افضل البشر بعد الرسل رضی اللہ عنہ ، از : امام احمد رضا علیہ الرحمۃ و الرضوان
افضل البشر بعد الرسل رضی اللہ عنہ
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت، عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن’’ فتاوی رضویہ ‘‘شریف میں فرماتے ہیں :
’’اہل سنت وجماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ ورسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت ووجاہت وقبول وکرامت وقرب وولایت کو نہیں پہنچتا۔ {وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ } فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدہم، ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم۔ اس مذہبِ مہذب پر آیاتِ قرآنِ عظیم واحادیث ِکثیرہ ٔ حضورپرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ وصحبہ الصلوۃ والتسلیم وارشادات جلیلۂ واضحۂ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمئہ اہلبیت طہارت وار تضاواجماعِ صحابۂ کرام وتابعین عظام وتصریحاتِ اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے وہ دلائل باہر ہ وحجج قاہر ہ ہیں جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔
’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج ۲۸ ، ص ۴۷۸۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :
ان سب میں افضل وا علیٰ و اکمل حضرات عشرہ مبشرہ ہیں وہ دس صحابی جن کے قطعی جنتی ہونے کی بشارت وخوشخبری رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں سنادی تھی وہ عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں ۔ یعنی حضرات خلفائے اربعہ راشدین،حضرت طلحہ بن عبید اﷲ،حضرت زبیر بن العوام،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت سعید بن زید،حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ۔ ؎
دہ یار بہشتی اند قطعی بوبکر و عمر عثمان وعلی
سعد ست سعید وبوعبیدہ طلحہ ست وزبیر وعبدالرحمن
اور ان میں خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور ان چار ارکان قصر ملت (ملّت اسلامیہ کے عالی شان محل کے چار ستونوں ) و چار انہار باغ شریعت (اور گلستان ِ شریعت کی ان چار نہروں ) کے خصائص وفضائل ،کچھ ایسے رنگ پر واقع ہیں کہ ان میں سے جس کسی کی فضلیت پر تنہا نظر کیجئے یہی معلوم (و متبادرو مفہوم) ہوتا ہے کہ جو کچھ ہیں یہی ہیں ان سے بڑھ کر کون ہوگا ؎
بہر گلے کہ ازیں چار باغ می نگرم
بہار دامن دل می کشد کہ جا این جاست
(ان چار باغوں میں سے جس پھول کو میں دیکھتا ہوں تو بہار میرے دل کے دامن کو کھینچتی ہے کہ اصل جگہ تو یہی ہے)۔
علی الخصوص شمع شبستان ولایت ، بہار چمنستانِ معرفت، امام الواصلین،سیّد العارفین، (واصلانِ حق کے امام اہل معرفت کے پیش رو) خاتمِ خلافت نبوت، فاتح سلاسل طریقت ، مولیٰ المسلمین ، امیر المومنین ابوالائمۃ الطاھرین (پاک طینت ،پاکیزہ خصلت، اماموں کے جد امجد طاہر مطہر، قاسمِ کوثر، اسد اﷲالغالب،مظہر العجائب والغرائب، مطلوب کل طالب،سیدنا و مولانا علی بن ابی طالب کرّم اﷲتعالٰی وجہہ الکریم وحشرنا في زمرتہ في یوم عقیم کہ اس جناب گردوں قباب (جن کے قبہ کی کلس آسمان برابر ہے ان ) کے مناقب جلیلہ (اوصافِ حمیدہ) ومحامد جمیلہ ( خصائل حسنہ) جس کثرت و شہرت کے ساتھ (کثیر و مشہورزبان زد عام و خواص) ہیں دوسرے کے نہیں ۔
(پھر) حضرات شیخین،صاحبین صہرین (کہ ان کی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں اور امہات المومنین مسلمانوں ایمان والوں کی مائیں کہلائیں ) وزیرین (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد کہ میرے دو وزیر آسمان پر ہیں جبرائیل ومیکائیل اور دو وزیر زمین پر ہیں ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) امیرین ( کہ ہر دو امیر المومنین ہیں )مشیرین (دونوں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کے رکن اعظم)ضجیعین (ہم خواجہ اور دونوں اپنے آقا و مولیٰ کے پہلو بہ پہلو آج بھی مصروفِ استراحت ) رفیقین (ایک دوسرے کے یارو غم گسار)
سیّدنا و مولٰنا عبداﷲالعتیق ابوبکر صدیق و جناب حق مآب ابوحفص عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شانِ والا سب کی شانوں سے جداہے اور ان پر سب سے زیادہ عنایت خدا و رسول ِ خدا جل جلالہ و صلے اﷲتعالیٰ علیہ وسلم ہے بعد انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین کے جو مرتبہ ان کا خدا کے نزدیک ہے دوسرے کا نہیں اور رب تبارک و تعالیٰ سے جو قرب و نزدیکی اور بارگاہِ عرش اشتباہ رسالت میں جو عزت و سر بلندی ان کا حصہ ہے اوروں کا نصیبا نہیں اور منازل جنت ومواہب بے منت میں انہیں کے درجات سب پر عالی فضائل و فواضل (فضیلتوں اور خصوصی بخششوں ) و حسنات طیبات (نیکیوں اور پاکیزگیوں ) میں انہیں کو تقدم و پیشی ( یہی سب پر مقدم،یہی پیش پیش) ہمارے علماء و ائمہ نے اس (باب) میں مستقل تصنیفیں فرما کر سعادتِ کونین و شرافتِ دارین حاصل کی(ان کے خصائل تحریر میں لائے،ان کے محاسن کا ذکر فرمایاان کے اولیات و خصوصیات گنائے) ورنہ غیر متناہی (جو ہماری فہم و فراست کی رسائی سے ماورا ہو اس)کا شمار کس کے اختیار، واﷲالعظیم اگر ہزاروں دفتر ان کے شرح فضائل (اور بسط فواضل) میں لکھے جائیں یکے ازہزار تحریر میں نہ آئیں ۔
وعلی تفنن واصفیہ بحسنہ
یغني الزمان وفیہ ما لم یوصف
(اور اس کے حسن کی تعریف کرنے والوں کی عمدہ بیانی کی بنیاد پر زمانہ غنی ہوگیا اور اس میں ایسی خوبیاں ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا)مگر کثرتِ فضائل و شہرتِ فواضل (کثیر در کثیر فضیلتوں کا موجود اور پاکیزہ و برتر عزتوں مرحمتوں کا مشہور ہونا) چیزے دیگر (اور بات ہے) اور فضیلت و کرامت (سب سے افضل اور بارگاہِ عزت میں سب سے زیادہ قریب ہونا) امرے آخر (ایک اور بات ہے اس سے جدا و ممتا ز) فضل اﷲتعالیٰ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرمائے : {قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِۚ-یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ } ۔
اس کی کتاب کریم اور اس کا رسول عظیم علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ والتسلیم علی الاعلان گواہی دے رہے ہیں ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد ماجد مولیٰ علی کرم اﷲوجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں : کہ فرماتے ہیں : (( کنت عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأقبل أبو بکر وعمر، فقال : یا علي : ھذان سیّدا کہول أھل الجنۃ وشبابھا بعد النبیین والمرسلین ))۔ ’’ المسند ‘‘ للإمام أحمد، الحدیث : ۶۰۲ ، ج ۱ ، ص ۱۷۴۔’’ سنن الترمذي ‘‘ ، کتاب المناقب، الحدیث : ۳۶۸۵ ، ج ۵ ، ص ۳۷۶۔ و ’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ، کتاب السنۃ، فضل أبي بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ، الحدیث : ۱۰۰ ، ج ۱ ، ص ۷۵۔
’’میں خدمت اقدس حضور افضل الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر تھا کہ ابوبکر و عمر سامنے آئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ علی!یہ دونوں سردار ہیں اہل جنت کے سب بوڑھوں اور جوانوں کے، بعد انبیاء و مرسلین کے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے راوی،حضور کا ارشاد ہے: (( أبو بکر وعمر خیر الأولین والآخرین وخیر أھل السموات وخیر أھل الأرضین إلّا النبیین والمرسلین ))۔ رواہ الحاکم في ’’ الکنی ‘‘ وابن عدی وخطیب ۔
ابوبکر و عمر بہتر ہیں سب اگلوں پچھلوں کے،اور بہتر ہیں سب آسمان والوں سے اور بہتر ہیں سب زمین والوں سے،سوا انبیا و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کے۔’’ کنز العمال ‘‘ ، کتاب الفضائل، فضائل أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ تعالی عنہما، ج ۱۱ ، ص ۲۵۶ ، الحدیث : ۳۲۶۴۲۔
حضرت مولیٰ علی کرم اﷲتعالیٰ وجہہ نے بار بار اپنی کرسی مملکت و سطوت (و دبدبہ)خلافت میں افضلیت مطلقہ شیخین کی تصریح فرمائی (اور صاف صاف واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا کہ یہ دونوں حضرات علی الاطلاق بلا قیدِ جہت و حیثیت تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں ) اور یہ ارشاد ان سے بتواتر ثابت ہوا کہ اسّی سے زیادہ صحابہ و تابعین نے اسے روایت کیا۔ اور فی الواقع اس مسئلہ (افضلیت شیخ کریمین)کو جیسا حق مآب مرتضوی نے صاف صاف واشگاف بہ کرّات و مرّات (بار بار موقع بہ موقع اپنی ) جَلَوات وخلوات (عمومی محفلوں ،خصوصی نشستوں ) و مشاہد عامہ و مساجد جامعہ (عامۃ الناس کی مجلسوں اور جامع مسجدوں ) میں ارشاد فرمایا دوسروں سے واقع نہیں ہوا۔(ازاں جملہ وہ ارشاد گرامی کہ) امام بخاری رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزادۂ جناب امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی : قال : قلت لأبي : أيّ الناس خیرٌ بعد النبي صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ؟ قال : (( أبو بکر، قال : قلت : ثم من ؟ قال : عمر ))۔
یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ سے عرض کیا: کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’ابو بکر، میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا: عمر‘‘۔’’ صحیح البخاري ‘‘ ، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث : ۳۶۷۱ ، ج ۲ ، ص ۵۲۲۔
ابوعمر بن عبداﷲحکم بن حجل سے اور دار قطنی اپنی ’’سنن‘‘ میں راوی جناب امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ فرماتے ہیں : (( لا أجد أحداً فضلني علی أبي بکر وعمر إلّا جلدتہ حد المفتري )) ’’ الصواعق المحرقۃ ‘‘ ، ص ۶۰۔
جسے میں پاؤں گا کہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے مجھے افضل بتاتا (اور مجھے ان میں سے کسی پر فضیلت دیتا )ہے اسے مُفتری (افتراء و بہتان لگانے والے) کی حد ماروں گا کہ اسّی کوڑے ہیں ۔
ابوالقاسم طلحی ’’کتاب السّنّتہ‘‘ میں جناب علقمہ سے راوی: بلغ علیّا أنّ أقواماً یفضّلونہ علی أبي بکر وعمر فصعد المنبر فحمد اﷲ وأثنی علیہ ثم قال : أیہا الناس! (( أنّہ بلغني أنّ أقواماً یفضّلوني علی أبي بکر وعمر ولو کنت تقدمت فیہ لعاقبت فیہ فمن سمعتہ بعد ھذا الیوم یقول ھذا فھو مفتر، علیہ حد المفتري، ثم قال : إنّ خیر ھذہ الأمۃ بعد نبیہا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم أبو بکر ثم عمر ثم اﷲ أعلم بالخیر بعدہ، قال : وفي المجلس الحسن بن علي فقال : واﷲ لو سمّی الثالث لسمی عثمٰن ))۔
یعنی جناب مولیٰ علی کو خبر پہنچی کہ لوگ انہیں حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر تفضیل دیتے (اور حضرت مولیٰ کو ان سے افضل بتاتے)ہیں ، پس منبر پر تشریف لے گئے اور اﷲتعالیٰ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا :اے لوگو!مجھے خبر پہنچی کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر و عمر سے افضل بتاتے ہیں اور اگر میں نے پہلے سے سُنا ہوتا تو اس میں سزا دیتا یعنی پہلی بار تفہیم (وتنبیہ) پر قناعت فرماتا ہوں پس اس دن کے بعد جسے ایسا کہتے سنوں گا تو وہ مفتری (بہتان باندھنے والا)ہے اس پر مفتری کی حد لازم ہے
پھر فرمایا :بے شک بہتر اس امت کے بعد ان نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ابوبکر ہیں ، پھر عمر، پھر خداخوب جانتا ہے بہتر کو ان کے بعد، اور مجلس میں امام حسن (رضی اللہ عنہ)بھی جلوہ فرما تھے انہوں نے ارشاد کیا: خدا کی قسم !اگر تیسرے کا نام لیتے تو عثمٰن کا نام لیتے۔ ’’ إزالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ‘‘ بحوالہ أبي القاسم مسند علي بن أبي طالب، ج ۱ ، ص ۶۸۔
بالجملہ احادیث ِ مرفوعہ و اقوالِ حضرت مرتضوی و اہل بیت نبوت اس بارے میں لا تعداد ولا تحصی (بے شمار ولا انتہا) ہیں کہ بعض کی تفسیر فقیر نے اپنے رسالہ تفضیل میں کی ۔ اب اہل سنت (کے علمائے ذوی الاحترام)نے ان احادیث و آثار میں جو نگاہ غور کو کام فرمایا تو تفضیل شیخین کی صدہا تصریحیں (سیکڑوں صراحتیں ) علی الاطلاق پائیں کہیں جہت و حیثیت کی قید نہ دیکھی کہ یہ صرف فلاں حیثیت سے افضل ہیں اور دوسری حیثیت سے دوسروں کو افضیلت (حاصل ہے)
لہذا انہوں نے عقیدہ کرلیا کہ گو فضائل خاصہ و خصائص فاضلہ (مخصوص فضیلتیں اور فضیلت میں خصوصیتیں ) حضرت مولیٰ ( علی مشکل کُشا کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ) اور ان کے غیر کو بھی ایسے حاصل (اور بعطائے الہٰی وہ ان خصوصیات کے تنہا حامل) جو حضرات شیخین (کریمین جلیلین ) نے نہ پائے جیسے کہ اس کا عکس بھی صادق ہے (کہ امیرین وزیرین کو وہ خصائصِ غالیہ اور فضائل عالیہ بارگاہ ِ الہی سے مرحمت ہوئے کہ ان کے غیر نے اس سے کوئی حصہ نہ پایا)مگر فضل مطلق کُلّ (کسی جہت و حیثیت کا لحاظ کیے بغیر فضیلت مطلقہ کُلّیہ) جو کثرتِ ثواب و زیادتِ قُربِ ربّ الارباب سے عبارت ہے وہ انہیں کو عطا ہوا (اوروں کے نصیب میں نہ آیا)۔
اور (یہ اہل سنت و جماعت کا وہ عقیدہ ثابتہ محکمہ ہے کہ) اس عقیدہ کا خلاف اوّل تو کسی حدیث صحیح میں ہے ہی نہیں اور اگر بالفرض کہیں بوئے خلاف پائے بھی تو سمجھ لے کہ یہ ہماری فہم کا قصور ہے (اور ہماری کوتاہ فہمی) ورنہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور خود حضرت مولیٰ (علی) واہل بیت کرام (صاحب البیت ادرٰی بما فیہ کے مصداق اسرار خانہ سے مقابلۃً واقف تر)کیوں بلا تقیید (کسی جہت و حیثیت کی قید کے بغیر) انہیں افضل و خیر امت و سردار اوّلین و آخرین بتاتے
کیا آیہ کریمہ: { فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى
الْكٰذِبِیْنَ } (تو ان سے فرمادو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں )
و حدیث صحیح :(( من کنتُ مولاہ فعلي
مولاہ )) ۔(جس کا میں مولا ہوں تو علی بھی اس کا مولا ہے)’’ سنن الترمذي ‘‘ ، کتاب المناقب، الحدیث : ۳۷۳۳ ، ج ۵ ، ص ۳۹۸۔ ’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ، کتاب السنۃ، الحدیث : ۱۲۱ ، ج ۱ ، ص ۸۶۔
اور خبر شدید الضعف وقوی الجرح (نہایت درجہ ضعیف و قابل شدید جرح و تعدیل ) (( لحمک لحمي ودمک دمي )) (تمہارا گوشت میرا گوشت اور تمہارا خون میرا خون ہے) ’’ کنز العمال ‘‘ ، کتاب الفضائل، فضائل علي رضي اللّٰہ تعالی عنہ، ج ۱۱ ، ص ۲۷۹ ، الحدیث : ۳۲۹۳۳۔
برتقدیر ثبوت (بشرطیکہ ثابت وصحیح مان لی جائے) وغیر ذلک (احادیث و اخبار)سے انہیں آگاہی نہ تھی(ہوش و حواس علم و شعور اور فہم وفراست میں یگانہ روزگار ہوتے ہوئے ان اسرارِ درون خانہ سے بیگانہ رہے اور اسی بیگانگی میں عمریں گزاردیں ) یا (انہیں آگاہی اور ان اسرار پر اطلاع)تھی تو وہ (ان واضح الدلالۃ الفاظ کا) مطلب نہ سمجھے(اور غیرت و شرم کے باعث اور کسی سے پوچھ نہ سکے) یا سمجھے (حقیقت ِ حال سے آگاہ ہوئے) اور اس میں تفضیل شیخین کا خلاف پایا (مگر خاموش رہے اور جمہور صحابہ کرام کے برخلاف عقیدہ رکھا زبان پر اس کا خلاف نہ آنے دیا اور حالاں کہ یہ ان کی پاک جنابوں میں گستاخی اور ان پر تقیہّ ملعونہ کی تہمت تراشی ہے) تو (اب ہم )کیوں کر خلاف سمجھ لیں (کسے کہہ دیں کہ ان کے دل میں خلاف تھا زبان سے اقرار )
اور تصریحات بیّنہ و قاطع الد لالۃ (روشن صراحتوں قطعی دلالتوں ) وغیر محتملۃ الخلاف کو (جن میں کسی خلاف کا احتمال نہیں کوئی ہیر پھیر نہیں )کیسے پس پشت ڈال دیں الحمد ﷲرب العلمین کہ حق تبارک و تعالیٰ نے فقیر حقیر کو یہ ایسا جواب شافی تعلیم فرمایا کہ منصف (انصاف پسندذی ہوش)کے لیے اس میں کفایت (اور یہ جواب اس کی صحیح رہنمائی وہ ہدایت کے لیے کافی) اور متعصب کو (کہ آتش غلو میں سُلگتا اور ضد و نفسانیت کی راہ چلتا ہے) اس میں غیظ بے نہایت { قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْ } (انہیں آتش ِ غضب میں جلنا مبارک) (ہم مسلمانانِ اہل سنت کے نزدیک حضرت مولیٰ کی ماننا) یہی محبتِ علی مرتضیٰ ہے اور اس کا بھی (یہی تقاضا )یہی مقتضیٰ ہے کہ محبوب کی اطاعت کیجئے اور اس کے غضب اور اَسّی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے (والعیاذ باﷲ)‘‘۔ ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج ۲۹ ، ص ۳۶۳ تا ۳۷۰۔
نوٹ : ’’فتاوی رضویہ‘‘ شریف کے مندرجہ بالا کلام میں قوسین ( ) کی عبارت ، حضرت خلیل ملت علامہ مولانا خلیل خان قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ہے
ان مضامین کو بھی پڑھیں