تحریر: شمیم اختر مصباحی، قرآن پاک میں شان صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
خاص اُس سابقِ سیرِ قربِ خدا
اَوحدِ کاملیت پہ لاکھوں سلام
سایۂ مصطی ، مایۂ اِصطفا
عِز و نازِ خِلافت پہ لاکھوں سلام
اصدقُ الصَّادقین ، سیدالمُتقین
چَشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے رسالہ الزُلالُ الأَنْقٰی مِنْ بَحْرِ سَبْقَۃِ الأَتْقٰی میں‘‘حضرت امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃ الہادی کی تفسیر ‘‘ مفاتیح الغیب ’’ سے ایک نفیس نکتہ نقل فرمایا ہے:
مفاتیح الغیب میں ہے: سورۂ [ وَالَّیْل ] حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی سورت ہے اور سورۂ [ وَ الضُّحٰی ] محمد رسول اللہ ﷺ کی سورت ہے۔ ان دونوں سورتوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تاکہ خوب اچھی طرح جان لیا جائے کہ محمد ﷺاور ابو بکر کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اگر تم پہلے [ وَالَّیْل ] کا ذکر کرو،تو اس سے ابو بکر مراد ہیں۔ پھرجب آگے بڑھوگے تو اس کے بعد دن پاؤگے، اوراس سے مراد محمدﷺ ہیں۔ اور اگر پہلے [ وَ الضُّحٰی ] کا ذکر کروگے تو اس سے محمدﷺ مراد ہیں، پھر جب نیچے اتروگے تو [ وَالَّیْل ] کو پاؤگے اور وہ حضرت ابو بکر ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اس نفیس نکتہ پر اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے افادہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: میں کہتا ہوں: سورۂ [ وَالَّیْل ] کی تقدیم اس تقدیر (اس عمدہ نکتہ آفرینی ) پر اس لیے ہے کہ یہ سورت حضرت صدیق اکبر کی شان میں کفار کے طعن و تشنیع کے جواب میں ہے
اور سورۂ [ وَ الضُّحٰی ] سید المرسلین کی شان پاک میں کفار کےطعن و تشنیع کے جواب میں ہے۔ اور حضور ﷺ کی براءت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی براءت کو مستلزم نہیں ،کیوں کہ حضورﷺ کی ذاتِ پاک اعلی و ارفع ہے اور اعلی کی براءت ادنی کی براءت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔
اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی براءت سے حضور ﷺ کی براءت بدرجۂ اولی ثابت ہوتی ہے۔ یوں کہ صدیق اکبر بری ہیں ؛ اس لیے کہ آپ اس براءت والی صاف ستھری ذات ﷺ کے غلام ہیں۔(جب غلام کفار کے طعن سے بری ہے تو آقا کی براءت یقیناً بدرجۂ اولی ہوگی۔)
تو [ وَالَّیْل ] کو مقدم کرنے میں دنوں طعنوں کا ایک ساتھ اور فوری جواب ہے۔ اور اگر سورۂ والیل کو بعد میں ذکر کیا جاتا تو حضرت صدیق اکبر کے طعن کاجواب موخر ہو جاتا۔
ان مضامین کو بھی پڑھیں
مزید افادہ کرتے ہوئے سرکار اعلی حضرت فرماتے ہیں: اقول: حضرت صدیقِ اکبر کی شان میں نازل ہونے والی سورت کو [ وَالَّیْل] اور حضور پُرنورﷺ کی شانِ پاک میں نازل ہونے والی سورت کو [ وَ الضُّحٰی ] کے نام سے موسوم کیا گیا۔
اس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صدیق اکبر کے نور ، ان کی ہدایت ، اور اللہ عزو جل کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ ہیں۔اور وسیلہ سے ہی اللہ عزّ و جلّ کا فضل اور اس کی رضا طلب کی جاتی ہے۔
اور صدیق اکبر حضور نبی کریم ﷺ کی راحت ،انس ، سکون اور اطمینانِ نفس کا ذریعہ ہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاص معاملات کے مصاحب و محرم راز ہیں۔ کہ اللہ عز و جل کا ارشاد ہے: [وَجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسا] اور ہم نے رات کو پردہ پوش کیا۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: [جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا ِمنْ فَضْلِہِ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ] تمھارے لیے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو ، اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو ، اور اس لیے کہ تم حق مانو۔
نیز اس بات کی جانب بھی اشارہ مقصود ہے کہ دین کا نظام ان دونوں ہستیوں سے قائم ہے جس طرح دنیوی نظام رات اور دن کے ذریعہ قائم ہے۔ اگر دن نہ ہوتا تو کچھ نظر نہ آتا ، اور رات نہ ہوتی تو سکون و قرار حاصل نہ ہوتا۔ فالحمد للہ العزیز الغفار۔ [عربی سے ترجمہ]
(رسالہ الزُلالُ الأَنْقٰی مِنْ بَحْرِ سَبْقَۃِ الأَتْقٰی مشمولہ فتاوی رضویہ ،ج۲۱،ص۳۸۴،امام احمد رضا اکیڈمی ،بریلی)
از:شمیم اختر مصباحی
۱۳/ جُمادی الآخِرہ۱۴۴۳ھ