تحریر: سلیم رضا عطاری فاضل بریلوی ایک نظر میں
فاضل بریلوی ایک نظر میں
تاریخ کے اوراق اس بات پر شاھد ہیں کہ اس کرۂ ارض پر بعض ایسے نفوس قدسیہ بھی تشریف لائے ہیں جنہوں نے اپنی گونا گوں خدمات رفیعہ سے پورے عالم میں نور و ہدایت کے چراغ روشن کیے۔
انہیں بارگاہِ ایزدی سے وہ امتیازی مقام و مرتبہ حاصل ہوا جو ہر ایک کا نصیبہ نہیں ہوتا ایسی ہی ذوات قدسیہ میں ایک فقید المثال شخصیت امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی نور اللہ مرقدہ کی بھی ذات ہے
جنہوں نے عالم اسلام میں وہ نمایاں اور منفرد کارنامے انجام دیے جنہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا
ولادت باسعادت
آپ علیہ الرحمۃ کی ولادتِ باسعادت ۱۰شوال المکرم ۱۲۸۲ھ بمطابق ۱۲جون ۱۸۵۶ء بروز ہفتہ بوقت ظھر محلہ جسولی بریلی شریف انڈیا میں ہوئی۔
آپ کا نام محمد رکھا گیا جبکہ آپ کے جد امجد علامہ رضا علی خان نے احمد رضا تجویز فرمایااور تاریخی نام المختار(۱۲۸۲ھ) ہوا
اور خود اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے غلامئ رسول کے اظہار کے لیے اپنے نام سے قبل عبد المصطفی کا اضافہ کیا اور اپنا سن ولادت اس آیۂ کریمہ سے نکالا اولائک کتب فی قلوبھم الایمان و ایدھم بروح منہ (سورۂ مجادلہ آیت ۲۲پارہ۲۸ )۔
یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائ ہے
تعلیم
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم کچھ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے جبکہ اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی نقی علی خان علیہ الرحمہ سے پڑھیں
نیز چند ایک کتب کا درس مولانا سید ابو الحسین احمد نوری اور حضرت مولانا عبد العلی رام پوری علیہ الرحمہ سے بھی لیا آپ نے اپنے والد ماجد اور دیگر اساتذہ سے مندرجہ ذیل اکیس علوم کی تعلیم حاصل کی
۔ ۱علم قرآن
۔۲علم تفسیر
۔۳علم حدیث
۔۴ اصول حدیث
۔۵ کتب فقہ حنفی
۔۶ کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی
۔۷ اصول فقہ
۔۸ جدل مہذب
۔۹علم العقائد المالکی
۔۱۰ علم النحو
۔۱۱ علم الصرف
۔۱۲ علم معانی
۔۱۳ علم بیان
۔۱۴ علم بدیع
۔۱۵ علم منطق
۔۱۶ علم مناظرہ
۔۱۷ علم فلسفہ
۔۱۸ ابتدائی علم تکسیر
۔۱۹ ابتدائی علم ہیئت
۔۲۰ ابتدائی علم حساب
۔۲۱ ابتدائ علم ھندسہ
۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر ۹۸)۔
تدریس
تحصیل علم کے فورا بعد آپ نے تدریس اور افتاء پر توجہ فرمائی چونکہ بریلی میں اسوقت کوئی مدرسہ نہ تھا کثیر تعداد میں طلبہ اعلی حضرت کی بارگاہ میں رجوع کرتے اور تحصیل علم کرتے
اولاد
۔۱۲۹۱ ھ میں آپ کی شادی ہوئی اور آپ کے یہاں دو صاحبزادے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان اور مفتی اعظم ہند مولانا محمد مصطفی رضا خان علیھما الرحمہ اور پانچ صاحبزادیاں تولد ہوئیں
شرف بیعت
۔۱۸۹۵ ھ میں اپنے والد ماجد علامہ نقی علی خان کے ہمراہ مارہرہ مقدسہ میں حضرت شاہ سید آل رسول احمدی کے دست حق پرست پر بیعت ہوے آپ کے پیر و مرشد نے بیعت فرماتے ہی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرما دی
سفر حج و زیارت
۔۱۲۹۵ ھ میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اپنے والد ماجد کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گۓ وہاں آپ نے اکابر علماے کرام سے سند حدیث حاصل فرمائی
ایک دن آپ مقام ابراھیم پر نماز ادا فرما رہے تھے کہ نماز کے بعد امام شافعیہ حضرت حسین بن صالح جمال اللیل نے بغیر کسی تعارف کے آپ کا ہاتھ تھاما اور اپنے گھر گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی پکڑ کر فرمایا انی لاجد نور اللہ فی ھذا الجبین بے شک میں اللہ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں
اور صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کرعطا فرمائی اس سند کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں امام بخاری تک فقط گیارہ واسطے ہیں (حیات اعلی حضرت صفحہ۱۳۳) ۔
تصانیف
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے تقریبا 50 علوم و فنون پر تقریباً ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائی ان علوم میں سے بعض کے تو آپ موجد تھے اور بعض تو ایسے کہ آپ کے وصال کے بعد ان کی ادنی معلومات رکھنے والا بھی نظر نہیں آتا نیز مختلف فنون کی ڈیڑھ سو سے زائد کتب پر آپ نے حواشی لکھے ہیں جو کسی طرح بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں
کثیر مشاغل دینیہ کی وجہ سے فرصت نہ پانے کے باوجود ترجمہ کنز الایمان کا وجود میں آنا آپ کی قرآن فھمی کا بین ثبوت ہے
جب کہ میدان فقاہت و تحقیق میں آپ کا عظیم علمی شاہ کار العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ہے اور تیسرا شاہ کار آپ کا مجموعہ نعت حدائق بخشش ہے جو فن شاعری میں اپنی مثال آپ ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کو جتنے بھی علوم حاصل تھے ان میں بہت کم حصہ کسبی تھا اور اکثر علوم و فنون وھبی اور عطائی تھے
الغرض یہ کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جس کی مثال بھی ملنا مفقود ہے یہی وجہ ہے عرب و عجم کے مقتدر علماء کرام نے آپ کو چودھویں صدی کا مجدد قرار دیا
وصال
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے تقریباً پانچ ماہ قبل اپنے وصال کی تاریخ اس آیۃ کریمہ سے نکالی ویطاف علیھم بانیۃ من فضۃ و اکواب یعنی خدام چاندی کے برتن اور آبخورے لے کر ان کے ارد گرد گھوم رہے ہیں
اور پھر ۲۵ صفر المظفر (۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ ء) بروز جمعۃ المبارک ۲ بج کر اڑتیس منٹ پر عین اذان جمعہ کے وقت حی علی الفلاح کا مژدۂ جاں فزا سن کر داعئ اجل کو لبیک کہا انا للہ و انا الیہ راجعون
تحریر: سلیم رضا عطاری
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع