تحریر: طارق انور مصباحی ( کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط سوم
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط سوم
جب مفتی اول نے تحقیق وتنقیح کے بعدکفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری فرمادیا تومجر م کوکافر کلامی ماننا ضروریات دین کا ایک مسئلہ ہوگیا۔
اب جو حکم ضروریات دین کا ہے،وہی حکم اس مسئلے کا ہوگا،جیسے ضروریات دین کے علم قطعی کے بعد اس کی تصدیق فرض قطعی اور اس کا انکار کفر کلامی ہے۔اسی طر ح علم قطعی کے بعد اس کفر کلامی کی تصدیق فرض قطعی اوراس کا انکار کفرکلامی ہوگا۔
ضروریات دین کا قطعی علم عالم کو ہویاجاہل کو،دونوں کے لیے اس کی تصدیق فرض قطعی ہے۔اسی طرح کفر کلامی کا علم قطعی عالم کوہویا جاہل کو۔علم قطعی کے بعد دونوں کواس کی تصدیق فرض قطعی ہے۔
فرقہ بجنوریہ قادیانی کو مرتد مانتا ہے،اور اشخاص اربعہ کے کفر کے انکار کے لیے حیلے تلاش کر تا ہے۔ بعض لو گ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ اشخاص اربعہ کوکافرماننا ضروری دینی کیسے ہوگیا۔ان لوگوں سے سوال ہے کہ قادیانی کو کافر ماننا ضروری دینی ماننا کب سے ثابت ہوا؟ قادیانی نہ عہد رسالت میں تھا،نہ ہی قرآن وحدیث یا اجماع متصل میں اس کی تکفیر کا ذکر ہے؟ قادیانی کے کافر ہونے کے لیے جو قانون ہوگا،وہی قانون اشخاص اربعہ کے لیے ہوگا۔
اگر قادیانی کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے تو اشخاص اربعہ کو کافرماننا بھی ضروریات دین میں سے ہوگا۔
جو سوالات اشخاص اربعہ کی تکفیر پر اٹھائے جاتے ہیں،وہی تمام سوالات قادیانی کی تکفیر پر ہوں گے،لیکن فرقہ بجنوریہ قادیانی کی تکفیر کوضروری دینی مانتا ہے،اور اشخاص اربعہ کی تکفیرکوغلط قرار دیتا ہے۔
علم الٰہی قدیم ہے۔علم خداوندی میں ضروری دینی اورغیرضروری دینی کا ثبوت ازل سے ہے۔ بندوں کے لیے اس کا ثبوت وقت کے ساتھ مقید ہے۔
جب ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام معراج میں تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے پچا س نمازیں فرض فرمائیں تو پچاس نمازوں کی فرضیت ضروری دینی ہوگئی،پھر آخرکار پانچ نماز باقی رہی۔
جب پہلی بار دس نماز کی تخفیف ہوئی تو صرف چالیس کی فرضیت ضروری دینی رہی،پھر دوسری بار میں تیس کی، تیسری بار میں بیس کی،چوتھی بار میں دس کی اور پانچویں بار میں پانچ کی فرضیت ضروری دینی رہی،اورچوں کہ چھٹی بار تخفیف کی طلب کے واسطے بارگاہ الٰہی میں واپسی نہ ہوئی توان پانچ کی فرضیت مستحکم ہوگئی۔ایک ہی شب میں کبھی پچاس نمازوں کی فرضیت ضروری دینی قرارپائی،پھر کچھ وقت بعد چالیس کی فرضیت،پھر تیس کی فرضیت،پھربیس کی فرضیت،پھر دس کی فرضیت،پھر پانچ کی فرضیت ضروری دینی قرار پائی۔
نماز کی فرضیت کا ثبوت بندوں کے لیے کسی وقت میں ہورہا ہے۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم میں کبھی پچاس کی فرضیت تھی،کبھی چالیس کی،کبھی تیس،کبھی بیس اور کبھی دس کی،پھر انجام کار پانچ کی فرضیت باقی رہی۔جب پچاس کی فرضیت علم نبوی میں تھی تواس وقت پینتالیس نمازوں کوالگ کر کے محض پانچ کی فرضیت کاعلم نہیں،کیوں کہ محض پانچ فرض ہی نہیں تو محض پانچ کی فرضیت کا علم کیسے ہوگا۔یہ توخلاف حقیقت بات ہوگی۔
اگرحضوراقدس عالم ما کان ومایکون صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوعطائے خداوندی سے علم غیب کے طورپر یہ معلوم بھی ہوکہ انجام کار صرف پانچ کی فرضیت باقی رہے گی تو جب تک کچھ تخفیف نہیں ہوئی،اس وقت تک پچاس کی فرضیت کا اعتقاد رکھنا ہے اور پچاس کی فرضیت اس وقت ضروری دینی ہے۔
الحاصل ایک وقت آیاکہ محض پانچ کی فرضیت ثابت رہی اورمحض پانچ کی فرضیت کا علم جس وقت حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہوا، اسی وقت سے باقی کوالگ کرکے محض پانچ کی فرضیت ضروری دینی باقی رہی،پھر جس صحابی کو جس وقت زبان نبوی سے یا خبرمتواتر کے ذریعہ نماز کی فرضیت کا علم ہوا،اسی وقت نمازکی فرضیت ان صحابی کے حق میں ضروری دینی ہوگئی۔
جس وقت روزہ کی فرضیت کی آیت نازل ہوئی،اسی وقت سے روزہ کی فرضیت ضروری دینی ہوگئی،پھر جس صحابی کو جس وقت زبان نبوی سے یا خبرمتواتر سے روزہ کی فرضیت کا علم ہوا،اسی وقت روزہ کی فرضیت ان صحابی کے حق میں ضروری دینی ہوگئی۔
الحاصل بندوں کے حق میں ضروری دینی کے ثبوت مطلق کا تعلق بھی وقت سے ہے اور خاص کر فلاں مومن کے حق میں کسی ضروری دینی کی ضرورت کا ثبوت بھی علم یقینی کے وقت سے مقید ہے،یعنی جب اس مومن کو اس امر کا یقینی علم ہوگا،اس وقت وہ اس کے حق میں ضروری دینی ہو گا۔
علم الٰہی میں کوئی امر وقت سے مقید نہیں،بلکہ علم الٰہی قدیم ہے۔قدیم کا وقت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ علم الٰہی میں کسی ضروری دینی کا ضروری دینی ہوناوقت سے مقید نہیں ہوگا۔
بندوں کے حق میں ضروری دینی کا ثبوت وقت سے مقید ہے،مثلاً جب روزہ کی فرضیت کی آیت نازل ہوئی،تو روزہ کی فرضیت ضروریات دین میں سے ہو گئی۔اب ہرخاص مومن کے حق میں اس کا ضروری دینی ہونا اس وقت ثابت ہوگا،جب اس کو یقینی طورپر اس کا علم ہوجائے۔اگراس کا علم ہے،لیکن ظنی علم ہے تو ابھی یہ امر اس کے حق میں ضروری دینی نہیں۔جب یقینی علم ہوگا,تب وہ اس کے حق میں ضروری دینی ہوگا۔
اشخاص اربعہ کا کافر کلامی ہونا جس وقت مفتی کی نظر میں صحیح طورپرثابت ہوگیا،اسی وقت مفتی کے لیے اشخاص اربعہ کی تکفیر ضروری دینی ہوگئی۔
اب دوسروں کے حق میں تکفیر اس وقت ضروری دینی ہوگی،جب ان کوقطعی طورپر اس کا علم ہوگا۔
یہ بھی واضح رہے کہ ضروری دینی کا ثبوت الگ ہے،اور کسی قاعدہ کلیہ ضروریہ کے موضوع کے افراد کا تعین الگ ہے۔
تکفیر میں کسی جدید ضروری دینی کا اثبات نہیں ہوتا ہے،بلکہ ضروری دینی کے موضوع کے افراد وجزئیات کا تعین ہوتاہے۔
ہرگستاخ رسول کافر ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔ جب مفتی کی نظر میں تحقیق کامل کے بعد زیدکا گستاخ رسول ہونا قطعی بالمعنی الاخص ہوجائے اورجانب مخالف کا احتمال بعید بھی نہ ہوتو زیداس ضروری دینی قاعدہ کلیہ کے موضوع کاایک فردہوگیا اورجب حکم سے کوئی مانع نہ ہوتو اس قاعدہ کلیہ کے موضوع کے لیے جوحکم ثابت ہے،وہ زید کے لیے ثابت ہوگیا اورزید کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہوگیا۔
اسی طرح ”ہرمنکر ختم نبوت کافر ہے“۔یہ بھی قاعدہ کلیہ اور ضروریات دین سے ہے۔
خالدکامنکرختم نبوت ہونا قطعی بالمعنی الاخص طورپر ثابت ہوگیا اور جب حکم سے کوئی مانع نہ ہوتو اس قاعدہ کلیہ کے موضوع کا جوحکم ہے،وہ حکم خالد کے لیے ثابت ہوگا۔اشخاص اربعہ کی کفری عبارتیں کفری معنی میں متعین اور مفسر ہیں۔
ان عبارتوں سے متعلق دیوبندیوں کی تاویل،تاویل باطل ہے۔ ماقبل کے متعددمضامین میں اس کی وضاحت رقم کردی گئی ہے۔
اعتقادیات میں اجتہاد کاحکم
اعتقادیات اگرضروریات دین میں سے ہیں توان میں اجتہاد کے ذریعہ نئی راہ اختیار کرنے والا کافر ہوگا، اور وہ اعتقادیات اگر ضروریات اہل سنت میں سے ہے تو اجتہاد کے ذریعہ نئی راہ اختیار کرنے والا گمراہ قرار پائے گا۔
اس امر میں مجتہد وغیر مجتہد اورعالم وجاہل کا کوئی فرق نہیں۔کافر کلامی کو کافرکلامی ماننا بھی ضروریات دین میں سے ہے۔اب ثابت شدہ کفر کلامی میں اپنی تحقیق کے ذریعہ نئی راہ اختیار کرنے والایقینا مرتد ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ہر ایک مفتی کوتحقیق کرنا ہے اور اپنی تحقیق پر عمل کر نا ہے،وہ کوئی صریح جزئیہ پیش کریں۔ہمارے دلائل درج ذیل ہیں۔
۔(۱) قال التفتازانی:(لان المخطئ فی الاصول والعقائد یعاقب،بل یُضَلَّلُ اَو یُکَفَّرُ-لان الحق فیہا واحد اجماعًا-والمطلوب ہو الیقین الحاصل بالادلۃ القطعیۃ-اذ لایعقل حدوث العالم وقدمہ وجواز رویۃ الصانع وعدمہ-فالمخطئ فیہا مخطئ ابتداءً وانتہاءً) (التلویح جلددوم ص121)۔
۔(۲) قال الملااحمد جیون:((وہذا الاختلاف فی النقلیات دون العقلیات)ای فی الاحکام الفقہیۃ دون العقائد الدینیۃ-فان المخطئ فیہا کافرکالیہود والنصارٰی اومُضَلَّلٌ کالروافض والخوارج والمعتزلۃ ونحوہم) (نورالانوارص247)۔
توضیح :مذکورہ بالاعبارت میں عقلیات سے مراد اعتقادیات ہیں۔اعتقادیات کوعقلیات کہا جاتا ہے۔ان میں اجتہاد جائز نہیں
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے؟ گذشتہ قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع