، چھ سال کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوا تو علی الاعلان اسلام کی تبلیغ کی جانے لگی

جس کے سبب مشرکینِ مکہ بھڑک اُٹھے اوروہ مسلمانوں کو ستانے اور اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگے

بالآخر مسلمانوں کو ہجرت کا پروانہ ملا اور حضور ﷺ مکۂ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینۂ منورہ تشریف لے گئے ۔وہاں کچھ ہی عرصے میں اسلام نے اِس قدر ترقی کر لی کہ چند سالوں میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے ۔

اِس جگہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے شروع شروع میں اسلام کی دعوت کو قبول کیا اور اسلام قبول کرنے کے جرم میں بے شمار تکلیفوں کا سامنا کیا اُن کے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا تھا ؟۔

انھوں نےرب تعالیٰ کی رضا کے لیے اسلام قبول کیا تھا یا دنیا کی دولت حاصل کرنے کے لیے۔

یہ ممکن نہیں کہ اُنھوں نے دنیا کمانے کے لیے اسلام قبول کیا ہو ؛کیوں کہ کسے پتہ تھا کہ حضور ﷺ کی یہ دعوت آگے چل ایسی عظیم الشان کام یابی حاصل کر لی گئی کہ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کے تاج مسلمانوں کے قدموں میں ہوں گے

اُس وقت تو مسلمانوں کو علی العموم دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ تھی ۔ اُس وقت اسلام قبول کرنا ’’جان ہتھیلی پر رکھنے اور سر پر کفن باندھنے‘‘ کے مترادف تھا۔

اِس لیے ماننا پڑے گا کہ صحابۂ کرام نے دنیاوی مال و دولت کے لیے نہیں ؛ بلکہ صرف رضاے اِلٰہی کے لیے دینِ اسلام کو قبول کیا تھا ۔

جنہوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے انتہائی خلوص کے ساتھ اسلام قبول کیا ہو اور اُس کی حفاظت کے لیے بے شمار تکلیفیں برداشت کی ہوں ، وہ ’’رسولِ خدا ﷺ کے وصال کے بعد دینِ اسلام سے پھرجائیں‘‘عقلِ سلیم یہ ماننے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔

دوسری دلیل

صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور رحمتِ عالَم ﷺ  سے بلا واسطہ تعلیم پائی ،ہزاروں صحابہ ،مسلسل کئی سالوں تک رسول اللہ ﷺ  کی تربیت میں رہے

اُنہیں طویل زمانے تک محبوبِ خدا ﷺ  کی صحبت اور رفاقت میں رہنے کا شرف ملا ، وہ ہمیشہ آپ ﷺ  کی اقتدا میں نمازیں پڑھتے اور آپ کے ساتھ جہاد کرتے ، سفر و حضر میں آپ کے ساتھ رہتے اورشب و روز آپ ﷺ  سے وعظ و نصیحت سنتے اور رسولِ خدا ﷺ  بھی صبح و شام اپنے غلاموں کودعاؤں سے نوازتے ۔

پھر بھی شیعہ کہتے ہیں کہ وہ ’’کفر ونفاق پر ڈتے رہے‘‘اور آپ ﷺ  کے پردہ کرتے ہی ’’تین کے سوا سب مرتد ہو گئے‘‘معاذ اللہ ۔

اب بتایا جائے کہ یہ غالی رافضی کس کی خامی تلاش کر رہے ہیں اور کس کانقص بیان کر رہے ہیں ؟

یہ نادان، صحابہ میں نہیں ؛بلکہ حضور ﷺ  کی تعلیم وتربیت میں عیب تلاش کر رہے ہیں۔کیا حضور خاتم النبیین ﷺ  کی تعلیم و تربیت ایسی ہی بے فیض تھی کہ آپ ﷺ  ۲۳ ؍سالوں تک تبلیغ کرنے کے باوجود تین چار کے سوا کسی کو سچا اور مخلص مسلمان نہ بنا سکے !۔


جاے تعجب ہے کہ دیگر نبیوں کے پیروکاروں کی تعداد تو اچھی خاصی رہی اور حضور خاتم النبیین ﷺ  کے پیروکاروں کی تعداد تین چار ہی میں محدود رہی۔

کیا اِس سے بڑا بھی کوئی سفید جھوٹ ہو سکتا ہے ؟

ہمارے نبی ﷺ  جب متفقہ طور پر تمام رسولوں سے افضل اوراللہ عز وجل کے محبوب ہیں تو آپﷺ  کے افضل ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ  پر ایمان لانے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہو ۔

جو لوگ یہ بکواس کرتے ہیں کہ حضور ﷺ  کے وصال کے بعد صرف تین چار یا سات لوگ ہی ایمان و اسلام پر قائم رہے باقی مرتد ہو گئے ، وہ لوگ صحابۂ کرام کی نہیں

بلکہ در حقیقت رسول اللہ ﷺ  کی تنقیص کر رہے ہیں اور آپ ﷺ  کی محبوبیت و افضلیت کو داغ دار کر رہے ہیں ۔

اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ مقدس میں کئی مقام پر اپنے محبوب ﷺ  کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کی تعریف و توصیف فرمائی ہے؛ بلکہ آپ ﷺ  کا مقصدِ بعثت ہی تعلیم و تزکیہ کو قرار دیا ہے

تو اگر یہ کہا جائے کہ ۲۳ ؍سالہ جد و جہد کے نتیجے میں صرف تین چار نفوس مسلمان ہوئے تھے تو بتایا جائے کہ کیا ایسی تعلیم وتربیت تحسین و ستائش کے قابل ہو سکتی ہے ؟

حضور ﷺ  کی تعلیم و تربیت اُسی وقت قابلِ ستائش ہو سکتی ہے جب کہ اِس حقیقت کا اعتراف کیا جائے کہ آپ ﷺ  کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں بے شمار لوگ مسلمان ہوئے اور وہ حضرات وصالِ اقدس کے بعد بھی اپنے ایمان و اخلاص پر قائم رہے ۔ جیساکہ ہم اہل سنتِ و جماعت کا عقیدہ ہے۔

تیسری دلیل

چوں کہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  اللہ رب العزت کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کسی نبی کا آنا ممکن نہیں

اِس لیے اللہ عز وجل نے تمام نبیوں کے معجزات و کمالات آپ ﷺ  کی ذاتِ اقدس میں جمع فرما ئےاور دعوت و تبلیغ اور رشدو ہدایت کے تمام طریقے آپ کو عطا فرمائے ؛تاکہ کوئی بھی گروہ آپ کے فیضانِ نبوت سے محروم نہ رہے ،کوئی بھی شخص آپ کی تعلیم و تربیت سے بے بہرہ نہ ہواور کسی کے لیے آپ پر ایمان نہ لانےکا کوئی عذر باقی نہ رہے ۔

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ  کو ہر لحاظ سے جامع بنا کر بھیجا ؛ تاکہ فصاحتِ لسانی میں شہرت رکھنے والے قرآنِ مقدس کے اِعجاز کو دیکھ کر مسلمان ہو جائیں ۔

علم و حکمت کا دعویٰ کرنے والے آپ کی حکیمانہ تعلیمات سے متاثر ہو کر ایمان لےلائیں۔شجاعت و مردانگی میں یگانہ ٔ روزگار میدانِ جنگ میں آپ سے مغلوب ہو کر آپ کی غلامی قبول کریں ۔

آپ کو تمام نبیوں اور رسولوں کے اوصاف و کمالات سے متصف کرنے کا مقصد یہی تھا کہ آپ کی پُر اثر تبلیغ سے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں اور دینِ اسلام تمام ادیان پر غالب ہو

کیوں کہ حضور ﷺ  ہی اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ،آپ کے بعد کوئی بھی پیغمبر آنے والا نہیں ہے،اِس لیے آپ ﷺ  کی دعوت و تبلیغ کو ہر اعتبار سے پُر اثر بنایا گیا اور رشد و ہدایت کے تمام طریقوں سے آپ کو سرفراز کیا گیا ۔

   اب سوچیے! جو شیعہ یہ کہتے ہیں کہ’’ نبی ﷺ  کی تبلیغ سے صرف چند لوگ مسلمان ہوئے اور باقی جو لوگ زندگی بھر آپ کے ساتھ رہے وہ آپ کی زندگی میں منافق تھے اور وصال فرمانے کے بعد مرتد ہو گئے ‘‘اُن کے اعتبار سے نبی ﷺ  کو خاتم النبیین بنانے کا مقصد کیسے پورا ہوا اور دینِ اسلام باقی دینوں پر کیسے غالب ہوا ؟

جس دین کے بانی سے صرف چند لوگ مسلمان ہوئے ہوں اُس دین کے دیگر مبلغین سے کوئی کیا مسلمان ہوگا !۔

نبی ﷺ  سب رسولوں سے افضل ہیں اور رسولوں پر آپ کی افضلیت اُسی وقت متحقق ہوگی جب کہ آپ کی تبلیغ سے ایمان لانے والوں کی تعداد تمام رسولوں پر ایمان لانے والوں سے زیادہ ہو ۔

اگر بقولِ شیعہ ’’تیئیس سالہ تبلیغی کوششوں کے نتیجے میں آپ پر صرف چند لوگ ایمان لائے‘‘توتمام رسولوں پر آپ ﷺ  کی افضیلت کیسے ثابت ہوگی ؟

لہذا حضور ﷺ  کے خاتم النبیین اور افضل الرسل ہونے اوردینِ اسلام کے تمام ادیان پر غالب ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺ  پر ایمان لانے والے صحابہ کی تعداد سب نبیوں اور رسولوں کے اصحاب سے زائد ہو اور صحابۂ کرام کا ایمان و اسلام سب نبیوں کے اصحاب کے ایمان سے زیادہ مضبوط ہو ۔[شرح مسلم ، ج۶:،ص :از ۸۶۲تا۸۶۴،موضحا و مسہلا]۔  

عقل و دانش سے تعلق رکھنے والاکوئی بھی شخص اِن دلائل کا انکار نہیں کر سکتا :ہاں اگر گدھے کی طرح علم و عقل سے محروم شخص اِن کا انکار کرے تو اُسے گدھے ہی کی طرح معذور رکھا جائے گا

لہذا رافضیوں کا یہ دعویٰ کہ’’چند کے سوا سبھی صحابہ ،حضور ﷺ  کے زمانے میں منافق تھے اور حضور ﷺ  کے وصال کے بعد مرتد ہوگئے تھے‘‘کسی مجنون کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ،جو کہ عقل و نقل اور روایت و درایت ہر لحاظ سے باطل و مردود ہے ۔

اہلِ تشیع سے گزارش ہے کہ اپنے اِس خبیث عقیدے سے رجوع کرکے ، تمام صحابۂ کرام کی عظمت و شان کو تسلیم کرکے ،اُن کی عدالت و اخلاص کو مان کر اپنی عقل مندی کا ثبوت دیں اور حضور ﷺ  کی پناہ میں آکر اپنی ہوش مندی کا اظہار کریں ! ورنہ مرنے کے بعد تو سبھی کو ہوش آ جائے گا ۔  

آج لے اُن کی پناہ آج مدد مانگ ان سے

پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
جاری

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ 

پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی ۔

کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے ؟ گذشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے ملاحظہ فرمائیں

قسط اول

قسط دوم 

قسط سوم

قسط چہارم

قسط پنجم

قسط ششم

قسط ہفتم

قسط ہشتم

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن