تحریر: طارق انور مصباحی ( کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحیقیقی ہے قسط چہارم
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحیقیقی ہے قسط چہارم
کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں
مسئلہ تکفیر تحقیقی ہوتاہے،لیکن تحقیق صحیح کے بعد تکفیر کلامی کا مسئلہ ضروریات دین میں شامل ہوجاتا ہے۔اس کے بعد اس کے اقرار و انکار کا وہی حکم ہوگا جوضروریات دین کے اقرار و انکار کا حکم ہے۔
جب مفتی اول نے مسئلہ تکفیر کلامی کی صحیح تحقیق کرلی اور وہ ہر اعتبارسے مطمئن ہوگیا تو تحقیق مکمل ہوتے ہی مجرم کو کافرماننا خود مفتی اول پر فرض اور ضروریات دین میں سے ہوگیا۔
جب مفتی اول نے اپنی تحقیق سے دوسروں کومطلع کردیا،مثلاً کفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری کردیا تو اب دیگر مومنین کے لیے بھی مجرم کو کافر کلامی ماننا ضروریات دین میں سے ہوگیا۔
اب جو ضروریات دین کے احکام ہیں،وہی احکام یہاں نافذہوں گے،یعنی اس تکفیر کلامی کے علم یقینی واطلاع قطعی کے بعداس میں شک،توقف،انکار،تاویل ودیگرمنافی تصدیق امور کا ارتکاب کفر ہوگا۔
مسئلہ تکفیر دائمی طورپر تحقیقی نہیں رہتا ہے۔کفرکلامی کا صحیح فتویٰ جاری ہونے کے بعد دیگرمتکلمین صرف یہ تحقیق کر سکتے ہیں کہ مفتی اول کے لیے تمام جہات محتملہ کس طرح قطعی اور یقینی ہوئی تھیں،اور کافرکلامی کوبہر حال کافر کلامی ماننا فرض ہوگا۔
صرف مفتی اول کو تحقیق وتفتیش کی مدت میں یہ اجمالی عقیدہ رکھنا ہے کہ ملزم عند اللہ جیسا ہے،ہمارے اعتقاد میں بھی ویسا ہی ہے۔ جب اس کے لیے دلائل وشواہد کی روشنی میں مومن یا کافر ہونا یقینی ہوجائے تو جوثابت ہوا، اسی کا اعتقاد رکھے۔
اگر تکفیر کا وہ فتویٰ غلط ہے توعلم ہونے پر مفتی اول کو رجوع کرنا اور دیگر علما پر اس کی تردید و تغلیط لازم ہے۔
سوال:دیگر متکلمین کو کیسے معلوم ہوگا کہ تکفیر کلامی کا یہ فتویٰ صحیح ہے یاغلط؟
جواب:تکفیر شخصی یا تکفیر عمومی خواہ تکفیرکلامی ہویا تکفیر فقہی،ہرقسم کے فتویٰ میں مفتی اول وہ تمام تحقیقات ودلائل درج کر تا ہے،تکفیر کے لیے جن دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
عام طور پرایسے فتاویٰ جاری کیے جانے سے قبل اہل علم سے استصواب رائے بھی کیا جاتا ہے۔دیگر متکلمین وفقہامفتی اول کے دلائل وتحقیقات کی روشنی میں فتویٰ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
جب دیگر قابل اعتماد متکلمین ومفتیان کرام نے بھی اس فتویٰ کو صحیح قرار دیا ہوتو اب اس کی صحت کو جانچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
کوئی مفتی اپنی تحقیق کے ذریعہ ثابت شدہ کفر کلامی کاانکار نہیں کرسکتا،جیسے آج عہد صدیقی کے مدعیان نبوت کی تکفیر کا منکر کافر قرار پائے گا۔ایسا نہیں قیامت تک ہرمفتی کو اپنی تحقیق پر عمل کرنا ہے۔
اگر کفر کلامی کے صحیح فتویٰ کے بعد کسی کوکچھ شک پیداہوا،اور اسے مجرم کی تکفیر کلامی کا یقینی علم ہے تومحض اپنا شک دور کرنے کے لیے تحقیق کرے،اورتحقیق کی مدت میں بھی کافر کلامی کو کافر کلامی اعتقاد کرے۔
تحقیق کے نام پر کفرکلامی کے صحیح فتویٰ سے اختلاف یا توقف کی اجازت نہیں،کیوں کہ اس کو کفرکا علم یقینی ہے۔
ایک صورت یہ ہے کہ کسی کومجرم مثلاًتھانوی کی تکفیر کی خبرغیر قطعی وغیرظنی صورت میں ملی،مثلاً تکفیر وعدم تکفیر کی متضاد روایتیں موصول ہوئیں،یہا ں تک کہ تھانوی کی تکفیر اس کے لیے مشکوک ہوگئی تو وہ فی الحال یہ عقیدہ رکھے کہ عند اللہ وہ جیسا تھا،ہمارے اعتقاد میں بھی ویسا ہی ہے اور بلاتاخیر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرے۔
اگر کوئی اپنا شک دورکرنے کے واسطے تحقیق وتفتیش نہ کرے، بلکہ یہ اجمالی عقید ہ بنالے کہ وہ عند اللہ جیساہے،وہ ہماری نظر میں بھی ویسا ہی ہے تو یہ توقف ہے،اورضروریات دین میں توقف کفر ہے،اور ضروریات اہل سنت میں توقف ضلالت وگمرہی ہے۔
ظنی وفقہی یعنی اجتہاد ی امور میں عدم ظہور حقیقت کے وقت توقف کی اجازت ہے۔
حضرات ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا بعض امور اجتہادیہ میں ”لا ادری“فرمانا اسی قبیل سے ہے۔
حضرت اما م اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کفر یزید سے توقف بھی اسی قبیل سے ہے۔ تعارض روایات کے سبب کفر یزید،ایمان ابوطالب،ایمان ابوین کر یمین اجتہادیات میں داخل ہیں،اسی لیے علما کا اختلاف ہے۔
کفرابن تیمیہ، کفرابن عبد الوہاب نجدی وکفر اسماعیل دہلوی کفر فقہی ہے،کفر کلامی نہیں۔ کفرفقہی میں فقہا ومتکلمین کا لفظی اختلاف ہوتاہے۔تکفیر کلامی کے علاوہ تکفیر کی متعدد صورتیں ہیں،جن میں اختلاف ہوتا ہے۔ تفصیلی بیان ”البرکات النبویہ“رسالہ دہم میں ہے۔
سوال: دیگرمتکلمین کفرکلامی کی صحت وعدم صحت کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟
جواب:علمائے متکلمین کوکفر کلامی کا حکم جاری کرنے کی اجازت ہے۔اس سے بالکل واضح ہے کہ کفر کلامی کے صحیح وغیر صحیح ہونے کا علم ممکن ہے،محال نہیں۔اگرکفرکلامی کی صحت وعدم صحت کا علم محال ہوتا تو متکلمین کو بھی کفر کلامی کے فتویٰ سے منع کردیا جاتا جیسے غیر متکلم فقہا کو کفر کلامی کے فتویٰ کی اجازت نہیں دی گئی۔
کفر کلامی کا حکم اس وقت جاری ہوتا ہے جب کسی ضروری دینی کا انکار ہو،اورتمام جہات محتملہ مثلاً کلام،متکلم اورتکلم میں احتمال بلادلیل بھی باقی نہ رہے۔جس میں احتمال بلا دلیل بھی نہ ہو،اسی کو قطعی بالمعنی الاخص کہا جاتا ہے۔
کفرکلامی کے فتویٰ کوجانچنے کے لیے دیگر متکلمین بھی انہی امور پر غور کرتے ہیں،جن امورکی تحقیق مفتی اول کو کرنی ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ مفتی اول کی تحقیق میں اگر کوئی شرط مفقود ہوگی تو وہ کفر کا فتویٰ نہیں دے گا اور فتویٰ جاری ہونے کے بعددیگرعلماکو کسی شرط کے وجود میں کوئی شک ہوا تو مفتی اول سے رجوع کرنا ہے۔اگر وہ نہ ہوتو دیگر اہل علم سے رجوع کرے جو حقائق پر مطلع ہوں۔
دیگر علما کو اگر تحقیق سے یہ معلوم ہوگیا کہ مفتی اول نے تحقیق میں خطا کی ہے،تب اسے انکار کا حق ہوگا،کیوں کہ تحقیق اول میں خطا کے سبب تکفیر کلامی کا وہ مسئلہ ضروریات دین میں شامل ہی نہ ہوسکا،پھراس میں اختلاف کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ضروری دینی میں اختلاف ہوا ہے،جیسے حضرت شیخ اکبر قدس سرہ العزیز کی تکفیر میں احتمال فی التکلم موجود ہے،کیوں کہ کتاب کے مطبوعہ نسخہ میں تحریف کا امکان ہے۔
ہاں،اگر مفتی اول کا فتویٰ صحیح تھا تو تکفیر کلامی کا وہ مسئلہ ضروریات دین میں شامل ہوگیا۔اب بعد کے کسی مفتی کواپنی تحقیق کی بنیاد پر اختلاف کا حق حاصل نہیں،کیوں کہ ضروری دینی میں اجتہاد کے ذریعہ نئی راہ اختیار کرنے والا مر تدہے۔
کفرکلامی میں ساری محتمل جہات قطعی بالمعنی الاخص ہوجاتی ہیں۔قطعی بالمعنی الاخص میں عوام وخواص کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ قطعی بالمعنی الاخص کااحتمال بالدلیل اوراحتمال بلادلیل سے پاک ہونا عوام کے لیے بھی واضح ہوتا ہے۔
جب قطعی بالمعنی الاخص کی قطعیت اس قد ر روشن ہوتی ہے تو پھر کفرکلامی کی صحت وعدم صحت بھی سب کے لیے یقینا قابل فہم ہو گی۔ماننا اور نہ ماننا الگ بات ہے۔
فرقہ سو فسطائیہ اور فرقہ لاادریہ موجود چیزوں کابھی انکارکرتے ہیں۔ایسے انکار کا کوئی اعتبار نہیں۔ اہل علم کا قطعی بالمعنی الاعم میں بھی اختلاف نہیں ہوتا اور قطعی بالمعنی الاخص میں توعوام وخواص کسی کا اختلاف نہیں ہوتا
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت ، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
گزشتہ قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع