تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی چیرمین: تحریک علماے ہند، جے پور سفر نامہ عرب کی 2 قسط: عربی تقدسات کے حقائق و مشاہدات :: قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
سعودی عرب میں ہماری دوسری دعوت یہاں کے دوسرے دن دوپہر میں حضرت مولانا دولت صاحب کے حجرے میں ہوئی۔ مولانا کے ہم دم مسجد کے بنگالی خادم ہوا کرتے ہیں اور بنگالی دنیا بھر میں اس بات کے لیے بد نام ہیں کہ وہ جتنی محنت کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں، اتنی ہی محنت اور دل چسپی کے ساتھ لذیذ کھانا بناتے بھی ہیں۔
بھائی کی بنائی ہوئی مچھلی اور بکرے کے قورمے نے ان کی بدنامی کی دل پر مہر لگا دی۔ ہم انگلیاں چاٹتے ہوئے اس وقت تو ان کی اردو فہمی کے مطابق انھیں اس سے زیادہ کچھ نہ سمجھا سکے کہ آپ نے کھانا بہت لذیذ بنایا ہے لیکن اس کا چسکا اتنا زبردست تھا کہ کھانے کا اچھا ذوق رکھنے والے ہمارے حافظ صاحب پورے سفر میں بار بار اس کھانے کو یاد کرتے رہے۔
کھانے کے بعد -اللہ نیکی دے- مولانا صاحب کی مسجد کا دل سے جائزہ لیا۔ یہ عام سی عربی مسجد اتنی خاص ہے کہ اگر یہ ہماری زمینوں پر اتار دی جائے تو لوگ چل کر دیکھنے آیا کریں۔ یہاں مسجدوں کے باہر ایک خاص چیز یہ نوٹ کی کہ مسجد کے نام کے ساتھ کیو آر کوڈ کی تختی لگی ہوتی ہے، جسے اسکین کرنے سے موبائل میں مسجد کی مکمل تفصیل کھل جاتی ہے۔
کل سے اب تک مسجدوں کی باتیں چل رہی ہیں اور آگے بھی چلتی رہیں گی اس لیے قبل از وقت مناسب ہوگا کہ عربی مسجدوں اور ان کے مذہبی تقدسات پر مثبت/ منفی تبصرے کا بڑا قرض ایک ساتھ ادا کر دیا جائے تاکہ نظریے کی طرح بہت حد تک امیج بھی کلیر ہو جائے۔
شاید دبئی کے سفرنامے میں یہ بات ذکر کرچکا ہوں کہ مسلمانوں کے یہاں نمازوں میں بلا کا تنوع پیدا ہو گیا ہے۔ ایک خدا کے لیے پڑھی جانے والی نمازوں میں اتنے رنگ نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
عرب دنیا میں یہ تو خوب ذوق پایا جاتا ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں، اس لیے بارہا اکیلا انسان بھی امام بنا نظر آتا ہے بلکہ مدینہ شریف سے واپسی کے وقت ایئرپورٹ کے پریئر روم میں مجھے بچشم خود یہ نازک مرحلہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک شخص اکیلا نماز پڑھ رہا تھا،
دوسری رکعت میں تھا کہ کوئی آیا اور اشارہ کر کے اس کی اقتدا کرنے لگا، یہ امام صاحب اپنی نماز مکمل کر کے گئے اور مسبوق ابھی اپنی نماز پوری کر رہا تھا کہ کوئی تیسرا شخص آیا اور اسے اشارہ کر کے اس کی اقتدا کرنے لگا۔
لیکن ہمارے لیے خشک پہلو یہ ہو جاتے ہیں کہ ان نمازوں میں کبھی آگے پیچھے چلنا بھی ہوتا ہے، ضرورت پڑنے پر باتیں بھی ہو جاتی ہیں بلکہ موبائل کے چھوٹے موٹے کام نکالنے میں بھی دقت نہیں محسوس کی جاتی۔ نماز تراویح میں بالعموم دیکھ کر قراءت کی جاتی ہے۔ کسی بھی مسجد کے نمازیوں پر تجزیاتی نظر ڈالیے تو کوئی رفع یدین کر رہا ہوتا ہے، کوئی نہیں۔
دعائے قنوت کے علاوہ نمازوں کے بعد دعاؤں کو انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، ویسے ہی جیسے نوافل کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی اور ویسے ہی جیسے قرآن پاک کافی حد تک پڑھا جاتا ہے لیکن کافی حد تک اس کا ادب نہیں کیا جاتا۔ یہاں امامت کے لیے با ریش ہونے کی شرعی ضرورت کہیں نہیں محسوس کی جاتی اور نہ ہی عام امامتوں کے لیے قراءت کی درستگی پر بہت زیادہ توجہ ہوتی ہے۔
ہم نے دوران سفر کچھ ایسے لوگوں کو بھی نمازیں پڑھاتے ہوئے دیکھا، جن کی قراءت تقریباً جاہلان ہند کی عجمیت سے ملتی جلتی ہوا کرتی تھی۔ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا، بالکل عیب نہیں سمجھا جاتا۔ جماعت ثانی کا اتنا زیادہ کلچر ہے کہ ابھی ایک جماعت نے سلام پھیرا ہوتا ہے کہ دوسری جماعت کھڑی ہو چکی ہوتی ہے۔
مسجدوں میں عام طور پر نمازیوں کی راحت کے لیے بڑے خوب صورت کھڑے تکیے لگے ہوتے ہیں۔ یہ انتظام بڑا بھایا کیوں کہ یہ تکیے جہاں بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، وہیں پیچھے والی صف کے لیے سترے کی حیثیت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔
اگرچہ احادیث کریمہ میں صراحت کے باوجود نمازی کے آگے سے گزرنا یہاں کچھ برا نہیں سمجھا جاتا اور سترے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ہاں! ان دل بھاتے تکیوں کے اس پہلو پر غور کیا جانا چاہیے کہ کیا سچ مچ مسجدوں میں اتنے زیادہ پر تکلف اور آرام دہ انتظام کی ضرورت ہے؟
یہ کوئی بہت زیادہ قابل ذکر پہلو تو نہیں لیکن پھر بھی چوں کہ ہمارے یہاں اس سلسلے میں نہایت بے اعتنائی برتی جاتی ہے، اس لیے یہ بات کہنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ عربی مسجدوں کے مائک سیٹ کی تعریف کی جانی چاہیے۔
نہایت متناسب آواز، جس میں نہ کوئی گونج ہوتی ہے اور نہ سماعتوں پر بوجھ۔مسجد کی ہر جائے نماز تک آواز کی یکساں رسائی اور بنا کسی ملاوٹ کے اصل آواز کی جوں کی توں ترسیل کرنے والا اپڈیٹ سیٹ اپ۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں میں جانے کیوں غفلت برتی جاتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت قیمتی اور دیدہ زیب مسجدوں میں بھی مائک سیٹ اپ کا تقریباً وہی حال ہوتا ہے جو گھروں میں ٹوتھ برش کا ہوتا ہے۔
ہر چھوٹی بڑی مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا اور جن میں ہوتا ہے، ان میں خاص خطبہ جمعہ کے علاوہ انڈیا کی طرح وعظ کا اہتمام نہیں ہوتا۔ البتہ اگر حکومت کو کوئی خاص پیغام دینا مقصود ہوتا ہے تو تحریری خطبات میں دے دیا جاتا ہے اور اس کو تقریباً اتنی ہی حیثیت دی جاتی ہے، جتنی نص قطعی کی پیروی کی جانی چاہیے۔
مجھے عربی ممبر و محراب کی بناوٹ ہمیشہ سے بہت پسند آتی ہے۔ لکڑیوں کی ساخت، ان کی اٹھان، صف میں جگہ نہ گھیرنے کا طریقہ اور ان کی دیدہ زیبی ہر چیز بلا کی جاذب نظر اور مناسب ہوتی ہے۔ اس خوب صورت طرز تعمیر کو ہر مسجد میں فالو کیا جانا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل یہاں تبلیغی جماعت کا دور دورہ ہوا کرتا تھا
لیکن آج کل ان پر مجرمانہ حد تک پابندی ہے۔ ہاں! ابھی بھی تبلیغی جماعت کے لوگ یہاں اپنا کام کرتے ہیں لیکن نظریں بچا کر اور چھپ چھپا کر۔
تبلیغی جماعت کا جتنا بھی کام تھا، پرائیویٹ سطح پر تھا، حکومتی سطح پر وعظ و نصیحت کے لیے جمعرات کے دن دعوتی ٹولیاں بکھر جاتی تھیں لیکن لیکن پچھلے کچھ وقت سے وہ ٹولے بھی تقریباً لبرل ازم کے حوالے ہو چکے ہیں اور اب ان کا بھی اثر برائے رسم رہ گیا ہے
بلکہ موجودہ بادشاہ سلامت کی جدت طرازی تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ اذان کی آواز کے علاوہ جماعت کی آواز پر بھی روک لگا دی گئی ہے
یہ آوازیں مسجد سے باہر نہیں جانی چاہیے، جس کا بھرپور اہتمام ہو رہا ہے جبکہ اس کے بالکل برخلاف گئے دنوں کی طرح اب یہاں نہ تو نمازوں کے وقت بازار سونے رہتے ہیں اور نہ نماز نہ پڑھنے والوں کو کسی مطوعے کی کوئی دہشت۔
بشمول مسجد نبوی شریف کے الگ الگ مسجدوں اور ان کے نمازیوں کے بیچ یہاں ایک تعجب خیز بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ مکبر جب سلام پھیرتا ہے، امام کے ساتھ سلام پھیرنے والے، اٹھ کر کوئی بیس قدم چل چکے ہوتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ حضرت مکبر کی یہ سستی مسلکی نوعیت کی ہوتی ہے یا ذاتی قسم کی یا پھر یہ کوئی نمازی فیشن ہے۔
حنفی المسلک کے لیے یہاں باجماعت نماز میں جو چیزیں سب سے زیادہ باعث تشویش ہوا کرتی ہیں، وہ رفع یدین اور آمین بالجہر جیسے مسائل سے کہیں آگے کی یہ فقہی نزاکتیں ہیں:
(الف) ائمہ حضرات سورہ فاتحہ اور سورت کے بیچ تین تسبیح سے زیادہ کا محسوس گیپ کرتے ہیں۔ کیوں کہ مقتدی کو بھی تو سورہ فاتحہ پڑھنا ہوتی ہے۔
(ب) عربیت کی شناخت کے طور پر متعارف کروائے گئے لال رومال کو ویسے ہی امامت کی شان سمجھا جاتا ہے، جیسے ہمارے ہاں حالت نماز میں عمامے کا اہتمام ہوتا ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ حالت نماز میں اس کے دونوں کنارے لٹکے رہتے ہیں، جسے اصطلاح شریعت میں سدل کہا جاتا ہے اور جس کی شرعی حیثیت کراہت کی ہے۔
(ج) امام کے لیے حالت سجدہ اور قعدہ کے لیے چھوٹے اور قیام و رکوع کے لیے بڑے مائک نصب ہوتے ہیں۔ ائمہ ان مائک کا اس قدر خیال کرتے ہیں کہ تلاوت کے وقت ان سے قریب ہو جاتے ہیں اور قراءت کے اختتام پر تھوڑا پیچھے ہٹ کر بائیں جانب ہو جاتے ہیں اور یہ کام ایک آدھ قدم آگے پیچھے ہٹا بڑھا کر انجام پاتا ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ امامت کے سلسلے میں سعودی اس قدر غیرت مند واقع ہوئے ہیں کہ اپنے ذوق جماعت کے باوجود کئی بار جماعت سے بالکل الگ تھلگ ہو جاتے ہیں، جب انھیں نظر آتا ہے کہ کوئی عجمی امامت کر رہا ہے۔ دراصل اس بابت ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہم کسی عجمی کے پیچھے نماز کیسے پڑھ لیں۔ ہاں! یہ غیرت مندانہ خو سب میں نہیں پائی جاتی، سو کل تک کے لیے الا ما شاء اللہ کا عالمانہ استثنا کر لیجیے۔
(جاری)