قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے ڈاکٹر اقبال ۔
قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
از قلم۔ محمد احمد حسن سعدی امجدی
ترجمان۔ تنظیم جماعت رضاۓ مصطفی گورکھ پور
انسانی زندگی اور کسی بھی قوم یا سوسائٹی کی بقا اور دوام کے لیے قوت فکر و عمل یہ بڑی اہمیت رکھتی ہے ، یہ ایک حسی مادہ ہے جو انسان کے اندر فطری طور پر پایا جاتا ہے
اس کے ذریعے انسان اپنی پریشان حال قوم اور سوسائٹی کو بڑی سے بڑی مصیبت سے نکال سکتا ہے، تاہم اس کی ترقی کے لیے ضروری اقدام بھی کر سکتا ہے اور مظلوموں کے ساتھ ہمدردی کرکے انھیں ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے میں معاون و مددگار ہو سکتا ہے
جب تک یہ حسی مادہ کسی قوم کے افراد میں صحیح و سالم رہتا ہے تب تک وہ قوم ہر جہت سے عروج و ارتقا کے منازل طے کرتی رہتی ہے ، لیکن جوں ہی کسی قوم کی قوت فکر و عمل فنا ہونے کے دہانے پر ہوتی ہے ویسے ہی وہ قوم اونچائی اور بلندی سے پستی اور ذلت و خواری کی طرف بڑھنے لگتی ہے، اس کا نظام اور سسٹم سب بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں اور اس کی شان و شوکت پر قدغن لگتے ہوۓ نظر آتے ہیں ۔
مذکورہ بالا شعر میں ڈاکٹر اقبال اپنی مظلوم اور مخلص قوم، قوم مسلم کی زبوں حالی اور خستہ حالی کو ایک مناسب پیرائے میں پرو کر اپنی قوم کو اس کی تنزلی اور پستی سے آگاہ فرما رہے
ساتھ ہی بڑے احسن طریقے سے اس کے تدارک کی طرف اشارہ بھی فرما رہے ہیں کہ ترقی یافتہ قوم کے لئے اس کے لوگوں میں قوت فکر و عمل کا مضبوط سے مضبوط تر ہونا نہایت ہی ضروری ہے ۔
اور یقینا یہ ہماری قوم پر جو زوال و فساد کی بدلیاں منڈھلا رہی ہیں ،اس کی واحد وجہ فکروعمل میں ہماری کمزوری ہے ، ہمارے پاس نہ تو قوم مسلم کو بلندیوں پر لے جانے والے مفکرین کی طرح فکر ہے
تاکہ ہم اپنے قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو ساحل سمندر سے ہم کنار کر سکیں اور نہ ہی ہمارے پاس ہمارے بزرگان دین کی طرح عمل ہے کہ جس سے ہم آسمان کی بلندیوں کو چھو کر حسب سابق دنیا میں سرخرو اور بلند ہو سکیں ۔
لہذا ہمیں اپنے کھوئے ہوئے وقار اور گمشدہ شان و شوکت کی بحالی کے لیے ایک حساس قوم بننا ہوگا، اپنی قوت فکر و عمل کو فنا ہونے سے بچانا ہوگا اور اپنی فکر کو مزید وسیع اور عمل میں زیادتی پیدا کرنی ہوگی ۔
تحریر: محمد حسن احمد سعدی امجدی
ریسرچ اسکالر ۔ جامعۃ البرکات علی گڑھ۔
8840061391
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع